0
Thursday 31 Dec 2020 01:51

راہ شہادت کا راہی، ابو مھدی مہندس(2)

راہ شہادت کا راہی، ابو مھدی مہندس(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
اس جماعت کے رہبر و قائد آیت اللہ باقر الصدر کو 1980ء میں صدام نے شہید کر دیا۔ جس سے "حزب دعوت اسلامی" جسے "الدعوۃ" کہا جاتا تھا، صدام مخالف ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اس جماعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد تین وزراء اعظم یعنی حیدر العبادی، نوری مالکی اور ابراہیم جعفری کا تعلق "الدعوۃ" سے تھا۔ 1979ء میں جب شہید باقر الصدر کو گرفتار کیا گیا تو اس گرفتاری کے خلاف 12 جون 1979ء کو عراق میں ملک گیر احتجاج ہوا، جس میں حکومت نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا، عراقی تاریخ میں اسے "سترہ رجب کا انتفاضہ" کہا جاتا ہے۔ ان مظاہروں کو ترتیب دینے میں ابو مہدی مہندس کا بھی بنیادی کردار تھا، جس کی وجہ سے صدامی فورسز ابو مہدی کو گرفتار کرنے کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ ان مظاہروں میں شریک 1200 اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا اور ان میں سے 86 کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

صدام نے 16 جولائی 1979ء میں اقتدار پر قابض ہوتے ہی "الدعوۃ" کو مکمل طور پر ختم کرنے اور تمام رہنمائوں اور فعال کارکنوں کو گرفتار کرنے کا آپریشن شروع کیا۔ ابو مہدی اس پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے مجبوراً کویت کی طرف ہجرت کر گئے۔ جب کویتی حکومت نے صدام مخالف افراد کو عراق کے حوالے کرنے کا عمل شروع کیا تو ابو مہدی مہندس ایران منتقل ہوگئے۔ ایران میں آکر ابو مہدی کی سیاسی سرگرمیوں میں مزید تیزی آجاتی ہے اور اپ شہید باقرالحکیم کے ساتھ مل کر "مجلس اعلیٰ عراق" کی تاسیس و توسیع میں مصروف ہوگئے۔ 1993ء میں جب صدام کی جارحیت کے خلاف ایران میدان جنگ میں مشغول تھا تو مجلس اعلیٰ اسلامی کے انقلابی افراد کے ساتھ مل کر ابو مہدی نے ایرانی قیادت کو اس پر راضی کیا کہ عراق سے ایران ہجرت کرنے والے عراقی باشندے بھی صدام کے خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے 1983ء میں "بدر بریگیڈ" کی تشکیل عمل میں آتی ہے اور ابو مہدی اور اس کے دیگر عراقی ساتھیوں نے البدر بریگیڈ کی کمانڈ میں صدامی فورسز کے خلاف کئی معرکے لڑے جن مین پہلا معرکہ "خیبر فوجی آپریشن" تھا۔

2001ء میں ابو مہدی مہندس ابو لی بصری کی جگہ البدر بریگیڈ کی کمانڈ سنبھال لیتے ہیں۔ ابو مھدی 2003ء میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق واپس آجاتے ہیں اور ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں شرکت کرتے ہیں اور بابل کے عوام کی نمائندگی میں رکن پارلیمنٹ کا انتخاب جتینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن اس دوران امریکی اقدامات کی مخالفت اور عراق سے امریکی انخلاء کے شدید حامی ہونے کی وجہ سے امریکی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ابو مہدی کو دہشت گردوں کی فہرست میں قرار دے دیا جاتا ہے اور بابل سے انتخابات جیتنے کے باوجود امریکی دبائو کی وجہ سے پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے اور ان پر امریکی فورسز کا دبائو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ ایک بار پھر عراق سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے وہ عراق کی مختلف سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کو ایک سیاسی الائنس میں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جو امریکہ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔

شہید ابو مہدی مہندس کی زندگی کا اگلا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے، جب داعش نامی دہشت گرد گروہ عراق پر حملہ آور ہوتا ہے اور آیت اللہ سیستانی داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ ابو مہدی البدر بریگیڈ کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جہاد میں شریک ہو جاتے ہیں اور "الحشدالشعبی" کے نام سے تشکیل پانے والی رضاکار تنظیم کے ڈپٹی کمانڈر بن کر داعش کے خلاف جہاد میں مشغول ہو جاتے ہِیں۔ ابو مہدی مہندس البدر بریگیڈ کے ٘مجاہد اور کمانڈر کے حیثیت سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں سے بہت قریب تھے، لیکن داعش کے خلاف جنگ میں جب قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی وارد عمل ہوتے ہیں تو ان دو مجاہدوں کی جوڑی داعش اور ان کے حواریوں کے لیے ایک الہیٰ مصیبت بن کر نازل ہوتی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی نے داعش کے خلاف ملک گیر منصوبہ بندی کی اور موصل سے لے کر ہر اس دیہات اور گائوں تک دشمن کو شکست دینے کی کارروائی شروع کی، جہاں داعش یا اس سے وابستہ تکفیری عناصر موجود تھے۔

راہ خدا کے ان دو کمانڈروں نے جس دلیری، بہادری، منصوبہ بندی اور بصیرت سے تکفیری دشمن کو نقصان پہنچایا، امریکہ اور اس کے مغربی حواری اس کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے۔ دنیا کے 80 سے زائد ممالک سے تکفیری دہشت گردوں کو عراق و شام میں جمع کیا گیا، سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ریاستوں نے امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے نیز غاصب صہیونی حکومت کے تحفظ کے لیے جو روڈ میپ تیار کیا تھا، حاج قاسم اور ابو مہدی مہندس کی کوششوں سے ناکامی و شکست سے دوچار ہوگیا۔ حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس میں جہاں عسکری منصوبہ بندی میں مکمل ہم آہنگی تھی، وہاں دونوں کے اندر بہت سی خصوصیات مشترک تھیں۔ حاج قاسم کے ایک قریبی ساتھی کے بقول ان دونوں کمانڈروں میں مالک اشتر کی روح حلول کر گئی تھی۔ دونوں مالک اشتر کی طرح اپنے ولی و آقا کے فرمانبردار اور میدان جنگ کے شیر تھے۔ دونوں شب زندہ دار، اہل دعا اور عوام الناس و دوست و احباب کے لیے بہترین دوست اور مددگار تھے۔ دونوں اشد علی الکفار اور رحما بینھم کی عملی مثال تھے۔

شہید ابو مہدی مہندس کو زندگی میں کئی مواقع نصیب ہوئے، جب وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے جہادی راستے کو ترک کرکے کسی یونیورسٹی میں پروفیسر، کسی ملازمت میں سینیئر انجینئر یا سیاسی میدان اور پارلیمنٹ میں وزیر و مشیر بن سکتے تھے، لیکن انہوں ںے جہاد فی سبیل اللہ اور سامراج اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف عسکری جدوجہد کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ صدام کے خلاف محاذ جنگ ہو یا داعش سے مقابلے کا میدان، ابو مہدی کا شوق شہادت ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ابو مہدی جہاں صدامیوں، بعثیوں کی آنکھ کا کانٹا تھے، وہاں داعش اور امریکہ کے لیے موت کا فرشتہ تھے۔ دونوں کتوں کی طرح عراق اور عراق سے باہر ان کی بو سونگھتے پھرے، تاکہ آپ سے انتقام لے سکیں۔ دشمنوں مِیں گھرے ابو مہدی کو کبھی کسی نے خوفزدہ یا پریشان نہیں دیکھا۔ مجاہدین آپ کو محاذ جنگ کے اگلے مورچوں میں دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتے اور سیاستدان آپ کو عراقی سیاستدانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی کوششوں میں معروف دیکھ کر انگشت بداں ہو جاتے۔

شہید ابو مہدی کی شخصیت کا اگر چند الفاظ میں خلاصہ کیا جائے تو باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ولایت مداری، اخلاص، مقاومت، انکساری، مہربانی اور جہاد فی سبیل اللہ کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ خداوند عالم نے آپ کے خلوص کو پسند فرمایا اور آپ کو درجہ شہادت پر فائز کر دیا۔ حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس نے جس راہ کو انتخاب کیا تھا، اس کا ثمر اور نتیجہ شہادت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ آج جب ان کی شہادت کو ایک برس ہونے کو ہے، دل سے بے ساختہ یہ آواز اٹھتی ہے کہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس اگر 61 ہجری کربلا میں ہوتے تو مسلم بن عوسجہ، حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین کی طرح اپنے مولا و آقا پر جان نچھاور کر دیتے۔ شاید قرآن نے اسی طرح کے افراد کے بارے ارشاد فرمایا ہے، "اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا، جن سے اللہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے۔ مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے۔ راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہِیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔"
خبر کا کوڈ : 906963
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش