0
Sunday 3 Jan 2021 11:15

قاسم سلیمانی کو شیعت اور سنیت کا چشمہ اُتار کر دیکھیں

قاسم سلیمانی کو شیعت اور سنیت کا چشمہ اُتار کر دیکھیں
تحریر: تصور حسین شہزاد

قاسم سلیمانی کی شخصیت کیا تھی، اپنوں سے زیادہ دشمن انہیں جانتے تھے، ان کی عظمت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ دشمن کی آنکھ کا کانٹا تھے اور دشمن اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا، یہی وجہ ہے کہ دشمن انسانیت امریکہ نے عالمی قوانین پامال کرکے، انہیں عراقی سرزمین پر شہید کیا۔ قاسم سلیمانی نے جہاں انقلاب اسلامی کا دفاع کیا، وہیں انہوں نے خطے میں امریکہ و اسرائیل کی خطرناک پالیسیوں کی بلند و بالا عمارات کو بھی زمیں بوس کیا۔ سلیمانی کی مشرق وسطیٰ میں پلاننگ ہی تھی جس نے امریکہ کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکے رکھا بلکہ امریکہ کو بیک فٹ پر جانے پر بھی مجبور کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے جو گریٹر اسرائیل منصوبے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اور سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے۔ اس کی واضح مثال عرب حکمران ہیں، جنہوں نے قاسم سلیمانی کی شہادت کیساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی اپنے اقتدار کی بقاء سمجھی ہے۔ قاسم سلیمانی کی حیات میں ان عربوں کو بھی حوصلہ تھا کہ امریکہ و اسرائیل انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے اور اگر وہ آگے بڑھے بھی تو قاسم سلیمانی ہے نا۔

قاسم سلیمانی کا یہ جملہ پاکستانی قوم بڑے فخر سے بیان کرتی ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو پاکستان غیر جانبدار رہے گا، تو قاسم سلیمانی کا جواب تھا کہ "ایران پر حملے کی صورت میں پاکستان کا کیا ردعمل ہوگا اس کا تو مجھے پتہ نہیں، البتہ پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم غیر جانبدار نہیں رہیں گے بلکہ پاکستان کی حفاظت کیلئے سب سے پہلے پہنچیں گے" قاسم سلیمانی کا یہ رویہ صرف پاکستان کیلئے نہیں تھا بلکہ وہ پورے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کیلئے یہی جذبہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی عراق میں موجود ہوتے تو کبھی شام میں دکھائی دیتے۔ کبھی لبنان میں کھڑے اسرائیل کو للکار رہے ہوتے تو کبھی ترکی کی سرحدوں سے داعش کو ملنے والی مالی امداد پر نظر رکھے ہوئے ہوتے۔ خلافت عثمانیہ کے ٹھیکیدار ترکی کا تو یہ عالم تھا کہ یہ داعش کے ہاتھ مضبوط کرنے میں مصروف تھا۔ ترکی داعش سے تیل خرید کرکے اس کی مالی مدد کر رہا تھا۔

مغربی و دیگر ممالک سے داعش میں شمولیت کیلئے آنیوالے دہشتگردوں کیلئے ترکی ہی واحد دروازہ تھا، جو داعش کو افرادی قوت بھی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو رہا تھا۔ اس وقت ہمارے نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں کو ترکی کا کردار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس پر ہمارے نام نہاد اسلامسٹ کالم نگار بھی آنکھیں موندے بیٹھ گئے تھے۔ پھر امریکہ نے شام و عراق میں مقدس مقامات کو النصرہ فرنٹ اور مجاہدین جہاد اسلامی کے ذریعے مسمار کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا۔ اس منصوبے میں صحابہ کرام کے مزارات کو تباہ کرنا بھی شامل تھا، مگر پاکستان میں صحابہ کی محبت کی ٹھیکیدار سپاہ مکمل خاموش رہی۔ امریکہ کی پالتو مذکورہ تنظیموں نے جب اپنی اصلیت دکھانا شروع کی تو عراقی و شامی سنیوں کو احساس ہوا کہ یہ مسلمانوں کے لبادے میں ایجنٹ ہیں، جن کا دین اسلام سے دُور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں، یہی وجہ ہے کہ عراق کے سنیوں نے بھی شیعوں کیساتھ مل کر اہلبیت عظام اور صحابہ  کرام کے مزارات کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ داعش جیسے خطرناک ترین فتنے کو شکست دی۔ اس شکست کے پیچھے بھی قاسم سلیمانی کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور فکر تھی، جس نے امریکہ کے تمام منصوبے ملیا میٹ کر دیئے۔

جب کسی شہر میں آگ لگے تو دانشمندی یہ نہیں کہ اپنے دروازے تک اس آگ کے پہنچنے کا انتظار کیا جائے، عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس آگ کو شہر کے باہر ہی روکا جائے، تبھی شہر بھی بچے گا اور آپ کا گھر بھی بچے گا۔ قاسم سلیمانی نے ایران کی حفاظت کیلئے پورے مشرق وسطیٰ کو امریکی و اسرائیلی آگ سے بچایا ہے۔ آج جتنے بھی عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، انہوں نے محض اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اپنا آپ ان کے سپرد کر دیا ہے۔ انہیں صرف اس بات کا خطرہ تھا کہ اب ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا۔ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے انہوں نے اپنے ممالک کی باگ ڈور اسرائیل کے حوالے کر دی ہے۔ امریکہ کا نجس منصوبہ سنچری ڈیل، جس کے تحت اسرائیل کیلئے فلسطین کی سرزمین خریدی جانی تھی اور فلسطین کے عوام کو فلسطین سے نکال کر ہمسایہ ممالک، مصر، اردن اور دیگر میں جا بسانا تھا، قاسم سلیمانی کی فکر کی بدولت ہی ناکام ہوا۔ فلسطین کے غیور عوام نے اپنی دھرتی کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔

شام میں قاسم سلیمانی نے ہی ملیشیاء تشکیل دی تھی، جس نے نہ صرف مزارات مقدسہ کا بہترین انداز میں دفاع کیا بلکہ داعش کے فتنے کو بھی نکال باہر پھینکا۔ یہ دنیا کا دستور ہے کہ اپنے مفادات کیلئے ممالک بلاکس بناتے ہیں۔ ایران نے بھی خطے میں بلاک تشکیل دیا، جس میں چین اور روس نے بھی ایران کی مدد کی اور امریکہ کو شکست دی۔ اس میں شیعہ یا سنی کی تو بات ہی نہیں، ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو شیعہ اور سنی کی عینک پہن کر دیکھتے ہیں، ہمارے لئے فرقہ واریت کے یہ چشمے بھی "میڈ اِن یو ایس اے" اور "میڈ اِن یوکے" ہیں۔ ہم ہر معاملے میں یہ دیکھنے کے عادی ہیں کہ یہ کام کون کر رہا ہے، اگر کوئی اچھا کام کسی شیعہ نے کر دیا اور ہم سنی ہیں تو وہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہوگا اور اگر اس اچھائی کا مظاہرہ کسی سنی نے کیا اور ہم شیعہ ہیں تو ہم سوچنے لگ جاتے ہیں کہ اس کو قبول کریں یا نہ کریں، ہمارے ذہنوں میں یہ سوچ استعاری قوتوں کی پیدا کردہ ہے، ہمیں تعصب کے یہ چشمے اُتار پھینکنا ہوں گے۔

ہمیں بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کا سوچنا ہوگا۔ قاسم سلیمانی نے شیعوں کا نہیں، بلکہ اُمت مسلمہ کا سوچا، یہی ان کی فکر ہے کہ اگر کچھ بہتر کرنا ہے تو پوری امت کیلئے کیا جائے۔ ہمیں قاسم سلیمانی کی برسی پر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم شیعت اور سنیت کے چشمے اُتار کر امتِ محمدیہ کی بقاء کیلئے سوچیں گے۔ جس دن ہم نے تعصب کی عینک اُتار دی، وہ دن استعمار کی موت اور ناجائز ریاست کے خاتمے کا دن ہوگا۔ اور ان شاء اللہ وہ دن قریب ہے۔
خبر کا کوڈ : 907723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش