0
Thursday 25 Feb 2021 12:37

جشن آمد مولا علی (ع) مبارک۔۔۔۔ مگر؟

جشن آمد مولا علی (ع) مبارک۔۔۔۔ مگر؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

مولائے متقیان فرزند نگہبان رسالت، ہم سر سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علی ابن ابی طالب کی 13رجب المرجب کے مقدس دن خانہ کعبہ میں آمد ہوئی، یہ ایک ایسی سعادت ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں، روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کرکے عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔ پروردگارا! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچہ کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔ ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ اصلی حالت میں متصل ہو گئی۔

فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیرہ رجب دس سال قبل از بعثت کو بچہ کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے بعد جب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو بارہ شگافتہ ہوئی، آپ کعبہ سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا: میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے کہ اس بچے کا  نام علی رکھنا، کعبہ کی حرمت واضح ہے، اس کا مقام اور منزلت ہر مقام و مرتبے سے بلند ہے اور مولا علی کا اس میں تولد وہ بھی دیوار کعبہ شق ہو کر جناب فاطمہ بنت اسد کا اندر جانا بے مثال و بے مثل ہے۔ تاریخ ہمیں ایسا منظر اور منزلت دکھانے سے قاصر ہے، یقیناً یہ ولایت علی ابن ابی طالب پر متمکن ہر ایک شخص کیلئے باعث مسرت و شادمانی ہے، اس آمد پہ لا ریب فرشتے بھی خوش اور اس کائنات کا خالق و مالک بھی خوش، اس لئے کہ یہ ایسی خوشی ہے جس میں خالق کی محبوب ذات بہت شاداں اور نازاں ہے۔ اس لئے کہ علی فقط فرزند ابو طالب نہیں وصیء رسول اعظم بھی ہیں۔

علی ناصرف وصیء رسول اعظم ہیں بلکہ اخیء رسول فی الدنیا والآخرة ہیں، علی  فقط اخیء رسول نہیں بلکہ رسول کی اکلوتی اور پیاری دختر سیدہ زہراء سلام اللہ کے ہم کفو و ہم سر ہیں۔ اگر علی کا وجود مبارک نہ ہوتا تو فاطمہ کا کوئی کفو بھی نہ ہوتا، اس لئے جس خدا نے سیدہ طاہرہ، مطاہرہ فاطمہ کی شکل میں آپ ۖ کو کوثر عطا کیا، اسی خداوند نے مولائے کائنات کی شکل میں ہم سر بھی عطا فرمایا۔ مولا علی کی شان و مقام و منزلت کا کیا کہنا کہ ہر جہت سے آپ اپنے نام کی طرح بلند و اعلیٰ مقام ہیں اور ہر خصوصیت اور پہلو سے اپنی مثال آپ ہیں۔ مولائے کائنات امیر المومنان ہی ایسی ہستی ہیں، جن سے محبت کے دعویداروں نے تمام حدود کو پار کیا اور انہیں نعوذ باللہ خدا ماننے لگے۔ یہ ایک ایسے بندے کیلئے جو خود کو محمد کے بندوں میں سے ایک بندہ اور ہر رات ایک ہزار رکعت نماز باری تعالیٰ کے حضور پیش کرتے تھے اور شجاعت و بہادری کے اس شہسوار کے بارے تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کسی بڑی سے بڑی مشکل، جنگ یا دشمن کو سامنے پا کر گھبراہٹ بھاگ جاتی تھی، مگر ایک وقت ایسا ہوتا جب مولا کا رنگ تبدیل ہو جاتا اور وہ نماز سے قبل اذان کی آواز کیساتھ وضو کرتے ہوتا تھا۔

جب بھی نماز سے پہلے امیر المومنین کو دیکھا جاتا تو لوگ حیرت زدہ ہو جاتے کہ آپ کی رنگت پیلی پڑ جاتی، مالک و خالق کی بارگاہ میں حاضری اور ملاقات کیلئے آمادگی کے وقت یہ عالم بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ افسوس کہ ایسی ہستی کے نام لیوا اور محب ہونے کے دعویدار اپنے کردار و عمل میں آپ کے اتنے زیادہ مخالف ہیں کہ دیکھ کے رونا بھی آتا ہے اور ترس بھی۔ ماہ رجب خداوند کریم کی برکات اور نیکیاں سمیٹنے کا مہینہ ہے، اس میں مولا علی کیساتھ ساتھ اور بھی کئی آئمہ کی ولادت ہوئی ہے، اس لئے پوری دنیا میں ان مواقع پر خوشیوں کا سماں ہوتا ہے، ہر ایک مولا کی آمد کو عید سعید کے طور پہ ہی مناتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں اب محافل و مجالس اور جشن کے نام پر ہونے والی تقاریب کا ماحول کسی بھی طور اسلام، سیرت اہلبیت (ع) بالخصوص مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی شان اقدس کے مطابق نہیں بلکہ جو کچھ ان جشنوں میں ہوتا ہے، وہ سراسر اور کھلم کھلا سیرت اہلبیت کی نفی ہوتا ہے۔

آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان ہستیوں کی ولادت کا یہ حق ہے کہ ہم اور آپ ناچ، گانے، بھنگڑے، ہلڑ بازی، مکس مجمع، بے پردگی، شی میل ڈانس اور خواتین گلو کارائوں کی مدھر ساز و آوازیں سنا و دکھا رہے ہوں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے بیٹوں کی پیدائش پی کھسرے نچاتے تھے بلکہ جس گھر میں بیٹا پیدا ہوتا تھا، اس کے گھر کھسرے تاڑی مارتے پہنچ جاتے تھے، تب کھسرے بھی خالص ہوتے تھے، اب تو ان میں بھی ملاوٹ آچکی ہے، جبکہ یہ کلچر بھی بدل گیا ہے۔ اب مہذب اور معزز لوگ اس سے احتراز برتتے ہیں اور اسے مناسب نہیں سمجھتے، جبکہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جو لوگ اپنے بیٹے کی پیدائش پر کھسرے نچانا توہین سمجھتے ہیں، معاشرتی حوالے سے نامناسب سمجھتے ہیں، وہ امیر المومنان علی ابن ابی طالب (ع) کی کعبہ میں آمد پہ بازاروں، گلیوں اور درباروں پہ سارے بندھن توڑ دیتے ہیں، آخر مولا علی (ع) کے ساتھ ایسی عقیدت اور بے ہودگی کا کیا تعلق۔؟

یہ کس کی تہذیب ہے،؟ یہ کس کا کلچر ہے؟ آخر اس قوم میں کون لوگ ان مقدس ہستیوں کے نام پر یہ بے ہودگی پھیلا رہے ہیں، اس کو روکنا اور اسے ٹوکنا نیز آئمہ طاہرین کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق جشن کا اہتمام کرنا بانیان اور ملی و قومی تنظیموں نیز علمائے کرام و ذاکرین عظام کی ذمہ داری ہے۔ افسوس اگر کوئی ایسا کرنے والوں پر تنقید کرتا ہے یا اس بے ہودگی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مقصر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ سب کچھ کھلے عام ہونے دیا جائے اور تشیع کے نام پر بے ہودگی اور نصیریت کو پھیلنے دیا جائے، بلکہ اس کیلئے تسلسل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اب ایک دن کا کام نہیں رہا، اب ہر جشن ولادت اور شہادت کے ایام بھرپور طریقہ سے منائے جاتے ہیں اور ہر جگہ پروگرام منعقد ہوتے ہیں، اس لئے علمائے اخلاق کو میدان میں آکر نوجوان نسل کو حفظ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

نوجوان بھی جدید حالات اور ماحول کو سمجھیں کہ انہیں معاشرے میں کس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور کس چیز کی ضرورت ہے، سیرت و کردار اور افکار و اطوار کی یا پھر کسی قوال کی۔؟ خدارا ذمہ داری کامظاہرہ کیا جائے، مکتب امام صادق (ع) میں ایسا کچھ نہیں، لہذا اس سازش کا حصہ بننے کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا زیادہ مناسب ہے۔ گھر میں اپنے بیوی بچوں کیساتھ مولائے کائنات یا جس بھی معصوم کی ولادت و شہادت کا دن ہے، ان کی سیرت کا اجتماعی مطالعہ اور تذکر کر لیا جائے، اگرچہ گھر میں بیٹھنا مسئلہ کا حل نہیں ہے، مگر کسی ایسی محفل کا حصہ بننا جس میں اعمال کے حبط ہونے کا خدشہ ہو، اس سے گھر میں بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
خبر کا کوڈ : 918349
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش