1
1
Tuesday 30 Mar 2021 04:36

العجل جو کہتے ہیں آگئے تو کیا ہوگا؟

العجل جو کہتے ہیں آگئے تو کیا ہوگا؟
تحریر: سویرا بتول 

اس بات پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ آخری زمانہ میں رسولِ خداﷺ کی اولاد میں سے ایک شخص ظہور کرے گا، جو کہ دنیا کو اسی طرح عدل و عدالت سے پر کر دے گا، جیسے وہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔ امتِ مسلمہ کا یہ اتفاق ان صحیح احادیث کی وجہ سے ہے، جو اس سلسلہ میں پیغمبرِ اسلامﷺ سے نقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا؛ جس شخص نے مہدیؑ کے ظہور کا انکار کیا تو اِس نے کفر کیا۔ ام المومنین جنابِ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولِ خداﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مہدیؑ میری عترت سے اور اولادِ فاطمہ میں سے ہوگا۔ آج پوری انسانیت عالمی نجات دہندہ کی متلاشی ہے، ایک ایسے مسیحا کی جو آکر دنیا میں الہیٰ نظام قائم کرے گا، جہاں عدالت، مواسات، مساوات اور معنویت و فضیلیت کی حکومت ہوگی۔ اُس روز کی امید سے جس روز پوری دنیا نورِ ولایت سے روشن ہوگی۔
وجودِ حق سے یہ سارا نظام قائم ہے
کسی کے فیض سے یہ انتظام قائم ہے
وہ اور ہوں گے یتیمانِ مذہب و ملت
ہمارے سر پہ ہمارا امام قائم ؑ ہے


پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تمام تر کوشش اسلامی حکومت کی تشکیل میں صرف کر دی اور شہرِ مدینہ میں اس کی بنیاد ڈالی، لیکن آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اگرچہ معصومین اور علمائے دین حکومت اسلامی کی آرزو رکھتے تھے، لیکن انگشت شمار حکومتوں کے علاوہ کوئی الہیٰ حکومت نہیں بن سکی۔ دنیا کی وسعت اور گسترش کے سبب اس کی تدبیر انتہائی مشکل کام ہے، جسے صرف نظامِ الہیٰ اور اسلام کی حاکمیت کا اعتقاد رکھنے والے الہیٰ لیڈر اور دلسوز و ہمدرد خدمتگار ہی انجام دے سکتے ہیں اور آج دنیا اُسی منجی موعود اور مسیحا کی منتظر ہے، جس کا انتظار کرنے والا اور دعا کرنے والا بدر و احد کے شہداء سے افضل ہے۔

فرزندِ رسول، یوسفِ زہراؑ دنیا کو سنبھالنے کے لیے ایسے ایسے وزراء کو منتخب کریں گے، جو جنگی سابقہ رکھنے کے ساتھ ساتھ تجربہ و عمل کے اعتبار سے اپنی پائیداری و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرچکے ہوں گے۔ فرزند زہراؑ اس طرح حکومت تشکیل دیں گے اور لوگوں کی ایسی تربیت کریں گے کہ ان کے ذہن سے لفظ ستم مٹ جائے گا بلکہ روایات کے مطابق پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا، یہاں تک کہ حیوانات بھی ظلم و ستم سے باز آجائیں گے۔ گوسفند اور بھڑیئے ایک ساتھ مل بیٹھیں گے۔
ہاں وہ وعدہ الست کی تجدید کون ہے؟
غیبت کدے میں مظہر توحید کون ہے؟
بادل میں جو نہاں ہے وہ خورشید کون ہے؟
نبیوں کی اور اماموںؑ کی امید کون ہے؟


ہمارے امامؑ ہم سے اتنا قریب ہیں کہ ہمارے الفاظ ہمارے کان میں بعد میں پہنچتے ہیں، پہلے امامِ قائم سن لیتے ہیں۔ امام زمانہ کے لیے کوئی خاص کام کریں اور سب سے بہتر کام اخلاص کو پیدا کرنا ہے۔ العجل کی صدا جس قدر زباں سے ادا ہو، اُس سے زیادہ اہم ہے کہ ہمارے وجود سے العجل کی صدا آئے۔ وہ زاہد اور عابد افراد جن کا سختیوں اور جہاد سے تعلق نہیں ہے، وہ امام غائب کو دوست رکھتے ہیں، وہ امام قائم (ع) کو دوست نہیں رکھتے، کیونکہ امام قائم (ع) ان پر ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور اہل جہاد و سختیاں برداشت کرنے والا اور شیطان کے خلاف قیام کرنے والا بناتا ہے۔

آج امامؑ کو ایک فرد کی نہیں بلکہ امت کی ضرورت ہے۔ ہم خود سے سوال پوچھیں کہ کیا ہم وہ الہیٰ نظام تشکیل دے رہے ہیں، جہاں آکر امامؑ حکومت کریں گے؟ ہم جو صبح شام العجل کی صدا دے رہے ہیں، کیا ہم نے اس طرح زمینہ سازی کی ہے کہ  فرزندِ زہراؑ آکر الہیٰ حکومت قائم کریں؟ کہیں ہمارے عریضے کوفیوں کے خطوط سے مشابہت تو نہیں رکھتے؟ کہیں وہی پرانے وعدے تو نہیں، جہاں صداقت کی رمق تک نظر نہیں آتی؟ ہم جس تڑپ سے العجل کہ رہے ہیں، کیا وہ العجل کی صدا ہمارے وجود سے بھی آرہی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزر گئے اور امامؑ کا ظہور نہیں ہو رہا؟ امامؑ کی ولادت کا دن قریب ہے، ہم نے امامؑ کے لیے کیا تحفہ تیار کیا؟ امامؑ کو ہمارے دنیاوی تحائف کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم امامؑ کو کچھ دے سکتے ہیں تو وہ ہمارا وجود ہے۔ کیا ہم معاشرے کو  ظہور کے اُس عظیم معرکے کے لیے تیار کر رہے ہیں؟

سنو!!!
قدموں کی آہٹ کو
دعائے عہد دہراؤں
زمینہ ساز بن جاؤ
کہ بس وہ آنے کو ہے
کہ جس دم جب ندا دے
تو پھر لبیک کہنا ہے
مگر لبیک کہنے کے لیے
حرؑ بننا پڑتا ہے
حرؑ بننا پڑتا ہے


اے پاک طینیت عاشقانِ خدا! آپ کے پاک خون سے رنگین پیشانی، آپ کی دنیا کی تھکاوٹ سے آزاد بند مطمئن آنکھیں اور خون لگے خشک ہونٹ جو ہر وقت اپنے خالق کی حمد و ثناء میں مشغول رہتے تھے اور مہدی دوراںؑ کے ظہور کے لیے آپ کی انتھک کاوشیں، یہ سب سوچوں تو کسی پل قرار نہیں آتا اور یہ فکر ہر وقت بیدار رکھتی ہے کہ کہیں ہم خوابِ غفلت میں سوتے نہ رہیں۔ وہ تحریک جسے آپ نے اپنے لہو سے زندہ رکھا، ہر پل بیدار کیے رکھتی ہے۔ نظر ڈالوں گلستانِ شہداء پر تو ہر طرف شہدائے اسلام کے پاک تن دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں شہید باقر النمر کی صورت میں، کہیں شہید قائد کی شکل میں، کہیں شہید استاد سبطِ جعفر کی صورت میں، کہیں شہید خرم ذکی کی شکل میں، کہیں شہید ناصر علی صفوی اور کہیں شہید محرم علی کی شکل میں اور کہیں شہید سفیرِ انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی صورت میں پیغام حریت کا درس دیتے اور دنیا کی بے ثباتی کو سامنے لاتے۔

آپکا یہ پاکیزہ لہو جو راہِ خدا اور راہ امامؑ میں بہایا گیا اور ظہورِ امام ؑکے لیے آپ کی کاوشیں اور دنیا سے بیزار آپ کی پاکیزہ آنکھیں، قسم باخدا ہر پل مضطرب رکھتی ہیں۔ شہداء آپ سے سیکھا کہ شکوہ و شکایت نہ کروں، مگر اس دل کا کیا کروں، جو نوحہ کناں ہے، جو دیکھتا ہے کہ آج ہر موضوع کو زیر بحث لایا جاتا، مگر دور دور تک کوئی ایسا دکھائی نہیں دیتا، جو آپ کی مظلومیت کا نوحہ پڑھے۔ وہ شہداء جو اس ملت کا افتخار ہیں، وہ گمنامی کا استعارہ بنتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ غم کم ہے۔؟ خدا کی قسم شہداء کی جگہ خالی ہے۔ شہید علی ناصر صفوی کی جگہ خالی ہے۔ کہاں ہیں شہید محرم علی جیسے شجاع؟ اُس کو پُر کرنے والے کہاں ہیں۔؟ وہ جنہوں نے اپنا لہو دیکر  فرج کا راستہ دکھایا، انہیں کب تک یوں یکسر فراموش کیا جاتا رہےگا؟

اے شہیدان راہِ وفا یہ غم یہ درد یہ خون جگر کِسے دکھاؤں؟ یہ تڑپ جو کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔۔ یہ اضطراب جو ہر وقت گھیرے رکھتا ہے اور وہ عہد جو آپ کے پاکیزہ لہو سے کیے تھے، جسے آج ہم یکسر بھلائے بیٹھے ہیں۔ وہ تحریک جسے آپ نے اپنے پاکیزہ لہو سے سینچا تھا، آج اس پر ایک گہری خموشی ثبت ہے۔ یہ سب سوچوں تو دل درد سے پھٹتا ہے۔ کیا خدا اور امامؑ ہمیں اس کوتاہ نظری پہ معاف کریں گے۔؟ شہداء آپ نے ظہورِ امامؑ کے لیے جو خدمات انجام دیں، ہم اِس میدان میں کیا کر رہے ہیں، یہ سوچوں تو ندامت کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ دیکھیے شہداء آپ نے اپنے لہو سے ظہورِ امامؑ کو نزدیک کیا اور ہم راہ امام ؑ میں اپنے باہمی اختلافات تک کو بھلانے کے لیے آمادہ نہیں۔ حب الدنیا، مادہ پرستی، عداوتیں، کینہ و ہوا و ہوس میں اس قدر غرق ہیں کہ ہمیں فرزندِ زہراء کی تنہائی تک نہیں رلاتی۔ کیا وہ عہد جو آپ کے پاکیزہ لہو سے کیے ہم نبھا رہے ہیں۔؟

اعزا کی خاطر کٹا کے گردن
ہمارے ہاتھوں میں دے کے پرچم
پکڑ کے انگلی چلا رہے ہیں
فرج کا رستہ دکھا رہے ہیں
ہماری غفلت نے انکے احساں
کتنی جلدی بھلا دیئے ہیں
اور ہاتھ ان سے چھڑا رہے ہیں
خبر کا کوڈ : 924172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شاہد عباس ہادی
Pakistan
خون کے آنسو رونا چاہیئے کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟ اور امام (عج)کیلئے باہمی اختلافات مٹانے کیلئے تیار نہیں، ایک قدم بڑھانے کیلئے تیار نہیں۔ کل امام (عج) کیلئے خون کی قربانی دینی۔۔
ہماری پیشکش