0
Thursday 1 Apr 2021 20:38

ہمارے پیارے کہاں ہیں؟

ہمارے پیارے کہاں ہیں؟
تحریر: سویرا بتول

جبری گمشدگی، ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ نسل کشی ایسے الفاظ ہیں، جن سے مکتبِ اہلِ بیت کے ماننے والے خاصے مانوس ہیں۔ب جپن سے یہ الفاظ تکرار کے ساتھ سننے کو ملے ہیں اور ہماری کئی نسلیں یہ الفاظ سنتے بڑی ہوئیں ہیں۔ جبری گمشدگی کی تاریخ کتنی پرانی ہے، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ہم وہ محبانِ اہل بیت ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت نہ صرف اپنی نسلیں قربان کی ہیں بلکہ ہر طرح کی تہمتیں بھی برداشت کی ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جس کے بنانے والے کو کافر اعظم اور جس کی دھرتی کو کافرستان تک کہا گیا، فقط مذہبی تعصب کی بناء پر۔ سالوں سے جاری اِس ریاستی دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو یا تو ہراساں کیا جاتا رہا ہے یا غیر آئینی طور پر ماورائے عدالت لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے ہمارا آئین کیا کہتا ہے اور آئے روز ایسے واقعات کس طرف نشاندہی کرتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی رو سے یہاں رہنے والے تمام افراد کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں، آزادی سے زندگی گزارنے کا حق، کسی بھی شخص کو ادارے جبری لاپتہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، اگر ایسا کیا جائے تو یہ غیر قانونی اور غیر انسانی فعل ہوگا۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز کے مطابق اگر کسی شخص پر کسی جرم کا الزام ہو تو اسے اس آرٹیکل کی رو سے منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے۔ اس طرح  گھر میں گھس کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے غیر آئینی طور پر ماورائے عدالت لاپتہ کر دینا آئینِ پاکستان کے آرٹیکل چودہ کی خلاف ورزی ہے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت اگر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضامندی سے کارروائی کرنے والے افراد کی طرف سے کسی کو گرفتار، اغوا یا حراست میں لیا جاتا ہے اور بعدازاں حراست سے انکار سے کیا جاتا ہے یا گمشدہ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے، جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر چلا جاتا ہے تو یہ کارروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ سنگین ہوچکا ہے، آئے روز کوئی بلوچی، کوئی صحافی یا کسی تنظیم کا فرد جبری طور اغواء کر لیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر افسوسناک ہے کہ مغوی کے ورثاء کئی دنوں تک احتجاج کرتے ہیں، پریس کانفرنسز دھرنے اور بھوک ہڑتال کرتے ہیں، لیکن گم شدہ افراد نجانے کہاں پر غائب کر دیئے جاتے ہیں اور اہل خانہ اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی پارٹی یا مذہبی گروہ ہو، جس کے کارکنان کو اغواء نہ کیا گیا ہو۔ جبری گمشدگیوں کے بہت سے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ صحافی، کالم نگار سردار تنویر حیدر بلوچ کا ہے، جنہیں شب کی تاریکی میں اُن کے گھر سے لاپتہ  کر دیا گیا ہے۔ آخری کالم جو تنویر حیدر کے قلم سے لکھا گیا وہ ’’سعودی تعاون کی دلدل‘‘ تھا، جس میں انہوں نے سعودیہ کا مکروہ چہرہ حقائق کی روشنی میں عیاں کیا اور شاید یہی ان کا جرم تھا۔ اگر پاکستان کے مفاد میں اور شہنشاہ معظم کے خلاف لکھنا جرم ہے تو پھر ہم سب مجرم ہیں، ہم سب تنویر حیدر ہیں۔ آئیں ہمیں بھی اٹھائیں اور اس کو ملکی آئین کا حصہ بنائیں کہ حق بات کہنا اور لکھنا یہاں جرم ہے۔ یوں چھپ کر اغوا کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کوئی جرم کر رہے ہیں اور اتنی ہمت نہیں رکھتے کہ اپنے اِس جرم کو ثابت کرسکیں۔ یوں اغواء جیسے کمزور حربہ کو استعمال کرنا ثابت کرتا ہے کہ اِن عناصر کو ریاستی حکومتی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

سردار تنویر بلوچ کے گھر کی بوسیدہ دیواروں کا منظر سوال کناں ہے اپنی ریاست سے کہ کیا ایسا مفلوک الحال انسان جو اپنی زندگی کے آخری ایام میں بمشکل اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کی تگ و دو میں لگا ہے، کیا وہ واقعی ریاست کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ اسے زبردستی اٹھا کر غائب کر دیا جائے؟ اگر بالفرض اس انسان کا کوئی جرم تھا تو کیا اس ملک کا عدالتی نظام اور اس ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے جو اربوں کے ٹیکس پہ پلتیے ہیں، وہ اس ایک عام سے انسان سے نمٹنے کے لیے ناکافی تھے؟ کیا ایک ایسا سادہ شخص جو بمشکل اپنے اہلِ خانہ کے اخراجات پورے کر رہا ہو، کیا وہ واقعی ریاست کے لیے اتنا بڑا خطرہ  تھا کہ اسے یوں شب کی تاریکی میں چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے لاپتہ کر دیا گیا؟ کیا ایک محب وطن پاکستانی ہونا اتنا بڑا جرم ہے۔؟ 

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو
اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اسے اُٹھا لو
وہ بے ادب، اس سے پہلے جن کو اُٹھایا گیا
یہ اُن کے بارے میں پوچھتا ہے، اسے اُٹھا لو
اسے کہا تھا جو ہم دکھائیں، بس اتنا دیکھو
مگر یہ مرضی سے دیکھتا ھے، اِسے اٹھا لو
اسے بتایا بھی تھا کیا بولنا ہے کیا نہیں
مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اسے اٹھا لو
یہ پوچھتا ہے کہ امن عامہ کا مسلہ کیوں ہے؟؟
یہ امن عامہ کا مسئلہ ہے، اسے اٹھا لو
خبر کا کوڈ : 924704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش