1
Wednesday 14 Apr 2021 16:56

پاکستانی معیشت کا موجودہ اشرافیائی ڈھانچہ اور مہنگائی میں پسی عوام

پاکستانی معیشت کا موجودہ اشرافیائی ڈھانچہ اور مہنگائی میں پسی عوام
رپورٹ: ایم رضا

ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کے علاوہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت جہاں ایک طرف خدانخواستہ کورونا کے پھیلاؤ کے باعث معاشی سرگرمیوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، وہاں سیاسی انتشار اور احتجاج کی صورت میں ایک ایسا خود پیدا کردہ مسئلہ بھی درپیش ہے، جس کی تیاریاں کوئی پوشیدہ امر نہیں، صورتحال کے بارے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا رویہ ایسا نظر نہیں آتا کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے، سیاسی معاملات اور سیاسی حالات ایسے نہیں کہ ان کے اثرات معیشت پر اور کاروبار زندگی پر نہ پڑیں، بلکہ یہاں ایک تقریر، ایک احتجاج اور ایک گرفتاری پر اسٹاک مارکیٹ گر جاتی ہے۔

ملک میں جب بھی غیر یقینی یا سیاسی عدم استحکام یا اس طرز کی جو بھی صورتحال سامنے آئے، اس سے عوامی زندگی اور معیشت ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، آئے روز قرضوں کی واپسی کی سخت سے سخت شرائط پورا کرتے کرتے عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جسے اب اُٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت کو سب سے پہلے قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے چیلنج کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے انتخابی نعروں اور وعدوں کے قطعی برعکس آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بیل آؤٹ پیکیج کے لئے بھی جانا پڑا۔

عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کی وجہ سے ملک میں نئے ٹیکس روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بتدریج بڑھانا پڑے اور اسی طرح قومی معیشت کے استحکام کی خاطر عوام کڑوی گولی کھانے پر بھی مجبور ہوئے کہ وہ اپنے اچھے مستقبل اور کرپشن فری سوسائٹی کے لئے بے شمار امیدیں وابستہ کرچکے تھے، لیکن اقتصادی اصلاحات سے متعلق حکومت کے مشکل اور غیر مقبول فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کے غربت، مہنگائی، روٹی روزگار کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے تو حکومت سے وابستہ عوام کی امیدیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں۔

حکومت جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی کہ معیشت کا موجودہ ڈھانچہ اشرافیائی ہے اور اس پر اشرافیہ کا مکمل کنٹرول ہے، بڑے پیمانے کی ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائے بغیر پاکستان کی معیشت کے بنیادی نو آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، محض اچھی اور نیک خواہشات اور نیک نیتی سے معاشی صورت حال میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ اس کے لئے معاشی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔ پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقات ایسی پالیسیاں لاگو کرتے ہیں، جن سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب عوام کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں، جب تک حکمران طبقات اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی، عوام مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور افلاس کی چکی میں پستے رہیں گے، عوام پریشان ہیں۔

حکومتی اقدامات سے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر براہ راست پڑ رہا ہے، غریب اور متوسط طبقہ پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہوکر مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔ عوام بہت دیر سے حکومتی وعدوں کے ایفا ہونے کے منتظر ہیں۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی و گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔ ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔

حکومت گزرے چند ماہ کے دوران چار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرچکی ہے، فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر بھی جو اضافی رقم بلوں میں لگ کر آئے گی، اس سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی، آئی ایم ایف کی شرائط تو حکومت پوری کرکے قرضے کی وصولی میں سرخرو ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عوام پر جو ستم روا رکھا جا رہا ہے، کیا یہ اسے جمہوری نظام سے بدظن کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے متبادل توانائی کے ذرایع استعمال کئے جائیں۔ ہوا، پانی، سورج کی روشنی، کوئلہ سے انرجی پیدا کی جائے، چین کے ساتھ سِول ایٹمی معاہدہ کیا جائے اور بجلی کی بلنگ کا پری پیڈ کارڈ سسٹم بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔

ایران گیس پائپ لائن کے پراجیکٹ کو شروع کرکے بھی ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر نظرثانی سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے بشرطیکہ حکومت چاہے تو۔ ٹیکس کے نظام میں بہتری کا اعلان کرنا، صرف کافی نہیں ہے بلکہ ایک مربوط طریقے سے دولت مند طبقہ کو ٹیکس دینے پر مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سرمائے کا ضیاع روکنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، حکومت کے مالیاتی خسارہ میں کمی ہونی چاہیئے اور حکومتی اخراجات میں مزید کمی لائی جائے، تاکہ بچنے والی رقم و وسائل عوامی بہبود پر خرچ کئے جاسکیں۔
خبر کا کوڈ : 925430
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش