1
0
Thursday 8 Apr 2021 22:44

انجینئر الہیٰ بخش میتلو, انجمن اصغریہ کے بانی رکن

انجینئر الہیٰ بخش میتلو, انجمن اصغریہ کے بانی رکن
تحریر: سعید علی پٹھان

انسان کو اللہ پاک نے اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، اب وہ اس کے بس میں ہے کہ اپنے باطنی پیغمبر کو استعمال کرکے انسانیت کی معراج پر پہنچے یا عقل و شعور کو مادہ کا قیدی بنا کر اس دنیا کی ہوا و ہوس میں غرق ہو جائے۔ تقویٰ کو انسان یہ سمجھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ الہیٰ بخش میتلو صاحب کی ولادت قیام پاکستان سے پانچ برس قبل 8 اکٹوبر 1942ء میں ہوئی۔ مرحوم و مغفور نے پرائمری اور میٹرک کی تعلیم پریالو سے حاصل کی جبکہ ان کی انٹر 1965ء میں پاس کیا۔ انہوں نے انٹر کے بعد جامعہ سندھ کے انجنیئرنگ کالج سے سول میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا بیچ جامعہ سندھ کے انجنیئرنگ کالج کا تیسرا بیچ تھا۔ انہوں نے 1969ء میں ڈگری حاصل کی۔

جامعہ سندھ کے بلاک سی میں مسجد ابولفضل العباس ہے، جو شیعہ طلباء کی عبادات کیلیے مختص ہے۔ جس جس انسان نے اس مسجد سے اپنا روحانی تعلق روا رکھا ہے، اللہ عزوجل نے اس کو "کامیابیاں" نصیب کی ہیں۔ اس زمانے کے شیعہ طلباء نے اپنی دینی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے انجمن اصغریہ کی بنیاد رکھی۔ اس شجر کی بنیاد ڈالنے کا سہرا اور نیک بختی کا آغاز انصار حیدر، سید مبارک زیدی، عزا حسین زیدی اور الہیٰ بخش میتلو کے نامہ اعمال میں درج ہے۔ جامشورو کی سرزمین پر جمعہ کی نماز کا آغاز مسجد ابوالفضل العباس بلاک سی ہاسٹل سے ہوتا ہے۔ جوان مذپبی رنگ میں مگن ہوکر حیدرآباد کے لطیف آباد میں قائم سلطان المدارس میں مولانا ثمر عباس نقوی سے ملتے ہیں، جو انہیں قبلہ حجت الاسلام حیدر علی جوادی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے دیتے ہیں کہ آپ ان کو لے کر جائیں اور لے کر آئیں۔

جامشورو مین مسجد سجادیہ کے قیام سے پہلے جمعہ کی نماز بوائز پاسٹلز جامشورو میں ہوتی ہے۔ اس مسجد نے بھی بہت ہی گوہر نایاب کو روحانی اور خود سازی کا زمینہ فراہم کیا ہے، جن میں سید حسین موسوی، سید فرمان رضوی، اشرف علی قریشی، غلام مصطفیٰ لغاری، عزت علی میمن، افضل حسین جعفری مرحوم، ڈاکٹر زاہد حسین ابڑو اور کئی احباب شامل ہیں، جنہوں نے بھی خلوص سے کام کیا اللہ پاک نے ان کو ان کے خلوص سے بڑھ کر نوازا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر امداد بروہی کہتے تھے کہ سندھ یونیورسٹی میں آنے والے طلباء کی تین اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ غریب، نادار اور مفلس طلباء ہیں، جن کی آنکھوں میں بڑے خواب ہوتے ہیں کہ ہم محنت کرکے پڑھیں گے اور آگے بڑہیں گے۔

دوسری قسم ان طلباء کی ہوتی ہے، جن سے گھر والے بیزار ہوتے ہیں کہ یہ گھر میں مسائل پیدا کرتے ہیں، وہ پیسے لیں، مگر چار سال گھر سے باہر رہیں۔ تیسری قسم ان مالدار طلباء کی ہوتی ہے کہ جن کو والدین کہتے ہیں کہ اللہ کا دیا ہوا بہت ہے، بس یونیورسٹی سے اپنے لیے اچھا رشتہ ڈھونڈ کر لائو۔ الہیٰ بخش میتلو صاحب کا شمار پہلی کیٹیگری میں ہوتا تھا، ان کے والد گرامی کا نام خدا بخش میتلو تھا، جو سادہ، مسکین اور مالوند آدمی تھے۔ وہ چھوٹے ہی تھے تو ان کے والد کی وفات ہوگئی اور وہ یتیم ہوگئے۔ یتیم کے سر پر جیسے اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مرحوم کی والدہ نے ان کی تعلیم کیلئے دودھ بیچ کر اپنی اولاد کو علم کے نور سے منور کرنے کی کوشش کی۔

انجنیئر الہیٰ بخش میتلو کی بات کرتے ذہن میں ڈاکٹر زاہد حسین ابڑو کی باتیں آگئی ہیں۔ ڈاکٹر زاہد ابڑو نے اصغریہ کے 45 ویں کنونشن میں بتایا تھا کہ اکثر طلباء پوسٹ آفس کے ذریعے گھر والوں سے پیسے منگواتے تھے اور وہاں سے منی آرڈر وصول کرتے تھے اور میں ہر ماہ منی آرڈر کے ذریعے والدین کو پیسے بھیجتا تھا تو ایک بار پوسٹ مین نے کہا کہ سب لوگ پیسے منگواتے ہیں اور تم پیسے بھیجتے ہو، پوچھا کہ کیا کرتے ہو تو میں نے کہا کہ میں ٹیوشن پڑھا کر اس سے پیسے بچا کر والدین کو بھیجتا ہوں۔ انہوں نے طلباء کو ہدایت کی تھی کہ آپ جس جامعہ سندھ کے بوائز ہاسٹلز پر جہاں کئی طلباء نے اصغریہ کے پلیٹ فارم سے کام کیا اور دیندار بنے اور دین کی خدمت کی، ان میں میں ارشاد علی خاکی کو جانتا ہوں، جو آج کل جنوبی سوڈان میں ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی شر کے بڑے بھائی اختر حسین شر بھی امریکا مین رہایش پذیر ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر عباس کاظمی سے ایک سال کا تعلق رہا اور وہ نمل یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹرین کے پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر عمران سانڈانو جامعہ سندھ میں انٹرنیشنل ریلشنز کے اسٹنٹ پروفیسر ہیں، ڈاکٹر امجد علی ابڑو جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل ریلشنز کے استاد ہیں۔ جس نے بھی خلوص اور سچائی دکھائی اس کو کامیابی ملی۔ امام امانہ (عج) کا شیخ مفید کو خط میں جملہ تھا کہ "اگر ہم اپنے شیعوں کو دعا نہ دیتے تو دشمن ان کو کچل دیتا." الہیٍ بخش میتلو صاحب کے والد گرامی کا نام خدا بخش میتلو تھا، آپ تین بھائی اور تین بہینں تھیں۔ بڑے بھائی صاحب ڈنو میتلو، دوسرا بھائی علی مراد میتلوو جو 9 برس کی عمر میں ہی وفات پاگئے۔ الہیٰ بخش میتلو کی اپنے بڑے بھائی صاحب ڈنو سے بڑی محبت تھی۔ آپ دونوں بھائیوں کا نام دونھوں ابراہیم شاہ ببرلو میں اولاد کی تریبت اور تعلیم کے حوالے سے سنہری لفظوں میں لیا جاتا ہے۔ دونوں بھائیوں نے اولاد کی تعلیم کو ٹاپ پرایرٹی رکھا۔ اتنی اہمیت کہ الہیٰ بخش میلتو نے 1984ء میں اولاد کی تعلیم کیلیے سوزوکی پک اپ خرید کر ڈرائیور رکھ کر بھائی صاحب ڈنو میتلو کو دیا، جو خود بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا تھا۔

اولاد کی تعلیم سے اخلاص کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صاحب ڈنو میتلو کے 7 بچے تھے، جن میں 3 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں، جن میں سے 6 ڈاکٹر اور ایک انجنیئر ہیں۔ الہیٰ بخش میتلو کے 9 بچے تھے، جن میں سے 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں تھیں۔ سب نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دو بیٹے انجنیر، ایک بیٹا ماسٹرز ان ایم پی اے، ایک بیٹا کنسلٹنٹ فزیشن، ایک بیٹے نے فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کی اور 4 بیٹیوں میں سے 3 بیٹیاں ڈاکٹرز اور ایک بیٹی زولوجی میں ماسٹرز ہیں۔ یہ کہنے میں مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ ڈاکٹرز اور انجنیئرز کا خاندان ہے۔ الہیٰ بخش میتلو کی وفات 21 مارچ 2021ء کو ہوئی۔ انسان کی زندگی کے تین ہدف ہیں، اول خود سازی، دوم، دین اسلام کی ترویج اور تبلیغ اور سوم انسانیت کی خدمت۔ لوگ امتحان دے کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ہمارا بھی امتحان لیا جا رہا ہے۔ کیا خوب ہوگا کہ جب موت کا فرشتہ آئے اور کہے کہ آپ کا ٹائم پورا ہوا تو ہم یہ کہہ سکیں کہ I did my best۔ قارئین سے التماس ہے کہ مرحوم الہیٰ بخش میتلو، ان کے بھائی صاحب ڈنو میتلو، علی مراد میتلو اور ان کے والد خدا بخش میتلو کے ایصال ثواب کیلئے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائیں۔
خبر کا کوڈ : 926115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
محترم۔۔۔۔۔ حیدرآباد میں علامہ حیدر علی جوادی صاحب غالباً مشارع العلوم میں ہوا کرتے تھے، جس کے موسس علامہ ثمر حسن زیدی صاحب تھے۔۔۔ یہ ثمر عباس نقوی اور سلطان المدارس کیا کوئی اور عالم اور مدرسہ دینیہ کے نام ہیں یا آپ سے بھول چوک ہو رہی ہے۔
ہماری پیشکش