0
Wednesday 28 Apr 2021 12:36

بھارت شدید ترین کورونا وباء کے نشانے پر

بھارت شدید ترین کورونا وباء کے نشانے پر
رپورٹ: جے اے رضوی

دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں شمار ہونے والا بھارت ان دنوں بیمار اور بہت بیمار ہے۔ کورونا نے جس انداز میں بھارت کے اندر تباہی مچائی ہے شاید ہی ہم نے کبھی ایسی تصویر دیکھی ہو۔ ہسپتال کے اندر مریض پر مریض، ہسپتال کے باہر بھیڑ ہی بھیڑ، ہسپتال کے اندر سے رکتی چلتی اور تھمتی سانسوں کے بیچ الجھی زندگی کا درد اور ہسپتال کے باہر بے یار و مددگار تڑپتے مریض، جو ہسپتال کے اندر ہیں انہیں جینے کی تمنا ہے اور جو ہسپتال کے باہر ہیں انہیں علاج کی چاہت، ہسپتال کے اندر سے نکلتی لاشوں کے ساتھ آہ و فغاں، ہسپتال کے باہر چیختے چلاتے مریضوں کے رشتے دار۔ ہر طرف بے قراری ہے، ہر جگہ چینی ہے، ہسپتال سے لیکر شمشان تک، ہسپتال سے لیکر قبرستان تک روزانہ آنسوؤں کا سیلاب آتا ہے اور کتنے دردمندوں کو ڈبو لے جاتا ہے۔ قبرستان میں دو گز زمین ملنا محال ہے اور شمشان گھاٹ پر لمبی قطار ہے۔ ایسے موقع سے لاش لیکر آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے انتظار کی لمبی گھڑی اور پھر ماتمی ماحول۔ کیا گزرتی ہوگی اس بیٹے پر جو اپنے بات کی آخری رسومات کیلئے گھنٹوں لاش کے ساتھ شمشان گھاٹ کے باہر انتظار کررہا ہوتا ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ بھارت میں جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تب بی جے پی حکومت کی طرف سے ایک ہائی پاور کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ کورونا سے لڑنے کے طریقہ کار پر غور کرے اور حالات کی بہتری کا راستہ تلاشے۔ کمیٹی نے جو کچھ بھی ہوا اپنا کام کیا اور پہلی لہر قابو میں آگئی، نریندر مودی نے جنوری میں ڈاووس سمٹ کے دوران یہ اعلان بھی کردیا کہ ہم نے کورونا سے جنگ جیت لی ہے۔ لیکن پہلی لہر کے دوران ہی مودی حکومت کو اس ہائی پاور کمیٹی نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ دوسری لہر میں اس سے زیادہ خراب صورتحال ہوگی اور اس وقت آکسیجن کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ اس لئے ہمیں اس سے بچاؤ کا پہلے سے ہی راستہ نکالنا ہوگا۔ کمیٹی کی سفارش مودی حکومت نے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ملک کے آکسیجن کو گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال میں دوگنا دوسرے ملکوں کو بھیج دیا جس کی وجہ سے اپنے پاس بہت ہی محدود مقدار میں آکسیجن باقی رہا۔

کمیٹی کی ہدایت کے عین مطابق دوسری لہر میں آکسیجن کی سب سے زیادہ ضرورت پڑرہی ہے اور آکسیجن نہ ملنے سے روزانہ درجنوں مریضوں کی سانسیں رک رہی ہیں۔ نریندر مودی اور حکمراں جماعت کمیٹی کی سفارش کو پس پشت ڈالتے ہوئے انتخابی میدان میں زور آزمائی کرنے لگی، بہار میں انتخابات ہوئے اور لاکھوں کی بھیڑ میں ریلیاں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد آسام، تمل ناڈو، کیرل، پڈوچیری اور پھر مغربی بنگال، ان ریاستوں میں کورونا ہونے کے باوجود ریلیاں پر ریلیاں ہوتی رہیں اور عوام بھی کورونا کی شکار ہوتی رہی۔ دوسری طرف گنگا ندی میں ہندؤوں کے مذہبی میلے کیلئے لوگوں کو سرکاری چھتر چھایا میں جمع ہونے کی ترغیب دی گئی۔ کمبھ میلے کے نام سے مشہور یہ ہندو تہوار کئی ہفتوں تک منایا گیا۔ اس سال یہ میلہ 11 مارچ کو اُس وقت شروع ہوا جب ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوگئی تھی۔ آغاز میں حکومت نے عقیدتمندوں کو اس میلے میں ’’بھاری شرکت‘‘ کیلئے اکسایا تھا اور انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ محفوظ ہیں۔ آج اگر ایک دن میں تین تین لاکھ سے زائد کورنا کے معاملے آرہے ہیں تو اس کیلئے حکمراں جماعت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی ذمہ دار ہیں۔ حکومت حقیر مفادات کیلئے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی رہی اور لوگ استعمال ہوتے رہے۔ آج وہی لوگ جب ویکسین، ریمڈیسیور اور آکسیجن کیلئے تڑپ رہے ہیں تو ان میں سے کوئی پارٹی آگے نظر نہیں آرہی ہے۔

آج کورونا وائرس کی دوسری لہر نے پورے ملک میں ہاہا کار مچا رکھی ہے۔ لوگ عملی طور ایڑیاں رگڑھ رگڑھ کر جان دے رہے ہیں اور طبی ماہرین و معالج ہاتھ ملتے نظر آرہے ہیں۔ ارباب اقتدار کو جب الیکشن سیاست سے ذرا فراغت مل کر کورونا پھیلاؤ کی سنگینی کا احساس ہوا تو تب تک بہت دیر ہوگئی تھی۔ حکومت اور عوام دونوں کی لاپرواہی کا نتیجہ آج یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر وقت ہسپتال سے لاشیں نکل رہی ہیں اور ہر وقت ہسپتال کے باہر چیخ و پکار کی آواز گونج رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں عام عوام نے کورونا کے تئیں لاپرواہی کی وہیں دوسری جانب حکومت نے وقت ملنے پر اس کے خلاف تیاری نہیں کی، نتیجے میں آج ہمیں تیاری کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا ہے اور لاشوں کا لامتناہی سلسلہ ہسپتال سے شمشان اور قبرستان کی طرف رواں دواں ہے اور چیخ و پکار سے پوری فضا سوگوار ہے۔ بس ہر کسی کو اس حالت سے نکلنے کا انتظار ہے۔

بھارت کے ایک مشہور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر جلیل پارکر کے مطابق ’’ہمارا ہیلتھ کئیر سسٹم کولیپس ہوگیا ہے، ہم نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔ جب ہمارا بنیادی ڈھانچہ ہی مریضوں کیلئے کافی نہیں، جب بیڈ نہیں ہیں یا آکسیجن نہیں ہے، تو آخر ڈاکٹر کیا کرسکتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر پارکر گذشتہ برس خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور انہوں نے آئی سی یو میں کافی وقت گزارا، لیکن اس سال وہ کورونا کی دوسری لہر کے متاثر ہ افراد کی جانیں بچانے میں لگے ہیں۔ دہلی کے معروف گنگا رام اسپتال سمیت سبھی طبی اداروں میں آکسیجن کی کمی کیلئے ایس او ایس جاری ہورہے ہیں یہاں تک کہ آکسیجن کی کمی کے پیش نظر دہلی کے معتبر طبی ادارہ ایمز کو اپنا ایمرجنسی شعبہ ہی بند کرنا پڑا۔ بھارت میں کورونا قہر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں روزانہ تین لاکھ سے زیادہ کیس ظاہر ہورہے ہیں۔ یعنی دنیا کے کسی بھی ملک میں روزانہ بنیادوں پر اس قدر کورونا کیس سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہیں جن کے بارے میں آزاد ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ حقائق سے کوسوں دور ہیں۔
خبر کا کوڈ : 929650
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش