0
Saturday 15 May 2021 09:42

سرزمین انبیاء پر اسرائیلی دہشتگردی

سرزمین انبیاء پر اسرائیلی دہشتگردی
تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی

سرزمین انبیاء پر اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں بلکہ فلسطین کے مظلوم عوام 1948ء سے اسرائیلی مظالم سہتے آئے ہیں۔ ہزاروں فلسطینی اسرائیلی بمباری سے یا تو ابدی نیند سوگئے ہیں یا پھر اپاہج بن گئے ہیں، غاصبوں کے زندان فلسطینی نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں، بدنام زمانہ زندانوں میں ٹارچر سے فلسطینی نوجوانوں کی زندگیاں ضائع ہوگئی ہیں۔ بچے، بوڑھے اور خواتین بے یار و مددگار مسلمانان عالم کی بے حسی پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ قبلہ اول کا تقدس جابر اسرائیلی افواج کے ناپاک قدموں تلے پامال ہو رہا ہے، مقبوضہ فلسطین پر غاصب اسرائیل کا ناجائز قبضہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، لیکن افسوس صد افسوس اسلامی مملکتوں کے خائن حکمران ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں اور شیطان بزرگ کی آشیرباد لینے کے لئے قرآن و احادیث سے روگردانی اختیار کر رہے ہیں۔

فلسطین اسلامی تاریخ کے اعتبار سے ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں انبیاء کی ایک تعداد یا تو پیدا ہوئی یا پھر دوسری سرزمنیوں سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے، اس سرزمین میں انبیاء کی ایک تعداد مدفون ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ دو ہزار قبل مسیح عراق کے شہر ’’ار‘‘ سے ہجرت کرکے اسی سرزمین میں آباد ہوئے۔ اسی طرح حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داوودؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت یحییٰ ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور دیگر پیامبران خدا بھی اس سرزمین مقدس سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ اسی سرزمین مقدس پر مسلمانوں کا قبلہ اول ’’بیت المقدس‘‘ بھی واقع ہے۔ ہجرت کے دوسرے سال ماہ رجب تک خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے، جس کے بعد نماز کی حالت میں وحی کے ذریعے تبدیلی قبلہ کا حکم ہوا۔ بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ پیامبر خدا حضرت موسیؑ نے مسجد الاقصیٰ کو شرک اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔(تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳)

اس کے علاوہ پیامبر اسلام ؐ کی معراج آسمانی کا سفر بھی مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) سے شروع ہوا۔ سوره الاسراء آیہ مبارکہ1 میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘ قرآن و احادیث کی روشنی میں سرزمین فلسطین ایک مقدس اور عظمت والی سرزمینوں میں سے ہے۔ اس سرزمین کے ساتھ مسلمانان عالم کے جذبات و احساسات وابستہ ہیں، لیکن حماقت کی بات یہ ہے کہ اس سرزمین مقدس پر شیطان بزرگ کی ناجائز اولاد اسرائیل قبضہ جمائے بیٹھا ہے، نہ فقط قبضہ بلکہ 1948 عیسوی سے اس غاصب ریاست کی جابر افواج مسلسل قبلہ اول کی بے حرمتی بھی کر رہی ہیں اور فلسطینی محکوم و مظلوم عوام کو اپنے غضب و عتاب کا شکار بھی بنا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے نام نہاد خواتین نما ٹھیکہ دار اس جابر اور غاصب ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں اور اسلام کے اس ازلی دشمن کے دسترخوان پر عیش و عشرت کے ساتھ لقمہ حرام تناول کر رہے ہیں۔

اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسرائیل ایک غاصب صیہونی ریاست ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں 1917 عیسوی میں انگریزوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کرکے یہودی ریاست قائم کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ یہودی اور عیسائی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، کیونکہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کے قتل کا منصوبہ بنانے والے یہودی ہی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف یہ دو دشمن آپس میں متحد ہوگئے اور اسلامی دنیا کے قلب میں اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو بٹھا کر مشرق وسطیٰ میں دہشتگردی کا اڈہ قائم کیا گیا۔ نومبر 1947ء میں سامراجی فضلہ خور عالمی ادارے ’’اقوام متحدہ‘‘ میں ایک قرارداد پاس کی گئی، جس میں اس ارض ِ مقدس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے عرب اور اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا اور 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین سے اپنی فوج واپس بلائی اور اسی سال 14 مئی کو اسرائیل کے قیام کا باضابطہ اعلان کرکے مسلمانان عالم کی مردہ ضمیری کا ثبوت پیش کیا گیا۔

جس کے بعد فلسطین کے علاقوں پر جابرانہ قبضے کا سلسلہ جاری رہا، لیکن بے غیرت مسلمان حکمران سامراج کی اس ناجائز اولاد کے ساتھ معاہدے اور صلح کی پالیسی پر ہمیشہ گامزن رہے اور اسرائیل کی دہشتگردی کے لئے ایک کھلا میدان چھوڑ دیا گیا۔ گرچہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین معمولی لڑائیاں ہوتی رہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اس غاصب ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ 2006 عیسوی میں عرب دنیا کی معروف مسلم عسکری تنظیم حزب اللہ لبنان نے صرف 33 روز میں طاقت کے نشے میں چور اسرائیل کو دھول چٹائی، حزب اللہ نے اسرائیل کے دو فوجیوں کو اغوا کرکے خطے میں اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا اور اس کا رعب و دبدبہ، غنڈہ گردی اور خوف و ڈر بھی خاک میں ملا دیا۔ جس کے بعد ان دو اسرائیلی فوجیوں کو چھڑانے کے لئے اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا تھا۔ سامراج کی اس ناجائز اولاد کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ مہنگی پڑی اور 33 دنوں کے قلیل عرصہ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سپاہ پاسداران انقلابی کے قدس بریگیڈ نے بھی در پردہ تمام محاذوں پر اسرائیل کے دانت کھٹے کیے اور آج ایران کی پشت پناہی کے باعث فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے تل ابیب کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

حالیہ دنوں اسرائیل نے غزہ، بیت المقدس اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں مظلوم فلسطینیوں پر گولہ باری، بمباری اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے انہیں خاک و خون میں غلطاں کیا۔ مظلوم فلسطینی مسلمانان عالم کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کے درد بھری آواز خفتہ مسلمان نظر انداز کر رہے ہیں۔ مسلمان حکمران ذلالت اور سامراجی غلامی کی کثیف لحد میں کروٹیں بدل رہے اور خواب غفلت میں خراٹیں لے رہے ہیں۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی مسلمان مدد کے لئے پکار رہا ہے اور تم اس کی آواز کو نظر انداز کر رہے ہو تو تم مسلمان نہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(الحجرات)

افسوس صد افسوس کہ عرب حکمران اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت کی بجائے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، اس سلسلے میں کوئی ننگ و عار تک محسوس نہیں کر رہے ہیں، جبکہ قرآن پاک سورہ مبارکہ المائدہ آیت نمبر 51 میں واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنانا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہوگا اور اللہ ظالموں کو یقیناً ہدایت نہیں دیتا ہے۔‘‘ آج اسلامی دنیا کے چند نام نہاد حکمرانوں کو مظلومین فلسطینی جو گذشتہ سات آٹھ دہائیوں سے اسرائیلی مظالم سہہ رہے ہیں، ان کا درد محسوس ہوا، لیکن اقتدار پرست یہ حکمران اس درد کا مدوا کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ شیطان بزرگ امریکہ سے بھی آشیرباد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور اسرائیل سے دوستی بھی برقرار کھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان حالیہ دنوں اسلامی دنیا کے خائنوں جو مظلوم فلسطینیوں کے قاتل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں، ان کے دسترخوان پر لذیذ غذا تناول فرمانے گئے اور آج اسرائیل کی دہشتگردی بھی انہیں یاد آگئی۔ گویا کہ ’’یزید سے بھی دوستی اور حسین ؑ کو بھی سلام ۔۔۔۔‘‘ اسی طرح مسلم دنیا کا ایک اور منافقانہ چہرہ رجب طیب اردوغان ہے، حقیقت یہ ہے کہ ترکی وہ واحد ملک ہے، جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے اور آج بھی اسرائیل کا سفارت خانہ ترکی اور ترکی کا سفارت خانہ اسرائیل میں ہے۔ دونوں ممالک کے آپس میں گہرے روابط ہیں اور ڈرامہ باز ترک صدر مسلمانان عالم کو بیوقوف بنانے اور انہیں گمراہ کرنے کے لئے فلسطین کے تئیں ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس ڈرامہ باز نے گذشتہ سال ارمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان جنگ میں آذر بائیجان کو اسلحہ اور فوجی امداد مہیا کی۔ تو کیا یہ ڈرامہ باز فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے اس طرح کا اقدام نہیں اٹھا سکتا ہے۔

فلسطینی عوام مذمتی بیانات تو گذشتہ سات دہائیوں سے مسلسل سنتے آئے ہیں۔ اگر واقعی میں اردوغان کے دل میں فلسطینی عوام کا تھوڑا سا درد بھی موجود ہے تو اولین فرصت میں اس ڈرامہ باز کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا چاہیئے تھے۔ اس وقت مسلم ورلڈ میں جمہوری اسلامی ایران وہ واحد ملک ہے، جو روز اول سے غاصب صیہونی ریاست کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے، نہ فقط مخالفت بلکہ اسرائیل کے مدمقابل مزاحمتی اور مقاومتی تحریکوں کی پشت پناہی، ان کی سفارتی، افرادی، عسکری اور اخلاقی امداد کر رہا ہے، جس کا اعتراف خود حماس کر رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ میں حماس کے سربراہ نے شرکت کی اور جلوس جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے شہید سلیمانی کو شہید قدس کے خطاب سے نوازا۔

بانی انقلاب حضرت امام خمینی ؒ نے بھی 7 اگست 1979ء یعنی انقلاب کے صرف چھے مہینے بعد اعلان کر دیا کہ ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منایا جائے اور آج الحمد للہ دنیا بھر میں یوم قدس جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے، اسی یوم القدس کی برکات سے آج امت مسلمہ کے بچے بچے کے زبان پر ’’القدس لنا، القدس النا‘‘ اور ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کا ورد ہو رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حسد، کینہ، بغض، منافقانہ رویہ چھوڑ کر اور اسرائیل کے ساتھ دوستی توڑ کر قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی آزادی کے لئے متحد ہو جائیں، کیونکہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں سے امیدیں وابستہ رکھنا لاحاصل مشق ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، جس سے قدس کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی یقینی بن جائے گی۔ مسلم ممالک کی رابطہ تنظیم آو آئی سی کی مجرمانہ خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ اسے جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 932639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش