2
Tuesday 18 May 2021 22:01

شیخ جراح سے غزہ تک

شیخ جراح سے غزہ تک
تحریر: امیر حسین رجبی معمار
 
گذشتہ تقریباً ایک ہفتے سے غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے درمیان میدان کارزار گرم ہو چکا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح جھڑپوں کا آغاز غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ہوا ہے۔ صہیونی رژیم نے مشرقی بیت المقدس کے محلے شیخ جراح سے وہاں کے مقامی مسلمان فلسطینی شہریوں کو طاقت کے زور پر اپنے آبائی گھر چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مقامی افراد اور صہیونی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ جب ان جھڑپوں کی شدت حد سے بڑھ گئی تو غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صہیونی رژیم کو شیخ جراح میں ان اقدامات کو روکنے کا الٹی میٹم دے دیا اور الٹی میٹم کا وقت گزرنے کے بعد راکٹ اور میزائلوں سے حملہ کر دیا۔
 
اسلامی مزاحمت کے میزائل اور طاقت کی نئی مساوات
غزہ کے خلاف غاصب صہیونی رژیم کی حالیہ جارحیت کے آغاز سے اب تک کی صورتحال سے جو حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے وہ شدید بیرونی دباو اور درپیش مشکلات کے باوجود اسلامی مزاحمتی محاذ کی میزائل طاقت میں خاطرخواہ اضافہ ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی جانب غزہ سے فائر کئے جانے والے راکٹس اور میزائلوں کی تعداد اور ان کی رینج میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح اس جنگ میں ماضی کے برعکس صہیونی رژیم کے دارالحکومت تل ابیب کو بھی کامیابی سے میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے "آئرن ڈوم" نامی فضائی دفاعی نظام نصب کر رکھا ہے لیکن اسلامی مزاحمت کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں راکٹ اور میزائل فائر کئے جاتے ہیں کہ یہ دفاعی نظام ان سب کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
 
دوسری طرف غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس زیادہ طویل رینج کے میزائل بھی دستیاب ہو چکے ہیں جبکہ جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے ناطے مطلوبہ اہداف کو درست انداز میں نشانہ بنانا بھی ممکن ہو چکا ہے۔ اگرچہ اسلامی مزاحمت کے پاس موجود میزائلوں میں اس حد تک تباہی پھیلانے کی صلاحیت نہیں جتنی غاصب صہیونی رژیم کے زیر استعمال بموں اور دیگر ہتھیاروں میں پائی جاتی ہے لیکن اسلامی مزاحمت کے حملوں کا نتیجہ مادی نقصان سے زیادہ صہیونیوں کے حوصلے پست ہونے اور ان میں شدید خوف و ہراس پیدا ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی فوجی کا کھوکھلا پن اور اس کے ناقابل شکست ہونے کے افسانوں کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
 
غاصب صہیونی رژیم اور شدید سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی بحران
مقبوضہ فلسطین میں مقیم آبادکاروں کی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جنہیں دنیا کے مختلف حصوں سے بہترین امن و امان اور فلاح و بہبود جیسے سبز باغ دکھا کر اسرائیل نامی جعلی ریاست کی طرف مہاجرت کرنے پر راضی کیا گیا ہے۔ لہذا یہ افراد مقامی فلسطینی شہریوں کے برعکس زیادہ عرصے تک جنگ جیسی شدید صورتحال برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے بھیانک اثرات کا طویل عرصے تک مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ حالیہ جنگ کے دوران اسلامی مزاحمت کے حملوں کی شدت بے سابقہ ہے اور مقبوضہ فلسطین کے اکثر حصوں میں یہودی آبادکاروں کی معمول کی زندگی تعطل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ لہذا دنیا کے مختلف حصوں سے فلاح و بہبود کی لالچ میں آنے والے یہودی آبادکار اب اسرائیل چھوڑ کر واپس جانا شروع ہو گئے ہیں۔ اس نے غاصب صہیونی رژیم کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
 
نیتن یاہو کی جنگ طلبی اور انتہاپسندی
موجودہ صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہمیشہ شدت پسندی اور جنگ کو فروغ دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ عدالت میں ان کے خلاف جاری کرپشن کے کئی مقدمات بھی ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو اچھی طرح جانتا ہے کہ جیسے ہی اس کی وزارت عظمی کا عہدہ ختم ہو گا عدالت میں قانونی استثنی بھی ختم ہو جائے گا اور پرانے مقدمات دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔ لہذا وہ ہر بہانے سے ملک میں شدید بحرانی صورتحال برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ یوں وہ بھر برسراقتدار رہ سکے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں جب مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں جیسے اللاد، عکا اور حیفا وغیرہ میں شدید خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، نیتن یاہو کے بعض سیاسی مخالفین جن کا جھکاو دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کی جانب ہو چکا تھا دوبارہ اس کی طرف واپس آ رہے ہیں اور یہ نیتن یاہو کیلئے بہت بڑا سیاسی فائدہ ہے۔
 
نتیجہ
اس وقت تک مشاہدہ ہونے والے حالات سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں طاقت کا نیا توازن ایجاد کرنے کے درپے ہے۔ اسلامی مزاحمت اپنا اثرورسوخ غزہ کی پٹی سے نکال کر مغربی کنارے، قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کے اندر دیگر علاقوں تک پھیلا دینا چاہتی ہے۔ اسلامی مزاحمت غاصب صہیونی رژیم کو مسجد اقصی، قدس شریف میں مقیم مسلمان فلسطینی شہریوں اور دیگر حصوں میں عرب باشندوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات سے باز رکھنے کیلئے اس پر دباو بڑھاتی جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر اسلامی دنیا اور حتی پوری دنیا کے باضمیر انسانوں کی رائے عامہ مسئلہ فلسطین اور قدس شریف پر مرکوز ہو چکی ہے جو انشاءاللہ عنقریب قدس شریف کی آزادی کی نوید دلا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 933256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش