1
Saturday 29 May 2021 03:59

اسلامی مزاحمت کی کامیابیاں، سید حسن نصراللہ کی زبانی(1)

اسلامی مزاحمت کی کامیابیاں، سید حسن نصراللہ کی زبانی(1)
تحریر: محمد رضا تقی زادہ

حال ہی میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے 25 مئی 2000ء میں جنوبی لبنان سے غاصب صہیونی رژیم کی پسپائی کی سالگرہ کے موقع پر جشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال نے اس سال 21 مئی کے دن فلسطینیوں کو بھی عظیم کامیابی عطا کی ہے، لہذا ہم اگلے برس سے ان دنوں میں دو جشن منائیں گے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کو حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں کی تاریخ بیان کی۔ انہوں نے کہا: "صہیونی رژیم کے سابق اعلیٰ سطحی عہدیدار اسحاق شامیر کے بقول جنوبی لبنان سے صہیونی رژیم کی پسپائی اس کے وجود اور بقاء کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوا ہے اور اس کی نابودی کا باعث بنے گی۔"

1)۔ جنوبی لبنان میں صہیونی رژیم کی عبرتناک شکست
غاصب صہیونی رژیم نے 1978ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے لبنان کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس آپریشن میں 25 ہزار صہیونی فوجی شامل تھے، جو پوری طرح جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے۔ اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 425 کے ذریعے صہیونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد لبنان کی سرزمین ترک کر دے اور لبنان میں امن فوج بھی تعینات کر دی۔ لیکن 6 جون 1982ء کے دن صہیونی رژیم نے زمین، ہوا اور سمندر سے وسیع فوجی حملہ شروع کر دیا اور صہیونی فوج کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے بیروت کے دروازے تک آن پہنچی۔ یوں صہیونی فوج نے بیت المقدس کے بعد دوسرے عرب اسلامی ملک کے دارالحکومت کا محاصرہ کر لیا۔

ایسے حالات میں جب دارالحکومت سمیت لبنان کا 50 فیصد رقبہ صہیونی دشمن کے زیر قبضہ تھا، پی ایل او کے تمام اعلیٰ سطحی ذمہ داران لبنان سے نکل کر تیونس چلے گئے۔ دوسری طرف لبنان اور فلسطین میں قابض رژیم کے خلاف مزاحمت نے جنم لیا۔ اسی مزاحمت نے اگلے چند سالوں میں غاصب صہیونی رژیم پر کاری ضربیں لگائیں۔ اسی مزاحمتی تحریک نے 25 مئی 2000ء میں صہیونی رژیم کو انتہائی ذلت اور رسوائی کے عالم میں جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ صرف چند محدود علاقے اب بھی صہیونی رژیم کے قبضے میں باقی رہ گئے ہیں۔ اس دن کے بعد سے صہیونی رژیم نے فتح اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھا اور اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بعض حلقے جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی کو اسلامی مزاحمت کا خاتمہ تصور کر رہے تھے لیکن اس کے بعد اسلامی مزاحمت نے نیا رخ اختیار کر لیا۔

2)۔ 33 روزہ جنگ
جولائی 2006ء کے آغاز میں جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے لبنانی قیدیوں کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا تو حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطین کی ایک سرحدی چوکی پر حملہ کرکے دو صہیونی فوجیوں کو قیدی بنا لیا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے صہیونی رژیم سے ان دو فوجیوں کی آزادی کے بدلے اپنے چار قیدی کمانڈرز سمیر قنطار، نسیم نصیر، یحییٰ سخاف اور علی فراتن کی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ دوسری طرف صہیونی حکام نے اس مطالبے کے بدلے لبنان پر فوجی حملہ کر دیا اور یوں 33 روزہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس وقت کے صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے لبنانی قوم اور حکومت کو مخاطب قرار دیتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ آپ کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔

13 جولائی 2006ء کے دن صہیونی فضائیہ نے بیروت ہوائی اڈے کو بمباری کا نشانہ بنایا اور یوں باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ اسی طرح پہلے مرحلے پر صہیونی فضائیہ نے وسیع پیمانے پر بمباری کرکے لبنان کا انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا۔ اگرچہ صہیونی فوج عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہی تھی لیکن حزب اللہ لبنان صرف صہیونی فوجیوں اور فوجی ٹھکانوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بناتی رہی۔ جنگ سے اگلے دن ہی یعنی 14 جولائی 2006ء کے دن حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے جنگی بحری جہاز کو میزائل سے نشانہ بنایا۔ صہیونی فوج نے اس کا بدلہ لبنان میں اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری سے لیا۔ اس جنگ میں مزاحمت کی بہترین مثال "بنت الجبیل" محاذ پر حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے پیش کیا، جہاں انہوں نے کئی دنوں تک شدید حملوں کے باوجود صہیونی فوج کو پیشقدمی نہ کرنے دی۔

3)۔ 22 روزہ جنگ
27 دسمبر 2008ء کے دن غاصب صہیونی رژیم نے فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود میزائل کے ذخائر تباہ کرنے کی غرض سے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ یہ ظالمانہ جنگ 18 جنوری 2009ء تک جاری رہی، جس میں صہیونی رژیم نے مختلف قسم کے غیر قانونی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جن میں فاسفورس والے بم اور کلسٹر بم بھی شامل تھے۔ اس 22 روزہ جنگ میں صہیونی فوج نے غزہ میں گھسنے کی بھرپور کوشش بھی کی، لیکن ایسا نہ کر سکی۔ آخرکار صہیونی رژیم اس جنگ سے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر پائی، جس کے نتیجے میں ایہود اولمرٹ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ جنگ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان ٹکراو کے نئے باب کا آغاز ثابت ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 935075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش