1
0
Monday 22 Aug 2011 18:40

یوم القدس اور فکرِ امام خمینی رہ

یوم القدس اور فکرِ امام خمینی رہ
تحریر:حجۃ الاسلام علامہ سید جواد نقوی
 ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رہ نے بعنوان ’’یوم القدس‘‘ و ’’روزِ آزادی قدس‘‘ قرار دیا اور تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ اس دن کی مناسبت سے جلسے جلوس منعقد کریں اور ہر ممکنہ طریقے سے ’’مظلوم فلسطین‘‘ اور عالمی استکبار تک اپنی فریاد پہنچائیں۔ امام خمینی رہ نے اس دن کو ایک اسلامی تحریک اور امت مسلمہ کی بیداری کیلئے ایک عنوان و علامت قرار دیا۔ امام خمینی رہ نے ’’روز قدس‘‘ کو ’’یوم اللہ‘‘ قرار دیا ہے۔
یوم اللہ کی حقیقت:
بعض ایام ایسے ہوتے ہیں جن کو اعزازی آبرو اور عزت دی جاتی ہے، مثلاً روایت میں ہے کہ جس دن انسان گناہ نہ کرے وہ اس کا ’’عید کا دن ‘‘ ہے، لیکن یہ ’’اعزازی عید‘‘ ہے۔ اس دن ہم چھٹی لے کر گھر نہیں جاتے، اس دن ہم سویاں نہیں کھاتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ’’اعزازی عید‘‘ ہے۔ پس اعزازی عید والا دن ’’یوم اللہ‘‘ قرا ر نہیں پا سکتا، جس طرح کہ روایات میں بعض کو ’’اعزازی شہادت‘‘ کا رتبہ دیا جاتا ہے مثلاً جو اپنے مال کی حفاظت میں مر جائے وہ شہید ہے، جو اپنی زمین کی حفاظت میں مر جائے وہ شہید ہے، لیکن یہ سارے کے سارے اعزازی شہید ہیں، ان کو قتیل در راہِ خدا کا درجہ نہیں دے سکتے، کیونکہ ان کو غسل بھی دیا جاتا ہے اور کفن بھی جبکہ حقیقی شہید کو ان کی طرح غسل و کفن کی ضرورت نہیں۔
پس اسی طرح دین نے بعض ایام کو اعزازی رتبہ دیا ہے، لیکن یہ ایام ۔ ’’ایام اللہ‘‘ قرار نہیں پا سکتے۔ دین نے ایسے ایام کو ’’ایام اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ جس دن دینی نظام کی کوئی نہ کوئی بنیاد پڑے۔ روز قدس چونکہ امت مسلمہ کی بیداری کا بنیادی نقطہ آغاز ہے اس لیے اس دن کو امام خمینی رہ نے ’’یوم اللہ ‘‘ قرار دیا ہے۔
’’قدس‘‘ امت مسلمہ کے پیکر پر ایک زخم:
امام خمینی رہ فرماتے ہیں کہ ’’قدس‘‘ امت مسلمہ کے پیکر پر ایک گہرا زخم ہے جو کبھی مضمل نہیں ہو گا لیکن اس زخم کو محسوس کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ’’امت مسلمہ‘‘ ہوش میں ہو تو پھر اس امت کو پتہ چلے گا کہ میرے وجود پر زخم ہے اور مجھے اس زخم کا مداوا کرنا ہے، مجھے اس زخم پر مرہم رکھنا ہے۔
امام خمینی رہ فرصت ساز رہبر:
حقیقی رہبر کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ فرصتوں سے فائدہ اُٹھائے، بعض رہبر فرصت سوز ہوتے ہیں جو فرصتیں ضائع کر دیتے ہیں۔ امام خمینی رہ میں خدا نے یہ صلاحیت رکھی ہوئی تھی کہ امام فرصتوں سے فائدہ اُٹھانا جانتے تھے، اس لیے امام خمینی رہ نے قدس کے زخم کو امت مسلمہ کی بیداری کیلئے بہترین فرصت سے استفادہ کیا۔
قدس اسلامی مسئلہ ہے نہ کہ جغرافیائی مسئلہ:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ایک طبقہ اسی الجھن کا شکار ہے کہ قدس اسلامی مسئلہ ہے یا نہیں اور بعض لوگوں نے باقاعدہ قرآنی آیات کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قدس بنیادی طور پر ہے ہی یہود کا، مسلمان تو اس میں بعد میں داخل ہوئے، اس طرح بہت سوں نے کوشش کہ ہے کہ قدس اسلامی مسئلہ کے بجائے کشمیر کی طرح ایک جغرافیائی مسئلہ بن جائے۔ اتفاقاً سارے عربوں کا رجحان یہی تھا کہ فلسطین کشمیر کی طرح ایک تنازع بن جائے۔
دو قوموں یا دو ملکوں کا ایک جغرافیائی اور زمینی جھگڑا بن جائے، لیکن امام خمینی رہ نے ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان کر کے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور اس کو پوری امت مسلمہ کا مسئلہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جتنی دشمنی، کینہ اور نفرت استکبار اور خصوصاً امریکہ و برطانیہ کے دل میں ’’انقلاب اسلامی‘‘ کے بارے میں ہے اس کا واحد سبب یہی ہے کہ ’’انقلاب اسلامی‘‘ نے ہمیشہ یوم القدس کے بارے میں اسلامی و دینی موقف اختیار کیا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین ساز ڈاکٹر بہشتی رہ نے اسی لیے انقلاب اسلامی کے آغاز میں کہا تھا کہ
’’بہ امریکہ بگوئید کہ از ما عصبانی باش و از این عصبانیت بمیر‘‘
امریکہ سے جا کر کہہ دو کہ ہم سے اور زیادہ شدت کے ساتھ غضبناک ہو اور پھر آخر کار اس غضب کی شدت سے پھٹ کر مر جائے۔
امریکہ کے دل میں جو انقلاب اسلامی کے بارے میں اس قدر کینہ ہے، اس کی وجہ ’’قدس‘‘ کے بارے میں انقلاب اسلامی ایران کا موقف ہے۔ اگر انقلاب اسلامی ایران نے قدس کو نہ چھیڑا ہوتا اور پورے جہان اسلام کی طرح یہ دن سادگی سے گزر جاتا تو ایران کو آج اتنی بھاری قیمت ادا نہ کرنا پڑتی، ممکن ہے پاکستان میں کسی کو پتہ نہ ہو کہ روز قدس کیا ہے؟ لیکن اسرائیل کو پتہ ہے کہ روز قدس کیا ہے؟ امریکہ کو پتہ ہے کہ روز قدس کیا ہے؟ برطانیہ کو پتہ ہے کہ روز قدس کیا ہے؟ اور اس عظیم رہبر امام خمینی رہ نے یوم القدس کا اعلان کرکے ان استکباری طاقتوں کے عزائم پر پانی پھیر دیا اور پاکستان میں کسی کو القدس کی اہمیت معلوم نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہاں وحی تو نہیں اترتی اور نہ یہاں جبرایئل ع آتے ہیں اور نہ ایسا کوئی سینہ پنہاں نظر آتا ہے، جو اسلام و قدس کیلئے اس طرح دھڑکتا ہو، جس طرح امام خمینی رہ کا دل اسلام کیلئے دھڑکتا تھا، لیکن وہ بھی اپنے رب کی بارگاہ میں چلا گیا، پیچھے کون بتائے گا۔ امتوں کو بیٹھے بیٹھے خواب تو نہیں آتے، امتوں کو بتانا پڑتا ہے، امتوں کو جگانا پڑتا ہے، امتوں کو آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ روز قدس بعض لوگوں کے ذمے ایک الٰہی ذمہ داری تھی، جسے پاکستان میں نہیں پہنچایا گیا۔
امریکہ کی بے قراری حق کی شناخت کا معیار:
اگر آپ کو دیکھنا ہے کہ "یوم القدس" کی حقیقت کیا ہے تو اس کا ایک پیمانہ امریکی بوکھلاہٹ ہے، برطانوی بوکھلاہٹ ہے اور اسرائیلی بوکھلاہٹ اور یہ پیمانہ بھی خود امام خمینی رہ نے بتایا، امام خمینی رہ نے فرمایا کہ حق پہنچانے کیلئے بہترین معیار و پیمانہ یہ ہے کہ دیکھو کہ امریکہ کو کونسی چیز بری لگتی ہے؟ جو چیز امریکہ کو بری لگتی ہو، سمجھو وہ بالکل صحیح ہے۔ امام خمینی رہ نے انقلابی وارثوں کو بھی یہ نصیحت کی تھی کہ جس دن امریکہ تمہاری تعریف کرنے لگے اور تمہارے گیت گانا شروع کر دے اس دن سمجھ لینا کہ تم غلط راستے پر جا رہے ہو۔
پس یوم القدس کے حوالے سے امریکہ و اسرائیل کی بوکھلاہٹ یوم القدس کی حقیقت کو سمجھنے کا بہترین پیمانہ ہے۔ امام خمینی رہ نے یوم القدس کا اعلان کر کے شیطان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا کہ جن پر چالیس سال سے مسلسل کام ہو رہا تھا، ان کے بنے بنائے کھیل ختم ہو گئے۔
امام خمینی رہ نے یوم القدس کا اعلان کر کے کیا کیا؟ یہ پوچھنا ہے تو امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سے پوچھو۔ ان کے اس غضب و نفرت و کینہ سے پوچھو جو امام رہ اور انقلاب کی نسبت ان کے دلوں میں موجود ہے۔ آخر کیوں 56 اسلامی ممالک میں سے فقط ایران ہے جو امریکہ کی نفرت و کینہ و غضب کا شکار ہے؟ اس نفرت سے پتہ چلتا ہے کہ ’’روز قدس‘‘ میں کچھ تو ہے، جو اگرچہ پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آ رہا ہے، لیکن صیہونزم سمجھ گیا ہے۔
یوم القدس بیت المقدس کے ٹھیکداروں سے آزادی کا دن:
کچھ لوگ اس کوشش میں مصروف تھے کہ مقبوضہ فلسطین کو کشمیر کی طرح کا ایک جغرافیائی مسئلہ بنا دیں اور فلسطین کو موم کی طرح کا ایک مسئلہ بنا دیں، جب جو رنگ دینا چاہیں دے دیں، جس طرح آج کشمیر جانے والوں کو مجاہد کہنا چاہتے ہیں تو مجاہد کہہ دیتے ہیں لیکن فوراً ایک نشست مذاکرات کر کے ان کو ’’دہشت گرد‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ ایک دن کشمیر ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے لیکن اگلے دن پھر کہتے ہیں کہ نہیں کشمیر کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے، تیسرا آپشن بھی ہے اور بھی راہِ حل ہیں، انہوں نے کشمیر کو موم بنا دیا کہ جب جو رنگ دینا چاہیں دے دیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ٹھیکداروں کے ہاتھوں میں ہے، کچھ لوگ بعض چیزوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار بن جاتے ہیں، خود ہی ٹھیکے کا اعلان کرتے ہیں، خود ہی ٹھیکہ لے بھی لیتے ہیں، کچھ چیزوں کے ٹھیکیدار خود ہی پیدا ہو جاتے ہیں اور ان چیزوں کو اپنی مخصوص قلمرو اور جاگیر سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے کا داخلہ اس میں ممنوع ہوتا ہے، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جب ملت اور دین ٹھیکیداروں کے ہاتھ چڑھ جائے، قومی مسائل اور دین ٹھیکیداروں والی چیز نہیں، لیکن اب امریکیوں نے ٹھیکہ لے لیا ہے، وہ نہ ٹھیکہ توڑتے ہیں اور نہ کسی اور کو لینے دیتے ہیں۔
جہاں پر ٹھیکیدار آ جائیں وہ چیز تباہ ہو جاتی ہے، کشمیر اور فلسطین میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ امام خمینی رہ کی بصیرت یہی تھی کہ امام خمینی رہ نے ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان کر کے قدس کے مسئلے کا ٹھیکہ فلسطینی لیڈر شپ سے لے لیا اور اس مسئلہ کی ڈور امت مسلمہ کے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ امام خمینی رہ نے فلسطینی لیڈر شپ کو بے بس کر دیا ورنہ یہ تو حاضر تھے کہ سب کچھ بیچ دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی لیڈرز ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ گئے اور فلسطین کا سودا کرکے آ گئے، لیکن واپسی پر بے بس ہو گئے اور اسرائیل نے یہ گلہ کیا کہ فلسطینی لیڈر شپ نے اپنے معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے یاسر عرفات کو  "رام اللہ‘‘ میں بند کر کے کہا کہ ہم اس کو مار دیں گے کیونکہ اس نے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے اس پر عمل درآمد نہیں کرسکا، لیکن یہ تو اسرائیل کی حماقت تھی کہ انہوں نے یاسر عرفات کو کیمپ ڈیوڈ میں بلا کر سمجھا کہ فلسطین ہمارے ہاتھ آ جائے گا۔
 امریکہ و اسرائیل کی بدقسمتی تھی کہ خمینی رہ پیدا ہو گیا۔ امام خمینی رہ کی بصیرت دیکھیں کہ امام رہ نے ’’قضیہ قدس‘‘ کو اس طرح اُٹھایا کہ آج اگر فلسطینی لیڈر شپ بھی فلسطین کو کشمیر کی طرح کا مسئلہ بنانا چاہے تو نہیں بنا سکے گی، کیونکہ امام خمینی رہ نے فلسطین کو یاسر عرفات اور محمود عباس جیسے لوگوں سے لے کر عوام کا مسئلہ بنا دیا ہے، ملت کا مسئلہ بنا دیا اور وہ بھی فقط فلسطینی امت کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ’’امت مسلمہ‘‘ کا مسئلہ بنا دیا کیونکہ جو شے امت کے ہاتھوں میں آ جائے اس شے کو چھیننا آسان نہیں ہوا کرتا۔ 
آج فلسطینی لیڈر شپ ’’قدس‘‘ کو فلسطینی جوانوں سے نہیں چھین سکتی۔ محمود عباس کے بس کی بات نہیں، محمود عباس ہزار بار جا کر ٹیبل پر اسرائیل سے وعدے کر کے آتا ہے لیکن عاجز واپس آ کر محمود عباس بیان دیتا ہے کہ ’’حماس‘‘ کو کنٹرول کرو۔ بھئ لیڈر تو آپ ہو، مذاکرات آپ نے کیے ہیں، طے آپ نے کیا ہے، جب آپ لیڈر ہو تو حل کرو مسئلے کو، لیکن انہیں پتہ ہے کہ ڈور ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی، یہ ڈور امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہی، یہ ڈور اسرائیل کے ہاتھ میں نہیں رہی، ڈور محمود عباس کے ہاتھ میں بھی نہیں رہی، بلکہ امام خمینی رہ نے یوم القدس کا اعلان کر کے یہ ڈور امت مسلمہ کے ہاتھوں میں دے دی ہے، یہ ڈور مجاہدین کے ہاتھوں میں ہے، یہ ڈور شہیدوں کے کٹے ہوئے جسموں کے ہاتھ میں ہے، یہ ڈور محمد والدورہ کے ہاتھ میں ہے، محمد والدورہ، وہ چھوٹا سا بچہ ہے جو اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہوا تھا اور اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ امام خمینی رہ نے یہ بتا دیا کہ امتوں کے مسائل اور دین کے مسائل ٹھیکیداروں کے ہاتھوں حل نہیں ہوتے بلکہ امتوں کے ہاتھوں حل ہوا کرتے ہیں۔ امام خمینی رہ نے قدس کا پرچم یاسر عرفات اور محمود عباس سے لے کر فلسطینی جوانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا، امت مسلمہ کے ہاتھوں میں دے دیا۔ 
آج کشمیر کا مسئلہ ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں ہے، اس لئے اگر یہ ٹھیکیدار کشمیر پر سودا کرنا چاہیں تو پاکستان کی ملت ان کو نہیں روک سکتی، لیکن امام خمینی رہ نے کہا کہ قدس کو اسرائیل سے آزاد کروانے سے پہلے ٹھیکیداروں سے آزاد کروانا ضروری ہے۔ پس ’’یوم القدس‘‘ فقط ایک نعرہ اور جلوس نہیں بلکہ ایک انتفاضہ ہے، انتفاضہ یعنی بیداری کی عالمی تحریک، امام رہ نے یوم القدس کو عالمی بیداری کا ذریعہ قرار دیا۔ امام خمینی رہ نے ملت اسلامی کی بیداری کیلئے تنظیمیں نہیں بنائیں، ٹھیکیدار نہیں بنائے بلکہ ڈائریکٹ مسلمان جوانوں سے خطاب کیا، ڈائریکٹ امتوں سے خطاب کیا، امام خمینی رہ نے کسی مسئلے میں بھی ٹھیکیداروں کو اہمیت نہیں دی، اسی لیے ضیاء الحق جب امام خمینی رہ سے ملنے گیا تو امام خمینی رہ نے اس کی ایک بات کے جواب میں کہا کہ ’’تو اسلام را کج فہمیدی‘‘ (تم اسلام کو اُلٹا سمجھے ہو)۔ اس لئے امام خمینی رہ نے ضیاء الحق کی بجائے شہید عارف حسینی رہ کی شہادت پر ٹھیکیداروں کو وسیلہ بنائے بغیر ڈائریکٹ پاکستانی ملت سے خطاب کیا اور پاکستانی ملت کو ’’غیور ملت، شریف ملت‘‘ قرار دیا۔
پس قدس در حقیقت عالمی انتفاضہ کی طرف ایک قدم ہے، اس لئے’’ وم القدس‘‘ یوم اللہ ہے۔ یوم القدس، میں شرکت یعنی عالمی انتفاضہ میں شرکت، عالمی انتفاضہ میں شمولیت ہے۔ لیکن پاکستان کی سرزمین پر پہلے اس کو وہ رنگ دینا پڑے گا اور اس کیلئے پہلے اس اسلام اور دین کی شناخت ضروری ہے جو اپنے پیروکاروں کو قدس کے زخم کا احساس دلا سکے۔ اس وقت ہمارے پاکستان کے معاشرے میں جس اسلام کی ترویج کی گئی ہے وہ انفرادی اسلام ہے یعنی اس پورے اسلام پر انسان تن تنہا کسی غار میں بیٹھا ہوا عمل کر سکتا ہے۔ اس وقت ہم مسلمان درحقیقت چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں اور ایک جزیرے کو دوسرے جزیرے کی خبر نہیں۔
پیغمبر اکرم ص کی حدیث ہے۔
"من اصبح ولم یتھتم بامور المسلمین فلیس علم"
جو صبح اُٹھے اور امور مسلمین کے بارے میں کوئی اہتمام نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔ لیکن ہم نے کبھی بھی ایسی صبح نہیں کی۔ اس وقت ہمارے حکمرانوں اور دینی اداروں نے جو اسلام پڑھا ہے وہ یہ ہے کہ :
رند خراب حال کو اے زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو

آج ہم کہتے ہیں کہ ہمیں فلسطین سے کیا، ہمیں عراق سے کیا، ہمیں لبنان سے کیا، یہ تو اُن کا مسئلہ ہے، حالانکہ یہ بہت غلط سوچ ہے۔ پیغمبرا کرم ص فرماتے ہیں کہ: ’’مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی ہے۔‘‘ اب آپ یہ سوچیں کہ یہی انفرادیت ہمارے اعضاء میں آ جائے، ہاتھ، آنکھ کی پرواہ نہ کریں تو کیا بنے گا؟ اگر یہ ہاتھ خود خواہ و خود بین ہو جائے تو جسم کا کیا حال ہو گا؟ اگر دانت کو درد ہو اور پاؤں کہے کہ ڈاکٹر کے پاس دانت کو جانا چاہیے مجھے کیا؟ آنکھ میں کیڑا پڑ رہا ہو اور ہاتھ کہے کہ یہ کیڑا یا مچھر آنکھ میں جا رہا مجھے اس سے کیا؟ تو اس سے جسم کا کیا حشر ہو جائے گا۔ آج یہی حال اُمت مسلمہ کا بھی ہے، اس وقت ہم ہاتھ ہیں اور فلسطین آنکھ۔ اب ہاتھ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے کہ فلسطین زخمی ہو رہا ہے، مجھے کیا۔ پس یہ سوچ ہے کہ
رند خراب حال کو اے زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو

یہ اسلام نہیں، اگر اردو شعر سے یہی اسلام سمجھنا ہے تو یہ اسلام کا ترجمان شعر نہیں بلکہ اسلام کا ترجمان امیر مینائی کا یہ شعر ہے کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

انسان روزہ رکھ کر ،نماز پڑھ کر، حافظ بن کر مسلمان نہیں بنتا بلکہ اس وقت مسلمان بنتا ہے جب اس مقام تک پہنچ جائے کہ سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں آ جائے۔ امام خمینی رہ کے دل میں سارے جہاں کا درد تھا، کہیں یہ خنجر چبھتا تھا تو امام تڑپتے تھے، پس فلسطین و قدس کے زخم کا وہ درد تھا جو امام خمینی رہ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا اور اسی درد کو عالمی و جہانی کرنے کیلئے امام خمینی رہ نے یوم القدس کا اعلان کیا۔
خداوند تبارک و تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ خدا ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے اور پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ بیش تر اہتمام کے ساتھ یہ دن منانے کی توفیق عطا فرمائے اور انشاء اللہ وہ دن پاکستان میں بھی آئے کہ جب یہاں پر بھی استکبار جہانی کے خلاف انتفاضہ کا آغاز ہو سکے۔ انشاء اللہ
خبر کا کوڈ : 93638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

India
bahot umda tahreer
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش