0
Wednesday 28 Jul 2021 23:30

خواتین پر حملے اور ہمارے سماجی رویئے

خواتین پر حملے اور ہمارے سماجی رویئے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ہم معاشرتی طور پہ کیسی کیسی بیماریوں اور تباہ کاریوں کا شکار ہیں، اس کا اندازہ فی زمانہ ہماری سوسائٹی میں ہونے والے کئی ایک واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے دارالخلافہ میں ایسے گھنائونے، شرمناک، اندوہناک اور اذیت ناک سانحات رونما ہو رہے ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانے کیساتھ ہر ایک خوف و دہشت کا شکار نظر آتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاس بعض خبروں نے ہمارے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بالخصوص عورتوں پر ہونے والے مظالم اور حتیٰ قتل کی وارداتوں نے تو گویا ہمارے معاشرتی نظام، رویوں، قانونی پیچیدگیوں اور انصاف دینے کی راہ میں ان گنت خامیوں کی نشاندی کی ہے، جس کا اعتراف قومی میڈیا، اخبارات کے کالمز اور سوشل میڈیا پر صارفین و ناظرین کرتے دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ کم سن بچوں، معصوم کلیوں، راہ چلتی خواتین، مدرسوں میں پڑھتے طالبعلموں، یونیورسٹیوں میں جانے والی طالبات کے اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ اپنے ناجائز حمل گرانے اور موت کی آغوش میں چلے جانے، قبرستان میں مردہ خواتین کی بے حرمتی کی افسوسناک خبروں سے ہوتے ہوئے ہماری نسلوں کو اب جانوروں (بکریوں) پر جنسی حملوں کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔

یہ کس قدر اذیت ناک، شرمناک، گھمبیر اور ذلت آمیز ہے کہ اس پر بات کرتے ہوئے بھی بہت دکھ ہو رہا ہے، ہم کس قدر گر چکے ہیں، ان تمام خبروں کا ایک درد ناک پہلو یہ ہے کہ ان واقعات میں ہمہ جہتی سوسائٹی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث تھے، ایسا نہیں ہے کہ بہت پڑھے لکھے اور امیر لوگ اس سے مبرا ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور امیروں کا وحشیانہ اقدامات کا انداز دیگر سے زیادہ خطرناک رہا ہے۔ نور مقدم کیس اس کی سامنے کی مثال ہے، جس میں ملوث شخص تعلیم یافتہ اور معروف سماجی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ معصوم بچوں اور کم سن بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں ملوث لوگ نچلی سطح کی مالی پوزیشن رکھنے والے لوگ بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ مدرسوں میں ہونے والے شرمناک جنسی واقعات میں اوپری سطح کے اساتذہ کا ملوث ہونا بھی کسی سانحہ سے کم نہیں لگتا۔ سوسائٹی کے اجزائے ترکیبی، معاشرے کو جہت اور ٹرینڈ دکھانے والے طبقات نیز حکومت و سماجی تنظیمیں کیا معاشرے کی اس تباہی پہ متوجہ ہیں، اگر متوجہ ہیں تو کیا منصوبہ بندی ہے کہ معاشرے کو اس تباہی سے بچایا جا سکے، اگر متوجہ ہی نہیں تو کیسے متوجہ کیا جا سکتا ہے، یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے۔؟

اگر سوسائٹی کے سبھی طبقات (مدرسوں سے لیکر میرا جسم میری مرضی والوں تک اور بنگلوں سے لیکر جھونپڑیوں والوں تک) میں اس طرح کے منفی رویوں کے سامنے آنے سے ثابت ہوچکا ہے تو پھر بلا تفریق سبھی طبقات کے بڑوں کو اس پر سوچنا ہوگا، سبھی کے معتبر لوگوں کو اس پر دقت کرنا ہوگی، خامیوں، کمزوریوں اور رکاوٹوں پہ غور کرنا ہوگا اور ان رویوں کی تبدیلی کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ اس پر نسلوں کی تربیت، تحفظ اور مستقبل کی بات ہے، یہ کوئی معمولی کام نہیں، جو چھو منتر سے ہو جائے گا بلکہ اس کیلئے قوم و ملت کی تربیت و تعلیم اور ترغیب و تہذیب کی مسلسل مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس تعلیم و تربیت، تہذیب و ترغیب کیلئے ہمارے مدارس و اسکولز اور یونیورسٹیز و کالجز میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی اور اخلاقیات کے عناوین، تہذیب نفس جیسے موضوعات کو لازمی مضامین کے طور پر  نصاب میں شامل کرکے طلباء کو پڑھانا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قوم کی تہذیب و تعلیم اور تربیت میں اس ملک کے تعلیمی ادارے اور ان میں دی جانے والی تعلیم سب سے موثر کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے نظام تعلیم کے مطابق تعلیمی اداروں کا تعلق ایک طرف تو دینی مدارس سے ہے جبکہ دوسرے روایتی تعلیمی ادارے کالجز، یونیورسٹیز اور اسکولز ہیں۔ مدارس جو تمام مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اب لاکھوں میں طلبہ پر اثر رکھتے ہیں، بہت سے مدارس نے جدید تعلیمی کورسز بھی متعارف کروائے ہیں، جو اچھی بات ہے۔ ہمارے مدارس سے وابستہ علماء کرام کی بہت بڑی اکثریت موجودہ سیاست میں وارد ہیں، سیاست کے ذریعے پارلیمنٹ میں ملکی قانون سازی کے عمل میں شریک ہو کر ایسے قوانین بنوانے کیلئے کوشش کی جا سکتی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے دینی جماعتوں کے سیاستدان ہوں یا عام سیاسی جماعتیں، ان میں سوشل مسائل پر جدوجہد، سماجی تبدیلیوں کیلئے کام، پروگرامات کا انعقاد اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کا کلچر ہی نہیں ہے۔

حالانکہ معاشرے کی اس نہج پر پہنچی تباہی کے حالات دیکھ کر کسی کو چین نہیں آنا چاہیئے، مگر یہاں حکمرانوں سے لے کر علماء و عمائدین تک اور حکومتی اداروں سے لیکر سماجی تنظیموں تک کسی کو پروا نہیں، پھر کون یہ فریضہ سرانجام دے گا؟ یہ ایک سوال ہے، جو ہمیں متوجہ کر رہا ہے۔ اگر قوم و ملت کی تربیت و تہذیب کیلئے بنیادی کام نہ کئے گئے، جنسی مسائل میں متاثرین کیلئے انصاف کی فراہمی میں قانونی کمزوریوں کو دور نہ کیا گیا، انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کو دور نہ کیا گیا تو ہم تباہی کے دھانے پہ پہنچے برائے نام مسلمان تو رہ جائیں گے مگر ہمارے اندر سے مسلمانی نکل جائے گی۔ ہماری اگلی نسلیں ہماری روایات، اخلاقی قدروں، سماجی تعلقات، بہتر سماجی رویوں سے عاری رہیں گی اور پھر خدا نخواستہ ہمارا معاشرہ مغرب کی طرح ایسا معاشرہ بن جائیگا، جس میں عورت ایک کھلونا بنی دکھتی ہے اور عورت ایک تماشا، ایک نمائش و نمود کا ذریعہ ہے، انتہائی غیر محفوظ ہے، جو برابری کے نام پہ جگہ جگہ عزتیں تار تار کرواتی ہے۔

بہرحال اس وقت سوسائٹی کی جدید تشکیل اپنے مراحل طے کر رہی ہے، میڈیا بھی ایک اہم رول رکھتا ہے، ہمارا قومی میڈیا، سرکاری یا پرائیوٹ، ہمسائے ملک کے گلیمرس ڈراموں سے متاثر ہو کر اپنی روایات اور ثقافت سے کافی دور ہوا ہے، جس پر لکھاری حضرات اور چینلز مالکان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ایک اتھارٹی پیمرا کے نام سے کام کر ہی ہے، مگر اس کا کام اس طرح نہیں جیسا ہونا چاہیئے۔ بہرحال میڈیا ان مسائل کو دیکھ کر اگر خود ہی ذمہ دارانہ کردار اپنائے تو زیادہ بہتر ہے۔ عدالتیں اور تفتیشی ادارے بالخصوص پولیس کے نظام میں خامیوں کو دور کئے بنا بھی سوسائٹی کی تشکیل میں بہتری کی گنجائش لانا ممکن نہیں۔ ہمارا نظام ایسا ہو کہ کسی کو کسی کمزور وہ خاتون ہو یا مرد، بچی ہو یا طالبعلم پر زور زبردستی کرنے کی جرائت نہ ہو اور اگر کوئی کیس ہو جائے تو انصاف لینے کیلئے کسی کو اپنی جمع پونجی بیچ کر قرض کے بوجھ تلے جا کر بھی انصاف نہ ملے، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔ بدقسمتی سے اس وقت تک ایسا ہی ہو رہا ہے، جو ظلم ہے اور اس کے ذمہ دار سبھی ہیں، اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 945667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش