1
Saturday 4 Sep 2021 22:24

افغانستان سے امریکہ کا فرار اور نیٹو کی دماغی موت

افغانستان سے امریکہ کا فرار اور نیٹو کی دماغی موت
تحریر: رضا محمد مراد
 
یورپی یونین کے رکن ممالک پانچ ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک مشترکہ فورس تشکیل دینے کیلئے اہم اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے مغربی اتحادیوں کو اعتماد میں لئے بغیر افغانستان سے امریکہ کے اچانک فوجی انخلا کے بعد کیا ہے۔ سیلوانیا میں یورپی ممالک کے وزرائے دفاع نے بند دروازوں کے پیچھے اجلاس منعقد کیا۔ آگاہ ذرائع کے بقول اس اجلاس میں اکثر شرکاء نے افغانستان سے فوجی انخلا کو ایک  شرمناک اور ذلت آمیز شکست قرار دیا ہے اور یورپی یونین کی فوجی طاقت میں اضافے پر زور دیا ہے۔ سیلوانیا کے پاس اس وقت یورپی یونین کی صدارت ہے۔ افغانستان سے انتہائی کم وقت میں امریکہ کی زیر کمان فورسز کا انخلا اور اس کے نتیجے میں اس ملک میں پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال نے یورپی ممالک کو پریشان کر دیا ہے۔
 
افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء نے یورپی ممالک کو اپنی اسٹریٹجک خودمختاری خاص طور پر فوجی شعبے میں خود اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیلوانیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے پانچ ہزار فوجیوں پر مشتمل ابتدائی فورس تشکیل دینے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ امور جوزپ بوریل نے کیا ہے۔ اس کی تشکیل کا مقصد بحرانی علاقوں میں فوری طور پر فورسز تعینات کرنے کو ممکن بنانا ہے۔ جوزپ بوریل نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں زیر بحث موضوعات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم افغانستان میں پیش آنے والے حالات دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خودمختار نہ ہونے کا بھاری تاوان دینا پڑتا ہے۔
 
جوزپ بوریل نے کہا: "ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ اپنی فورسز کو ایک جگہ جمع کر کے مشترکہ اقدام کیلئے پختہ ارادہ کرنا ہے۔ اس کا مطلب نئے وسائل کی تیاری ہے جس کی ایک مثال یہ ابتدائی فورس ہے۔" یاد رہے نیٹو کی متبادل نئی یورپی فورس تشکیل دینے کا نظریہ اس سے پہلے فرانس کی جانب سے پیش ہو چکا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی قومی آمدن کا دو فیصد امریکہ کو ادا کریں۔ انہوں نے نیٹو فوجی اتحاد ختم کر دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس وقت فرانس کے صدر نے ایک علیحدہ یورپی فورس تشکیل دینے کا عندیہ دیا تھا۔ یوں امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
 
اب جب امریکہ نے افغانستان میں اپنے یورپی اتحادی ممالک سے مشورہ کئے بغیر یکطرفہ طور پر فوجی انخلا انجام دیا ہے تو ایک بار پھر یورپی یونین کے رکن ممالک امریکہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ یورپی یونین کے سربراہان خود کو امریکہ کا محتاج محسوس کر رہے ہیں اور ان میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ امریکی حکمران نیٹو کے دیگر رکن ممالک کو اپنا ماتحت تصور کرتے ہیں۔ یورپی حکام کی جانب سے علیحدہ فوجی اتحاد تشکیل دینے کے فیصلے کی ایک اہم وجہ یہی احساس ہے۔ سیلوانیا کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان میں رونما ہونے والے حالات نے فوجی شعبے میں امریکہ پر ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اسی طرح جرمنی کے وزیر دفاع نے بھی دفاعی اور سکیورٹی امور میں خودمختار ہونے پر زور دیا۔
 
اگرچہ نیٹو فوجی اتحاد کا مقصد سرد جنگ کے دوران کمیونزم کو لگام دینا تھا اور سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد اس کا فلسفہ وجودی ختم ہو چکا تھا لیکن عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق کا دفاع اور جمہوری اقدار کا پھیلاو جیسے ایشوز اٹھا کر اس فوجی اتحاد کو نئے مشن سونپنے کی کوشش کی گئی۔ سرد جنگ اور بائی پولر ورلڈ آرڈر کے خاتمے کے بعد نیٹو فوجی اتحاد نے تین بڑے فوجی آپریشنز انجام دیے ہیں۔ سابق یوگوسلاویا پر حملے کا نتیجہ اس ملک کا چند ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسی طرح 2001ء میں افغانستان پر نیٹو کی فوجی جارحیت انجام پائی اور 2010ء میں نیٹو نے لیبیا میں فوجی آپریشن انجام دیا۔ افغانستان میں بیس سال بعد امریکہ اور نیٹو فورسز کو ذلت آمیز شکست کھا کر نکلنا پڑا۔
 
لیبیا پر حملے کے بعد امریکی صدر نے معذرت خواہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ تینوں ممالک پر فوجی جارحیت بہت بڑی غلطی تھی جو غلط معلومات کی بنیاد پر انجام پائے۔ افغانستان میں گذشتہ بیس برس کے دوران پیش آنے والے حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ نیٹو کو سونپے گئے دہشت گردی کے خاتمے اور جمہوریت کی ترویج جیسے مشن محض ایک دھوکہ اور فریب تھا۔ بیس سال بعد جب امریکہ افغانستان سے نکلا تو ان میں سے کوئی مقصد بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پایا تھا۔ نہ ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی افغانستان میں جمہوریت فروغ پا سکی۔ دوسری طرف نیٹو یوکرائین اور جارجیا جیسے ممالک کی بھی کافی حد تک مدد کرنے میں ناکام رہی جو اس اتحاد میں شامل ہونے کے خواہاں تھے۔ لہذا اب یورپی ممالک خود کو کمزور محسوس کر رہے ہیں اور اپنا دفاع خود کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
خبر کا کوڈ : 952159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش