0
Friday 26 Nov 2021 11:36

شہیدِ گمنام۔۔۔۔۔ شہید علی ناصر صفوی(2)

شہیدِ گمنام۔۔۔۔۔ شہید علی ناصر صفوی(2)
تحریر: سویرا بتول

اسلام دینِ حکمت و منطق ہے۔ تمام احکامات اسلامی، حکمت و منطق اور راز و نیاز بشر سے بھرپور ہیں۔ فلسفہ شہادت بھی خالقِ کاٸنات کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے، جسے عام بشر بمشکل سمجھ پاتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ یہ راز شہید علی ناصر صفوی نے بخوبی درک کر لیا تھا اور اسی لیے امام زمانہ (عج) کے گمنام سپاہی کہلائے گئے تو بے جا نہ ہوگا۔ شہید کی برسی پر سارا دن غم و یاس کی تصویر بن کر گزرا۔ یوں لگا کہ تمام الفاظ دم توڑ گئے، ہم حسرت سے یالیتنا کہتے رہ گٸے اور شہداء ہم سب پر سبقت لے گئے۔

شہادت میں شہید کا مقام صرف قتل ہونے کی وجہ سے اہمیت کا باعث نہیں بنتا۔ اس دنیا میں ہر روز کئی افراد کسی مقصد کے بغیر مفت قتل کیے جاتے ہیں، جنہیں عام زبان میں اُن افراد کی بدقسمتی اور تقدیر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس طرح مرنے سے انہیں کوٸی امتیاز یا افتخار حاصل نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس قسم کی موت ذلت اور حقارت کا باعث بنتی ہے، جبکہ اس کے برعکس شہادت رب کاٸنات کا ایسا عظیم تحفہ ہے، جس میں انسان تمام خطراتِ زندگی کو جانتے ہوٸے مقصد و ہدف کو بچانے کی خاطر راہِ خدا میں اپنی جان قربان کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فاٸز ہوتا ہے۔شہید علی ناصر صفوی جانتے تھے کہ اس راہ کے اختتام پر شہادت حتمی ہے، اس لیے تمام مصلحتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوٸے یزیدِ دوراں کے سامنے ڈٹ گئے۔

اولیاء خدا یا دوستانِ خدا اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہونے کے عمل کو موت کہتے ہیں۔ موت ان افراد کی دیرینہ آرزو ہے اور وہ بےقراری سے اس آرزو کی تکمیل کے مشتاق رہتے ہیں۔ بقول امام علی علیہ السلام "اگر خداوند عالم اولیاء خدا کے لیے موت کا وقت معین نہ فرماتا تو عاقبت کے خوف اور ثواب کے شوق میں ان افراد کی روحیں ان کے بدن سے خود بخود پرواز کر جاتیں۔" ان تمام مساٸل کے باوجود دوستانِ خدا موت کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں نہیں رہتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمر ایک فرصت ہے، جس میں عبادت اور عملِ صالح انجام دیئے جاسکتے ہیں اور فرصت جتنی بھی زیادہ ہو اتنے ہی انسانی کمالات اجاگر ہوں گے، لہذا اس لیے وہ طولِ عمر کے طالب ہوتے ہیں۔

بس معلوم ہوا کہ اس نکتہ نظر کے مطابق موت کا مشتاق ہونا، موت کی آرزو کرنا، خداوندِ عالم سے عبادت کے لیے طولِ عمر کی دعا کرنا، کسی بھی طرح سے ایک دوسرے سے برخلاف نہیں۔ چنانچہ اسی لیے شہید علی ناصر صفوی اکثر کہا کرتے تھے کہ *میں خطروں سے نہیں ڈرتا، موت سے نہیں بھاگتا ہوں، جب طوفان میرے تحمل کی طاقت سے بڑھ جاتے ہیں، میں خدا کو یاد کرکے اپنا رنج و غم دور کر لیتا ہوں، مجھے سکون ملتا ہے اور جب کوٸی راہِ نجات نہیں ملتی تو شہادت کے دامن میں پناہ لیتا ہوں اور محکم قدموں اور فولادی ارادے کے ساتھ حسین (ع) کے نقشِ قدم پہ چلتا ہوں*

اکثر اپنے اہلِ خانہ سے کہا کرتے تھے کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے شہادت سے نوازے، مجھے خوف ہے کہ میرے سر پر سفید بال آگئے ہیں اور میرے خدا نے مجھے ابھی تک اپنے پاس نہیں بلایا، کیا میرے گناہ اتنے بڑھ چکے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ موت اگر شہادت کی شکل میں حاصل ہو تو یہ شہید کے لیے ایک امتیاز اور خوشی و خوشحالی کا موقع ہے۔ شہید کی برسی کے موقع پر اُس عظیم ماں کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے، جس کے سامنے اُس کے لعل کو خون کی ہولی میں نہلایا گیا۔ کمرے کے کونے میں بوڑھی ضعیف ماں اپنے جوان بیٹے اور بہو کو خون میں لت پت ہوتے دیکھتی رہیں اور ثانی زہراء کی حقیقی کنیز ہونے کا حق ادا کیا۔

کجا اِس کے کہ اُس ضعیف ماں کے سامنے اُس کا لال گولیوں میں بھنا گیا، مگر وہ استقامتِ زینبی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے، اپنی ننھی پوتیوں کو سنبھالتے میڈیا کے تمام سوالات کا جواب دیتی رہیں۔ ایسی ہی شیر دل زینبی کردار ادا کرنے والی خواتين کے حوالے سے رہبرِ معظم کہا کرتے تھے کہ بے شک شہید ہونے والی، دفاع وطن میں زخمی ہو کر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والی اور دشمن کے عقوبت خانوں میں جنگی قیدی کی حیثیت سے سختیاں برداشت کرنے والی خواتین افتخار کی بلندی پر فائز ہیں۔
ہمارا سلام ہو اُس ضعیف ماں پر
جس کے حوصلے پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے
ہمارا سلام ہو زینبی کردار ادا کرنے والی بوڑھی ماں پر
ہمارا سلام ہو شہیدہ پروین بتول پر
راہ امام (عج) میں قربانی قبول ہو
اے کنیز زہراء
خبر کا کوڈ : 965553
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش