0
Saturday 8 Jan 2022 13:41

شہداء بغداد اور بدلتی دنیا

شہداء بغداد اور بدلتی دنیا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

3 جنوری کو ٹیوٹر کا اکاونٹ کھولا تو اس پر ٹاپ ٹرینڈ شہید قاسم سلیمانی کا چل رہا تھا۔ ٹرینڈ میں پاکستان بھر سے لوگ حصہ لے رہے تھے اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے کہ سب اس کے ممدوح ہوں، مگر یہ بڑی بات ہے۔ ایک شخص جس کے کردار کو ختم کرنے کے لیے ایک فاشسٹ مزاج امریکی صدر نے 3 جنوری 2020ء کو بغداد کے ائیرپورٹ پر شہید کر دیا تھا، اس کا نام آج بھی ہر سو گونج رہا ہے۔ بین الاقوامی نیوز ادارے ان پر رپورٹس جاری کر رہے ہیں اور بلاگرز دھڑا دھڑ بلاگ لکھ رہے ہیں۔ اس کا روز شہادت آتے ہی دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر ہل چل مچ جاتی ہے۔ جو خدا کے لیے کام کرتے ہیں، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا، یہ اس کا عملی اظہار ہے۔ ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا، ایک نیوز اینکر کہہ رہی ہیں کہ امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرکے بڑی غلطی کی ہے، کیونکہ زندگی میں ان کی مثال ایک اس عطر کی تھی، جو ایک شیشی میں بند ہوتا ہے اور شہادت کے بعد ایسے ہے، جیسے اس  خوشبو کو آزاد کر دیا گیا ہو اور اب وہ دنیا بھر میں پھیل گئی ہے۔

مغرب میں کسی دور میں کچھ سوچنے سمجھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے۔ لیبیا کے مشہور آزادی کے مجاہد عمر مختار کو اٹلی کے جنرل کے سامنے پیش کیا گیا، عمر مختار نے کہا تم مجھے سزائے موت دو گے اور ہم موت سے نہیں ڈرتے، اس پر اس نے کہا تھا کہ تمہیں موت دینا تو تمہاری قبر کو کھلا چھوڑ کر اپنے خلاف محاذ مزید گرم کرنے جیسا ہے۔ ٹرمپ ایک کاروباری آدمی تھا، اسے نہ تہذیبوں کی اقدار معلوم تھیں اور نہ مذاہب کی حساسیت سے آگاہ تھا۔ بس طاقت کے نشے میں چور اس سانڈ کی طرح تھا، جو مضبوط درخت کو ٹکریں مار مار کر اپنا سر ہی زخمی کر لیتا ہے اور گرتے پتوں کو دیکھ کر اپنی کامیابی کے ڈنکے بجا دیتا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے زیادہ پتے تو معمولی چلنے والی ہوا گرا دیتی ہے اور اس کا ٹکرانا خود اسے نقصان پہنچا رہا ہے۔

ٹرمپ اب ماضی کا قصہ بن گیا، اب بھی میڈیا پر صرف اپنی چند حماقتوں کی وجہ سے سامنے آتا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، خود امریکہ میں زیادہ لوگ ایسے ہیں، جو اس سے نفرت کرتے ہیں۔ بڑی مدت بعد ایسا ہوا کہ ایک امریکی صدر دوسری مدت کے لیے منتخب نہ ہوسکا اور بڑا بے آبرو ہو کر وائٹ ہاوس سے نکل گیا۔ اب  مشرق وسطیٰ اور خطے کے معاملات میں اس کی حیثیت چلے کارتوس جتنی بھی نہیں ہے، کیونکہ چلا ہوا کارتوس پھر بھی کباڑ میں فروخت ہو جاتا ہے۔ بغداد اور عراق کی سڑکیں آج بھی شہدائے بغداد کی خوبصورت تصاویر سے مزین ہیں۔ ان کے اربوں ڈالر کے پروپیگنڈے کے باوجود عراقی عوام شہدائے بغداد کو اپنا محسن مانتی ہے اور  ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی تصاویر اٹھائے مظاہرے کرتی ہے۔

میں اکثر اس پر لکھتا رہتا ہوں کہ بین الاقوامی قانون وہ چھڑی ہے، جسے طاقتور ہمیشہ اپنے مفاد میں حسب ضرورت موڑ لیتے ہیں۔ بغداد ائرپورٹ پر حملہ امریکی افواج کی بین الااقوامی قانون کے خلاف کارروائی تھی، جب عراقی وزیراعظم نے کہہ دیا کہ  وہ میری دعوت پر صلح اور امن کے مذاکرات کرانے کے لیے آئے تھے اور اس کی تصدیق ایران سعودیہ مذاکرات کے بغداد میں ہونے والے کئی ادوار سے بھی ہوگئی تو ایسی صورت میں یہ امریکی حملہ عراق کی منتخب قانونی حکومت کے سفارتی مہمان کے خلاف تھا، جسے دوران جنگ بھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔

خطے میں امریکی خارجہ پالیسی بڑی نقصان دہ رہی ہے، اس نے عراق، شام اور افغانستان کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ان ممالک کو اس بات کی سزا دی گئی کہ انہوں  نے نام نہاد امریکی ورلڈ آڈر کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ ویسے امریکہ کو جو ذلت آمیز شکست افغانستان میں ہوئی ہے، یہ عبرت ناک ہے۔ شہدائے بغداد نے دنیا کو مزاحمت کرنا سکھایا، اس کا نتیجہ ہے کہ آج افغانستان آزاد ہوچکا ہے۔ اسی طرح  عراق پر امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور سب سے بڑی مزاحمت تو عراقی پارلیمنٹ کی طرف سے امریکی انخلا کا مطالبہ تھا۔ یہ ایک طرح کا طمانچہ بھی تھا، امریکہ جمہوریت کا چورن بہت بیچتا ہے اور خطے کے ممالک کو جمہوریت کے نام پر بلیک میل کرتا ہے، مگر آج تک عراقی پارلیمنٹ کی آواز کو سننے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔

عراق میں آنے والا امن اور شام میں پایا جانے والا سکون ان شہداء کے خون کی برکت سے ہے، ورنہ داعش کو  عراق، شام اور خطے کے ایک بڑے حصے کا حکمران بنانے کا پلان تھا۔ اس سے یہ امریکہ مخالف مزاحمت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ دوسرا ان کے ذریعے دمشق، کربلا، نجف اور بغداد میں موجود اسلامی آثار کو ختم کرنا چاہتے تھے۔آج بھی دمشق میں روضہ حضرت زینب (س) کی رونقیں جاری ہیں، کربلا، نجف اور بغداد کے مزارات مرکز عشاق بنے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر سے عقیدت مندوں کے قافلے پہنچ رہے ہیں اور خاندان پیغمبرﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ سب عمل یہ بتا رہا ہے کہ جنہیں تین جنوری کو بغداد ائرپورٹ پر شہید کیا  گیا تھا، وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے اور اپنے مراکز عشق کی حفاظت میں جان قربان کر گئے۔
خبر کا کوڈ : 972480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش