0
Saturday 15 Oct 2011 15:26

پاک بھارت تجارتی روابط کا احیا

پاک بھارت تجارتی روابط کا احیا
تحریر:ثاقب اکبر
پاکستان کے وزیر تجارت کے ستمبر کے آخری ہفتے میں دورہ بھارت سے پاک بھارت تجارتی روابط کے ایک نئے اور بھرپور دور کا آغاز ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی وزیر تجارت 26 ستمبر 2011ء کو اسی  (80) رکنی وفد کے ہمراہ ممبئی پہنچے، جہاں انھوں نے عالمی شہرت یافتہ تاج محل ہوٹل میں قیام کیا۔ یاد رہے کہ ٹھیک تین برس پہلے اسی ہوٹل پر دہشتگرد حملے ہوئے تھے، جن کے بارے میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پاکستان سے آنے والے دہشتگردوں نے کیے ہیں۔ تین برس بعد اُسی ہوٹل سے پاکستان کے وزیر تجارت نے اپنے دورے کا آغاز کر کے گویا اس بات کا پیغام دیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات جس تلخ مقام پر ٹھہر گئے تھے، اب وہیں سے آگے بڑھنے والے ہیں۔
ممبئی سے پاکستان کے وزیر تجارت دلی پہنچے، جہاں انھوں نے اپنے بھارتی ہم منصب آنند شرما سے ملاقات کی۔ یاد رہے کہ یہ دورہ بھارتی وزیر تجارت ہی کی دعوت پر عمل میں آیا۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کے فروغ کے لیے بعض بنیادی فیصلے کیے ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم دو ارب ڈالر ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق یہ تجارت پندرہ ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ غیر سرکاری سطح پر ہونے والی تجارت اب بھی دو ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ اس تجارت کے لیے عام طور پر دوبئی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس راستے ہونے والی تجارت سرکاری نظر سے ہی نہیں، عام صارفین کے نقطہ نظر سے بھی تکلیف دہ ہے۔ یہی تجارت دونوں ملکوں کے بارڈر سے اور زمینی راستے سے ہو تو صارفین تک پہنچنے والی اشیاء کہیں سستی ہوں گی۔ دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ تین برس میں تجارتی حجم 6 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ فضا پیدا کرنے کے لیے دونوں ملکوں نے بعض بنیادی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دوسرے کو سہولیات فراہم کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت کے حصول کے لیے پاکستان کو مدد فراہم کی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی تجارتی رعایت کی آئندہ مخالفت نہیں کرے گا۔ یورپی یونین نے گذشتہ برس آنے والے بدترین سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً پچھتر مصنوعات میں چھوٹ دی تھی، لیکن بھارت نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس کی وجہ سے یورپی یونین نے وہ تجارتی رعایت روک لی تھی۔ بھارت کے نئے موقف سے یورپی یونین سے پاکستان کی تجارت کا حجم جو تقریباً سات ارب ساٹھ کروڑ یورو سالانہ ہے، میں معتدبہ اضافہ متوقع ہے۔ اس اعلان کے بعد یورپی یونین کی طرف سے نومبر کے پہلے ہفتے کے آخر میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اجلاس میں اس رعایت کے بارے میں بحث کی جائے گی اور سال رواں کے آخر میں اس ضمن میں حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین تجارت کے فروغ کے لیے ویزا نظام میں نرمی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ مخدوم امین فہیم نے حال ہی میں ایک اجلاس کے موقع پر بتایا کہ بھارت کی طرف سے اس فیصلے پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں پاکستانی تاجروں کو ایک سال کے لیے ویزا جاری کیا جاتا تھا لیکن اب ملٹی پل ویزا کا اجرا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بھی جواب میں بھارتی تاجروں کو کچھ سہولیات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارت کے نقطہ نظر سے پاکستان کا سب سے بڑا اقدام اسے تجارت کے لیے ”پسندیدہ ترین ملک“    (Most Favoured Nation) قرار دینے کا فیصلہ ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے 12 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تجارتی تعلقات کے حوالے سے بھارت کو پسندیدہ ترین (MFN) ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے دورہ پاکستان پر رضا مندی ظاہر کی ہے، تاہم ابھی تاریخ کا فیصلہ نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ہم بھارت سے کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر تجارت کے جلد دورہ پاکستان کا شیڈول طے پا چکا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے پہلے ہی پاکستان کو MFN کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ پاکستان سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ بھی بھارت کو تجارتی حوالے سے یہی درجہ دے۔ بھارت کو MFN کا درجہ ملنے کے بعد اس کے لیے پاکستان کے راستے ایران، افغانستان، مرکزی ایشیا اور دیگر ممالک سے تجارت بہت آسان ہو جائے گی۔ تاہم پاکستان کو بھی راہداری کی سہولیات دینے سے قابل ذکر آمدنی ہو گی۔ پاکستان سے راہداری کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کو مذکورہ ممالک سے تجارت کے لیے طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے، جو یقینی طور پر مہنگا ہے۔ تجارتی تعلقات کے بہتر ہونے سے دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میں بھی شریک ہو جائے۔
 یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ منصوبہ ابتدائی طور پر ایران اور بھارت کے مابین ہی زیر غور تھا، لیکن اول امریکی مخالفت اور ثانیاً پاک بھارت تعلقات میں تلخی کے عذر سے بھارت اس منصوبے سے جدا ہو گیا اور بعدازاں پاکستان اور ایران نے باہمی طور پر اس منصوبے پر دستخط کر دیئے جس پر پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان کے حصے میں ابھی تک اس پائپ لائن کے بچھانے کا آغاز نہیں ہوا، اگر بھارت بھی اس منصوبے میں شریک ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر گیس پائپ لائن کے ڈیزائن اور استعداد میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔
یہ امر باعث حیرت ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات میں اس اہم پیش رفت پر کوئی قابل ذکر مخالفت نہیں ہوئی۔ قبل ازیں پاکستان میں وہ حلقہ خاصا موثر رہا ہے جس کے نزدیک تجارتی تعلقات سے پہلے مسئلہ کشمیر اور دیگر مسائل کو بھارت کے ساتھ حل کیا جانا ضروری ہے۔ بھارت میں بھی ایک ایسا حلقہ موثر رہا ہے، جو پاکستان سے تجارت تو درکنار کھیلوں میں شرکت کا بھی مخالف ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں اس رائے نے تقویت پکڑی ہے کہ دیگر مسائل کو تجارتی تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر انہی روابط میں مثبت پیش رفت جاری رہی اور دونوں ممالک رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے تو اس کا مثبت اثر دیگر مسائل پر بھی پڑے گا اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ اعتماد کی فضا جس قدر قوی ہو گی سیاسی قائدین کو سیاسی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور شدت پسندوں نے جس طرح سے تعلقات کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس کیفیت سے باہر آ کر حکومتیں کسی حد تک جرات مندی سے فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بعید نہیں کہ پاکستان کے اہل حل و عقد کو موجودہ حالات میں یہ احساس پیدا ہوا ہو کہ وہ امریکہ کے نزدیک تو اس لیے گئے تھے کہ انھیں بھارت سے خطرہ تھا لیکن ہوا یہ کہ آج پاکستان کی آزادی اور حاکمیت اعلٰی کو بھارت سے زیادہ امریکہ سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ امریکہ بری طرح پاکستان کے معاملات میں دخیل ہو چکا ہے۔ پاکستان پر آئے دن سنگین الزامات اور پابندیاں لگاتا رہتا ہے۔ ایسے میں یہ خیال پیدا ہونا قرین قیاس ہے کہ بھارت کے ساتھ اپنے روابط کو نرم کر کے امریکی خطرات سے نجات حاصل کی جائے۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کو بالآخر رہنا ہے۔ پاکستان کی بھارت سے بہت سی شکایات ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تشکیل پاکستان کے زمانے ہی سے لاینحل چلا آ رہا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ میں رائے پائی جاتی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ویسے بھی اقتصادی اور سماجی لحاظ سے کمزور ہوتی ہوئی ریاستی طاقت کو عارضی طور پر سہمی اپنی ترجیحات کا از سرِ نو تعین کرنا ہو گا۔ افغانستان کو تزویراتی توسیع سمجھنے کا نظریہ ناکام ہو چکا ہے۔ سوویت یونین کی مثال ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ امریکہ کے مقابلے کی عظیم جوہری طاقت بالآخر اپنی فوجی مشینری کا بوجھ نہ سنبھال سکی اور اقتصادی مسائل کے گرداب میں پھنس کر بکھر گئی۔
 چین اور بھارت کے مابین ہما چل پردیش کے مسئلے پر جو تنازعہ چلا آ رہا ہے وہ آج بھی شدت سے باقی ہے، لیکن دونوں کے درمیان تجارتی روابط کی سطح حیران کن حد تک بلندی پر جا پہنچی ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین اب بھی کئی ایک اختلافات موجود ہیں لیکن دونوں اقتصادی لحاظ سے ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں، اس لیے اختلافات بہت حد تک زبانی رہ گئے ہیں۔ خود چین نے اپنے کئی ایک اسٹرٹیجک ایشوز پر اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے اقتصادی ترقی کو بطور ترجیح اختیار کر رکھا ہے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے آج اس کی معیشت دنیا کی تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان ان مثالوں سے سبق سیکھ سکتا ہے۔
1947ء سے کشمیر کا مسئلہ اگر حل نہیں ہوا تو اس پر اپنے موقف کو برقرار رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کا بھی اعتماد حاصل کیا جائے۔ دونوں طرف کی کشمیری قیادت کو پوری طرح اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے دونوں طرف تجارتی روابط سے بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں، انھیں بھی مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت سے ماضی کی تاریخ کے آئینے میں تمام پہلوﺅں پر مسلسل گہری نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
ہمیں پسند ہو یا نہ ہو، ہمارے تمام ہمسایوں سے بھارت بہت اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ چین، ایران اور سعودی عرب جنھیں پاکستانی اپنا دوست سمجھتے ہیں سب کے بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی روابط ہیں۔ افغانستان جس کے لیے ہم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں وہ بھی پاکستان کی نسبت بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ امریکہ جس کی دوستی نے پاکستان کو تباہیوں اور رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وہ بھی بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان تھا، اس کے بھی بھارت سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ ایسے میں شاید سیاسی اور عسکری قیادت میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی روابط کے پس منظر میں یہی احساس جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہماری رائے میں حکومت کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت کے میدان میں یہ پیش رفت فوجی قیادت سے ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک یہاں کے نہتے عوام کی شدید آرزو کی وجہ سے معرض وجود میں آیا تھا اور عوام کی اس ریاست سے مضبوط کمٹمنٹ سے ہی باقی رہ سکتا ہے۔ اس کمٹمنٹ کے ہوتے ہوئے کوئی بیرونی جارحیت اس کے وجود کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ان شاءاللہ
خبر کا کوڈ : 106446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش