0
Monday 31 Aug 2009 11:11

شمالی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کی جانب اہم قدم

شمالی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کی جانب اہم قدم
وفاقی کابینہ نے شمالی علاقہ جات کو داخلی سیاسی خود مختاری دینے اور ان کا نیا نام”گلگت بلتستان “ رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔اس کی 33رکنی اسمبلی کے انتخابات اس سال نومبر میں ہوں گے۔کابینہ 6 وزراء اور دو مشیروں پر مشتمل ہو گی۔ حدود کے تعین کے لئے باؤنڈری کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ علاقے کا ایک گورنر بھی ہو گا جس کا تقرر صدر مملکت کریں گے۔ قانون ساز اسمبلی کے انتخاب تک وزیر امور کشمیر قائمقام گورنر کے فرائض انجام دیں گے۔ وزیر اعلیٰ کا انتخاب قانون ساز اسمبلی کرے گی۔ قانون ساز اسمبلی کے 24ارکان کا انتخاب براہ راست ہو گا۔ خواتین کے لئے 6نشتیں اور ٹیکنو کریٹس کے لئے تین نشتیں مختص ہوں گی۔ اسمبلی کو باقاعدہ قانون سازی کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ گلگت بلتستان کونسل اور قانون ساز اسمبلی کو مالی طور پر خود مختار بنایا جائے گا۔ اس کے لئے ایک فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کابینہ کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس علاقے کے لئے ایک الگ چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل مقرر کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی بھرتی کے لئے ایک علیحدہ پبلک سروس کمیشن قائم کیا جائے گا۔چیف کورٹ میں تین سے پانچ تک جج ہوں،چیف جج کی تقرری چیئرمین کونسل وزیر اعظم، گورنر سے مشاورت کے بعد کریں گے اور گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا،البتہ اس فیصلے سے علاقے کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیا ہے اور آئین کے اندر رہتے ہوئے ہم نے انہیں مکمل بااختیار بنا دیا ہے۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ کابینہ کے بعض فیصلوں پر فوری عمل درآمد ہوگا ۔ تمام فیصلے صدر کی منظوری سے نافذ العمل ہوں گے۔صدر آر ڈی ننس کی منظوری دیں گے جو 1994ء کے ایل ایف او کی جگہ لے گا۔قانون ساز اسمبلی کے بیشتر ارکان اور علاقے کے سیاسی و سماجی رہنماؤں نے اس اصلاحاتی پیکیج کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 62 سال سے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے محروم علاقے کے عوام کے نزدیک یہ نہایت اہم فیصلہ ہے اور انہیں امید ہے کہ وزیر اعلیٰ بااختیار ہو گا اور عوام کی محرومیوں کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔ علاقے کی خواتین کے حقوق کا بھی تحفظ ممکن بنایا جائے گا۔ اس فیصلے نے عوام کے دل جیت لئے ہیں اور صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے علاقے کے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اسمبلی کو مالی اختیارات دینے اور آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کے فیصلے سمیت پورا پیکیج ماضی سے بہت بہتر ہے۔ اس سے مقامی انتظامی مسائل از خود ختم ہو جائیں گے۔پاکستان کے متعدد آئینی و قانونی ماہرین نے وفاقی کابینہ کی جانب سے شمالی علاقہ جات میں صوبے کی طرز پر انتظامی ڈھانچہ کی منظوری کو ایک مناسب فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے نئے انتظامی ڈھانچے سے کشمیر کاز اور پاکستان کا موٴقف متاثر نہیں ہو گا۔ سابق چیف جسٹس اور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اگر آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے عوام کا یہ مطالبہ اور خواہش ہے کہ ان علاقہ جات میں صوبہ کی طرز پر انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ اس کے لئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی، اس سے کشمیر کاز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبہ کی طرز پر انتظامی ڈھانچہ قائم کرنے سے نہ تو آزاد کشمیر کی حیثیت متاثر ہوگی نہ ہی اس کے لئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ صرف انتظامی حکم ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے اپنے بیان میں حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان کو خود مختاری دے کر اچھا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا ۔ علاقے کے عوام اور منتخب ممبران کا بھی یہی مطالبہ تھا اس اقدام سے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موٴقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،کیونکہ یہ متنازعہ علاقہ نہیں، کوئی نیا صوبہ بنانے کے لئے بھی آئین میں کوئی ترمیم نہیں کرنا پڑے گی، تاہم پاکستان کے بعض سیاسی حلقوں اور علاقے کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا گیا۔امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے مطابق علاقے کو خود مختاری دینے سے کشمیر پر پاکستان کے باسٹھ سالہ موٴقف کو شدید نقصان پہنچے گا ۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق جب تک اہل کشمیر خود پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ نہیں کرتے تب تک یہاں کی جغرافیائی پوزیشن کو تبدیل کرنے سے کشمیر کاز بری طرح متاثر ہوگا۔ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ جہاں ایک طرف آئینی مسائل پیدا کرے گا وہاں کشمیر ی عوام کو پاکستان کے موٴقف کے برعکس بین الاقوامی سطح پر بھارت کے سامنے سرنگوں کرے گا، البتہ گلگت بلتستان مسلم لیگ (ن) ،مسلم لیگ(ق) اور نیشنل فرنٹ کے بعض رہنماؤں نے ایک سیاسی شخصیت اور وہ بھی ایک وزیر کو علاقے کا گورنر بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی اچھا آئینی پیکیج نہیں بلکہ یہ ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے۔ ہیومن رائٹس ایڈوکیسی نیٹ ورک کے کوارڈی نیٹر نے اسے صرف نام کی تبدیلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیکیج کو آئینی تحفظ نہیں دیا گیا گورنر کا فیصلہ بھی گلگت بلتستان کا حق ہے۔
علاقے کے عوام سیاسی رہنماؤں اور پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں آئینی و قانونی ماہرین کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں ان میں حکومت کے اس فیصلے کی افادیت اور اہمیت کا واضح اعتراف ایک حوصلہ افزا ء اور امید پرور صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے اور اکثریت کی طرف سے اس حکومتی فیصلے کی تائید و حمایت سے بھی یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ فیصلہ وسیع تر قومی اور ملکی مفادات سے نہ صرف مطابقت رکھتا ہے بلکہ علاقے کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔اس سے صوبوں پر محیط ان کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ اپنے بانی چیئرمین اور ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کو آگے بڑھانے کا اعزاز بھی حاصل کر پائے گی، کیونکہ انہوں نے بھی پہلی مرتبہ اپنے دور اقتدار میں اس علاقے سے ایف سی آر اور صوبوں سے مروج حکمرانی نظام کا خاتمہ کیا تھا اور علاقے کو جمہوری راہ پر گامزن کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔اب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس مشن کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اور تنازع کشمیر کے متعلق پاکستان کے روایتی موٴقف پر قائم رہتے ہوئے عوام سے کئے گئے وعدے کو پورا کر دکھایا ہے جس سے ان پر علاقے کے عوام کے اعتماد میں بلاشبہ اضافہ ہوگا ،بالخصوص اسمبلی کو مالی اختیارات دینا، ایک آزاد ا لیکشن کمیشن کا قیام، خواتین کی نمائندگی میں اضافہ اور سرکاری ملازمتوں کے لئے پبلک سروس کمیشن کی تشکیل سمیت پورا پیکیج
ماضی کی نسبت کہیں بہتر اور عوامی مفادات کے مطابق ہے،اگر چہ یہ فیصلہ بہت دیر بعد کیا گا، تاہم ”دیر آید درست آید“ کے حوالے سے اس کی افادیت ایک مسلمہ امر ہے۔ اس علاقے میں خود مختاری کے تاثر کو عملی شکل دینے اور خود مختار اداروں کے قیام سے علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے خوشگوار اثرات نہ صرف اس علاقے بلکہ پورے ملک اور معاشرے پر مرتب ہوں گے اور بالخصوص پڑوسی ملک عوامی جمہوریہ چین اور افغانستان کو اس سے بڑا فائدہ پہنچے گا۔ شاہراہ ریشم کے علاوہ افغانستان کے ساتھ زمینی راستوں سے تجارتی تعلقات کو فروغ حاصل ہو گا اور یہ علاقے اس پورے خطے کے لئے ایک شاندار تجارتی گزرگاہ کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ علاقے کے عوام کو پہلی مرتبہ آئینی اور انسانی حقوق حاصل ہوں گے اور تنازعہ کشمیر، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے پا جانے کی صورت میں علاقے کے عوام کے لئے باقی آئینی حقوق کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا ۔جہاں تک بعض سیاسی جماعتوں اور علاقے کے بعض سیاسی رہنماؤں کی طرف سے حکومتی فیصلے پر تنقید کا تعلق ہے تو یہ ان کا جمہوری حق ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر تیزی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ اس کے مثبت اور تعمیری نتائج سامنے آنے پر اس نکتہ چینی کا جواز از خود ختم ہو سکے۔

گلگت بلتستان۔ نیا صوبہ یا محض داخلی خودمختاری؟ 
وفاقی کابینہ نے شمالی علاقہ جات کو مکمل اندرونی خود مختاری دینے کی متفقہ منظوری دیدی ہے شمالی علاقہ جات کا نیا نام گلگت بلتستان ہوگا اور گلگت بلتستان کا اپنا گورنر، وزیراعلیٰ، اسمبلی، چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل ہوگا جبکہ گورنر کا تقرر صدر پاکستان کریں گے، گلگت بلتستان کے پہلے قائمقام گورنر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمرالزمان کائرہ ہوں گے۔
گلگت بلتستان سمیت شمالی علاقہ جات نے ڈوگرہ راج سے آزادی اپنے بل بوتے پر حاصل کی اور الحاق پاکستان کا اعلان کیا کیونکہ اس علاقے کے عوام ڈوگرہ راج کو غیر قانونی قبضے سے تعبیر کرتے تھے اور ان کا قیامِ پاکستان کے وقت سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں پاکستان کے دائرہ کار میں حقوق دیئے جائیں اور انہیں آزاد کشمیر کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر میں رائے شماری کے امکان کے پیش نظر ہر پاکستانی حکومت نے شمالی علاقہ جات کا الگ تشخص برقرار رکھتے ہوئے انہیں پاکستان کا حصہ بنانے یا صوبہ کا درجہ دینے سے گریز کیا، آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں شمالی علاقہ جات کو ریاست کا حصہ ڈیکلیر کیا اور وفاقی حکومت سے کہا کہ شمالی علاقہ جات کو کشمیر اسمبلی میں نمائندگی دی جائے مگر گلگت و بلتستان کے عوام کی مخالفت کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ تاہم شمالی علاقہ جات کے عوام کی طرف سے اس جائز مطالبہ کی ہمیشہ حمایت کی گئی کہ انہیں وہ تمام حقوق دیئے جائیں جو آزاد کشمیر اور پاکستان کی مختلف اکائیوں کو حاصل ہیں۔ سابقہ حکومت نے شمالی علاقہ جات کی کونسل کو بعض اختیارات دیئے اور عوام کو ووٹ کا حق دیا مگر یہ اقدامات نمائشی تھے عملاً شمالی علاقہ جات کا کنٹرول قبائلی علاقوں کی وزارت کے پاس تھا۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے شمالی علاقہ جات کو ایک نئے نام گلگت بلتستان سے داخلی خود مختاری دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ دور رس نتائج کا حامل ہے چونکہ گلگت بلتستان میں گورنر کا تقرر ہوگا اور وزیراعلیٰ بھی منتخب کیا جائیگا۔ اس لئے یہ تاثر ابھرنا فطری ہے کہ گلگت بلتستان کی حیثیت پاکستان کے صوبے کی ہے۔ آزاد کشمیر کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اسی خدشے کے پیش نظر حکومتی فیصلے پر تنقید کی ہے تاہم وزیراعظم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے آئین میں وضع کردہ انتظامی سکیم کو مدنظر رکھ کر گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا اور خود مختاری کا اہتمام 1973ء کے آئین کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ بھارت چونکہ پارلیمنٹ کی ایک قرارداد کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کو انڈین یونین کا حصہ ڈیکلیر کر چکا ہے اور وہاں مرکزی حکومت کا نامزد کردہ گورنر کام کرتا ہے اس لئے گلگت بلتستان میں گورنر کے تقرر سے بھارت کو یہ پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے کہ پاکستان نے متنازعہ علاقے کو اپنا حصہ بنا کر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اس بارے میں اپنے مئوقف کی نفی کر دی ہے اس لئے حکومت اگر یہ کام پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث اور آئینی و قانونی ماہرین سے بامقصد مشاورت کے بعد کرتی تو یہ خدشہ باقی نہ رہتا اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کو بھی تنقید کا موقع نہ ملتا جو بڑی حد تک جائز ہے۔
جہاں تک گلگت بلتستان (شمالی علاہ جات) کے عوام کو داخلی خودمختاری دینے کا تعلق ہے تو اس سے کسی پاکستانی اور کشمیری شہری کو انکار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان سے الحاق کے خواہشمند ان شہریوں کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو پاکستان یا کشمیری عوام کو حاصل ہیں، تاکہ وہ ترقی و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو سکیں۔اب تک شمالی علاقہ جات کے عوام بیور و کریسی کے رحم و کرم پر رہے ہیں قدرت نے شمالی علاقہ جات کو جن قدرتی وسائل کی وافر دولت سے نوازا ہے ان سے نہ تو مقامی عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے اور نہ پاکستان نے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے قیمتی پھل عموماً ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ قیمتی پتھر بھی سمگل ہو کر سونے کے بھائو بکتے ہیں۔ داخلی خود مختاری ملنے کے بعد یقینا عوام کے منتخب نمائندے نہ صرف علاقے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے مستعدی سے کام کریں گے بلکہ وفاقی حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں زیادہ بہتر انداز میں نبھانے کی کوشش کریگی تاہم حکومت پاکستان کو مزید غور و خوص کے بعد گورنر کے تقرر کے سلسلے میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ کہیں اس طرح ہم مسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کے مرتکب تو نہیں ہو رہے اور امریکہ نے گذشتہ چند سال کے دوران تقسیم کشمیر کے مختلف فارمولے دیئے ہیں یہ فیصلہ ان پر عملدرآمد کا نقطہ آغاز تو نہیں؟۔ بہتر یہ ہوگا کہ صدر یا وزیر اعظم پاکستان اور کشمیری قیادت کی ایک گول میز کانفرنس بلا کر اس معاملے پر سیر حاصل بحث کریں اور کشمیری قیادت کی طرف سے جو نکات اٹھائے گئے ہیں ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ایک ایسا بل پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کے بعد پاس کیا جائے جس سے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہو، انہیں اختیارات بھی حاصل ہوں، تقسیم کشمیر کے کسی فارمولے کو تقویت ملنے کا کوئی امکان بھی باقی نہ رہے، مسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اس بارے میں پاکستان کے منصفانہ مئوقف کو بھی نقصان نہ پہنچے اور کشمیری عوام کو بھی یہ احساس نہ ہو کہ ریاست کا ایک اہم حصہ الگ کرکے انہیں کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خودمختار کشمیر کے حامی اس موقع پر یقینا پروپیگنڈا مہم کے ذریعے الحاق پاکستان کی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس کا توڑ کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے جس نے یہ فیصلہ کرکے انہیں میدان میں اترنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 10827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش