0
Wednesday 23 Nov 2011 20:41

میمو کا معاملہ

میمو کا معاملہ
 تحریر:طاہر یاسین طاہر 

وقت کی رفتار سے بھی تیز رفتاری کے ساتھ رونما ہونے والے حادثات تجزیہ نگار کی پوری فکری توانائی مانگتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی و معاشی تبدیلیاں انسانی حافظے کا پورا امتحان لیتی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ۔ ترقی پذیر ممالک میں ایسا کون ہے جو امریکہ کی طاقت کو چیلنج کرتے ہوئے آزادانہ خارجہ و داخلہ پالیسی ترتیب دے، سوائے ایران کے؟ ایسے میں اگر کوئی ایسا خفیہ خط طشت ازبام ہو جاتا ہے کہ جس میں کوئی ”جمہوری حکومت“ اپنی بقا کیلئے امریکہ کی منت کرتی نظر آتی ہے تو اسے کلی طور پر دشمنوں کی سازش بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بالخصوص یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تشکیل و تبدیلی میں امریکہ بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔

حسین حقانی جو کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مئی میں ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک خط منصور اعجاز نامی پاکستانی نژاد امریکی کے ذریعے، امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچایا، جس میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ صدر کو خدشہ ہے کہ فوج ان کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی، چنانچہ امریکہ سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ پاکستانی فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکے اور دباﺅ ڈالے، جبکہ اس کے بدلے میں زرداری حکومت فوجی قیادت کو تبدیل کر دے گی اور امریکہ کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کی اجازت دے گی اور ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے کے بارے میں بھی اقدامات اٹھائے گی۔ 

خیال رہے کہ یہ انکشافات منصور اعجاز نامی پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین نے 10 اکتوبر کو فنانشل ٹائم لندن میں لکھے گئے ایک کالم میں کئے، جس پر ایوان صدر کی جانب سے تردید جاری کی گئی، جس پر منصور اعجاز نے اعلٰی حکام کی جانب سے بھجوائے جانے والی ای میل، بلیک بیری پیغامات اور دیگر پیغامات کی تفصیل جاری کر دیں۔ اس کے بعد حساس ادارے کے دو ارکان کو تحقیقات کیلئے امریکہ بھجوایا گیا، جنہوں نے منصور اعجاز سے امریکی حکام کو بھجوائے جانے والے خط اور ای میل کی کاپیاں حاصل کرنے کے بعد ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔ اس ریکارڈ کا فوجی حکام نے باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد اس کی رپورٹ اعلٰی فوجی قیادت کو دی، جنہوں نے احتجاجی طور پر آرمی چیف کو اس معاملے میں فوج کے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیلئے کہا۔
 
واقعات کی جزئیات منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد نے حسین حقانی کو طلب کر لیا، مگر انہوں نے اپنے سفر کا فیصلہ امریکی ڈاکٹروں کی ٹیم پر چھوڑ دیا تھا، لیکن اب اسلام آباد تشریف لا چکے ہیں اور انہوں نے صدر مملکت سے ملاقات کی اور اپنا استعفٰی وزیراعظم کے سپرد کر دیا۔ وہ اپنا موبائل فون اور کمپیوٹر بھی تحقیقات کیلئے دینے کو تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بحران پیدا کرنے کیلئے منصور نے خود خط لکھا۔ 

ضمناً گزار ش کرتا چلوں کہ امریکہ کا اپنے بہی خواہوں کے ساتھ یہ سلوک کچھ نیا نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایڈمرل مولن جو کہ امریکی فوج کے سابق سربراہ تھے، نے ابتدا میں اس خفیہ خط بارے تردید کر دی۔ وزارت خارجہ، صدر ہاﺅس، حسین حقانی اور حکومت نے بھی ایسے کسی خط سے لاتعلقی کا اظہار کر لیا تھا، مگر پھر اچانک مولن کو یاد آیا کہ میمو تو اسے ملا تھا۔ مگر اس نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا۔ سامنے کی بات ہے کہ یا تو مولن اور منصور اعجازجھوٹے ہیں یا پھر فریق ثانی، معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کی تحقیقات از بس ضروری ہیں۔ بلکہ اب تو حسین حقانی اسلام آباد میں ہیں، صدر مملکت سے ملاقات کر چکے ہیں اور آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقات کرنی ہے۔ اور نئے سے نئے سوالات اور انکشافات بھی متوقع ہیں۔ 

ہم کب تک انتہائی اہم قومی معاملات کو سازش قرار دے کر اپنی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے رہیں گے۔؟ اگر منصور اعجاز نے خود خط لکھا تو پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسے ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ حقانی اسلام آباد آنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیتے رہے اور ان کی اہلیہ چپکے سے کیوں چلی گئیں۔؟ حسین حقانی اپنی صفائی میں یہ کہتے ہیں کہ امریکی اسٹبشلمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لہٰذا میں ایسی صورت میں تسلیم کیا جانا چاہیے کہ میمو مائیک مولن تک پہنچانے کیلئے انہیں کسی رابطہ کار کی ضرورت نہیں تھی۔ منطقی طور پر تو ان کی بات درست لگتی ہے، مگر جو مائیک مولن نے کہا کہ میمو انہیں ملا ہے؟ یعنی لکھا گیا تو ملا ہے نا!
 نیز جو پیغامات منصور اعجاز نے طشت ازبام کئے۔؟ ان کی حقانیت سے حقانی کو انکار کیوں ہے۔؟ اگر یہ سب منصور اعجاز کے دماغ کی کہانی ہے تو بھی اس معاملے کی گہری تحقیقات ضروری ہیں۔
 
حالات غیر معمولی کروٹ لے رہے ہیں اور دشمن اپنے سارے داﺅ پیچ کھیل رہا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ مہروں کو درست وقت پر استعمال کر کے چالیں چلی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے فوجیں واپس لے جا رہا ہے، پاک فوج پر الزام تراشی کو آسانی سے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایک طرف مائیک مولن اور اعجاز منصور میمو کی تصدیق کرتے ہیں تو دوسری طرف حسین حقانی تردید معاملہ کیا ہے؟ اپوزیشن اس معاملے کو محض سیاسی داﺅ پیچ کیلئے ہی استعمال نہ کرے، اس پر حقیقی معنوں میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج غصے میں ہے، صدر ہاﺅس اور حسین حقانی پر یشان، جبکہ امریکہ مزے میں ہے۔ تجزیہ کار اس سارے معاملے کو محض بھارتی لابی کی کارستانی یا سازش قرار دے کر امریکی مفادات و مقاصد کو غیر دانستہ تحفظ نہ دیں۔ اگرچہ وزیر دفاع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر حقانی میمو میں ملوث ہوئے تو بات وزیراعظم تک جائے گی۔ ایک پیچیدہ مگر نزاعی صورتحال درپیش ہے۔ تدبر اور درست فیصلہ ہی اس معاملے سے نجات دے سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 116616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش