0
Wednesday 16 Jan 2013 20:40

کشمیر میں سرحدی خلاف ورزیاں

کشمیر میں سرحدی خلاف ورزیاں
 تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
   
چکوال کی ایک دور افتادہ بستی خیرپور میں داخل ہوا تو مغرب کی آذان ہو رہی تھی۔ میرے استقبال کیلئے آئے ہوئے چند اہل دیہات کے ہمراہ ہم سیدھے مسجد چلے گئے جہاں ہم نے نماز ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے حال ہی میں کشمیر کی سرحد پر شہید ہونے والے نائک اسلم کے ماموں نذر حسین اعوان سے کہا کہ مجھے آپ کے جوان سال بھانجے اسلم کی جان کے ضیائع کا افسوس ہے۔ نذر حسین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ سر افسوس کس بات کا۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے پاکستان کی سلامتی کیلئے اپنے خاندان کے ایک نوجوان کا خون پیش کیا ہے۔ چکوال کی دھرتی اور خصوصاً خیرپور کی کھر دیر اعوان برادری سے ہم مزید جانوں کے نذرانے دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ یہ باتیں سن کر میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اور میرا یقین اس بات پر اور کامل ہوگیا کہ اللہ کے کرم اور ہماری افواج اور پوری قوم کے اِن بلند حوصلوں کی وجہ سے پاکستان کی تسخیر کا خواب دیکھنے والے انشاءاللہ منہ کی کھائیں گے۔
 
یہ باتیں کرتے ہوئے ہم مسجد سے نائک اسلم شہید کی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔ میں نے کہا خالہ جان آپ کا بچہ قابلِ فخر افواجِ پاکستان کا بہادر سپاہی تھا۔ اس کی شہادت پر میں آپ کا دکھ تقسیم کرنے اور آپ کو حوصلہ دینے آیا ہوں۔ گاؤ ں کی ہماری اس ناخواندہ ماں نے جواب میں فوراً کہا کہ جنرل صاحب ملکہ ترنم نور جہاں یہ بالکل ٹھیک کہتی تھی کہ ’’اِی پتر ہٹاں تے نہی ویکدے‘‘ آبدیدہ آنکھوں سے مجھے شہید کی والدہ نے ایک فوٹو دکھایا اور کہا کہ یہ اسلم کا فوٹو ہے۔ فوٹو چونکہ مختلف تھا تو میں نے عرض کیا کہ خالہ جان یہ تو نائک اسلم شہید کا وہ فوٹو نہیں جو میں نے اخبار میں دیکھا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، یہ اسلم شہید کے چچا نائک اسلم کا فوٹو ہے جو 1971ء کی جنگ میں شہید ہوئے تھے اور اُن کی شہادت کے بعد ہمارے خاندان میں جو پہلا بچہ پیدا ہوا، اُس کا نام بھی ہم نے شہید کی عقیدت میں ’’اسلم ‘‘رکھا اور آج نائک اسلم دوئم بھی شہید ہوگیا۔ 

قارئین، چکوال پاکستان کا ایک ایسا ضلع ہے جو زیادہ تر دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے۔ بارہ چودہ لاکھ کی آبادی میں سے تین چوتھائی لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں۔ ان بستیوں میں رہنے والے زیادہ تر افواج پاکستان کے مجاہد یا غازی ہیں اور یہ بات قابل فخر ہے کہ ان بستیوں کے قبرستانوں میں بھی بہت بڑی تعداد شہداء کی ہے۔ خیر پور سے جب میں واپس آرہا تھا تو راستے میں پتہ چلا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر شہید ہونے والے ایک اور فوجی نوجوان کا جسد خاکی بھی ہماری چکوال کی تحصیل تلہ کنگ میں پہنچنے والا ہے۔
 
اس اداسی کی فضا میں جب میں اپنے گاؤں کی طرف واپس جاتے ہوئے میرے ذہن میں ذرا برابر بھی شک نہ تھا کہ پاکستان کی سلامتی کا دشمن نمبر1 مشرقی سرحد کے پار ہندوستان ہے، جبکہ مغربی سرحد کے پار افغانستان پر قابض امریکہ بھی پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ہمارے اندرونی خطرات کے پیچھے بھی یہی طاقتیں ہیں۔ اس لئے جب ہماری افواج کی قیادت یا حکومت وقت یہ کہتی ہے کہ اب نمبر1 خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قومی سلامتی کے دشمنوں نے گٹھ جوڑ کرکے اپنی حکمتِ عملی بدل لی ہے اور اب وہ پاکستان کے ساتھ بالواسطہ جنگ کرنے کی بجائے ہمیں آپس میں لڑا کر اندر سے کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں، لڑاکا ہوائی جہازوں، ایٹمی آبدوزوں اور کیمیکل ہتھیاروں سے لیس ہماری سرحدوں کے پاس اپنی توپوں اور ٹینکوں کے نشانے ہمارے اُوپر باندھے دشمنوں کو ہم کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔
 
اب جب امریکہ نے پاکستان کو افغانستان کے معاملے میں اعتماد میں لینے کی بات چیت شروع کی ہے تو ہندوستان کو یہ بات ناگوار گذری ہے، جس کا اظہار ہماری کشمیر کی سرحدوں پر پچھلے دس دنوں میں بارہ خلاف ورزیوں سے کیا گیا۔ صرف امن کی آشا اور ہندوستان کو تجارتی سہولیات دینے سے نہ تو ہندوستان اور پاکستان میں دیرپا مراسم قائم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی جنوب ایشاء میں ایک دائمی امن کی فضاء جنم لے سکتی ہے، جو اس خطے کے غریب عوام کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ نائک اسلم کی شہادت اور اس کے بعد ہندوستانی میڈیا کی بے ہودہ چیخ و پکار اور جھوٹے، بے بنیاد اور لغو الزامات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہندو دماغ کے اندر پاکستان کا عکس بہت ہی دھندلا ہے اور اُن کے دل سے مسلمانوں کے خلاف حقارت میں 65 سال گذر جانے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ 

وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں جب ایک ہندوستانی میجر جنرل نے یہ کہا کہ کشمیر کا مسئلہ پر اب اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں اور یہ کہ اب یہ پاکستان اور ہندوستان کا دو طرفہ معاملہ رہ گیا ہے تو میں نے فوراً اس کی توجہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر122 کی طرف دلوائی اور کہا کہ کیا سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی تنسیخ ہوچکی ہے۔ اگر نہیں تو پھر کشمیر آج بھی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر122 کے مطابق حل طلب ہے۔ یہ قرارداد کہتی ہے کہ:
"The final disposition of the state of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations"
یعنی کشمیر کے مسئلے کا فائنل حال صرف اور صرف اہل کشمیر کی اُس مرضی سے ہوگا جس کا اظہار وہ جمہوری طریقے سے آزاد اور غیر جانبدار مردم شماری کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کریں گے۔ 

ہندوستان اور پاکستان اقوامِ متحدہ جیسے ایک بین الاقوامی ادارے کی اِن قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا مجاز نہیں۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر307 ہے جو یہ کہتی ہے کہ:
’’فوری جنگ بندی ہوگی اور افواج پیچھے ہٹائی جائیں گی، تاکہ جنگ بندی کے احکامات کو یونائٹڈ نیشن ملٹری ابزرورگروپ اِن انڈیا اینڈ پاکستان (UNMOGIP) اپنی نگرانی میں موثر بنا سکے۔‘‘
اِن واضح احکامات کی موجودگی میں ہندوستان نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ماننے کو تیار ہے نہ وہ اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو سرحد تک آنے کی اجازت دیتا ہے۔ حالیہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات بھی ہندوستان اقوامِ متحدہ کے مبصرین سے کروانے پر تیار نہیں۔ ایسی صورت میں ہندوستان پاکستان تعلقات میں بہتری کی توقع ایک خام خیالی سے کم نہیں۔ ایسی صورتِ حال میں امن کی آشا کا پرچار کرنے والے، ہمارے نائک اسلم شہید اور حوالدار غلام محی الدین شہید کے لواحقین کو ان شہداء کے خون کا کیا جواز پیش کریں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 231853
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش