0
Wednesday 13 Mar 2013 23:43

شام اور سلفیت کا منفی کردار

شام اور سلفیت کا منفی کردار
تحریر: محمد علی نقوی
 
شام میں مسلح دہشت گردوں نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفٰی (ص) کے ایک مقدس صحابی حضرت عمار یاسر کے مزار کو بم سے اڑا دیا ہے۔ یہ دھماکہ ان دہشت گرد عناصر نے کیا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اپنی دہشتگردی کو جہاد کا مقدس نام بھی دیتے ہیں۔ البتہ صحابی رسول (ص) کے مزار کی مسماری ان دہشت گردوں کا پہلا گھناونا اقدام نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ان دہشت گردوں نے اسلامی مقدسات اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے آقاؤں نے انہدام جنت البقیع جیسا فعل انجام دیا تھا۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) کی نواسی اور سیدالشہداء امام حسین کی ہمشیرہ گرامی حضرت زينب (س) کے مزار کو مارٹر گولوں سے تباہ کرنے کی بارہا کوشش کی ہے۔ یہ دہشت گرد صرف مزارات کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ شام کے نہتے شہری بھی انکی بربریت سے محفوظ نہیں ہیں۔
 
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق شام کے شہر حلب کے ضلع القصر کی ایک ندی سے درجنوں لاشیں ملی ہیں، جنکے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے اور انکے جسم پر سخت تشدد کے نشانات تھے۔ شام میں سرگرم عمل دہشت گردوں کے ان اقدامات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دہشت گردوں کا دین و مسلک کیا ہے اور وہ کونسی طاقتوں کے کہنے پر شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ کے اصرار کے باوجود یورپی یونین نے شام میں سرگرم دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کرنے پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ فرانس کے وزير خارجہ لوران فابیوس نے یہ موقف اپنایا تھا کہ شام میں طاقت کا توازن برقرار کرنے کے لئے مسلح شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے چاہیں، تاہم اس اجلاس کے اختتامی بیان میں باغیوں کو اسلحہ نہ دینے کے حوالے سے سابقہ پابندیوں کو برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے۔
 
برطانیہ اور فرانس شام کے باغی فوجیوں کو ہتھیار دینے کے سخت حامی ہیں اور ان دونوں نے کئی بار بشار الاسد کی حکومت کو ہر ممکنہ طریقے سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی اخبارات نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ نے خفیہ طور پر شامی دہشت گردوں کے لیے کئی ملین ڈالر کے ہتھیار ارسال کئے ہیں۔ یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں کئے گئے ہیں کہ جب برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی کہا ہے کہ برطانیہ شامی حکومت کے مخالفین کو مزید امدار بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ شامی حکومت نے دشمنوں کے ان اقدامات کے بعد اپنے ملک کے خلاف ایک نئی سازش کی خبر دی ہے۔
شام کے نائب وزیر اطلاعات خلف المفتاح نے اس بارے میں کہا ہے کہ شام کے دشمن اب دوسری سازشوں میں ناکامی کے بعد اس کے خلاف فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ، برطاینہ، قطر، سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے شام میں سرگرم دہشت گردوں کو جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی کے بعد یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر گيا ہے۔
 
امریکہ اور یورپ کی طرف سے بشار الاسد کے مخالف باغیوں کو وسیع انٹیلیجینس معلومات کی فراہمی کے باوجود یورپی ممالک شام میں سرگرم عمل عرب اور یورپ کے سلفیوں کے گٹھ جوڑ سے خوفزدہ ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ان کو مزید امداد دینے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔ افغانستان پر روس کے حملے کے موقع پر امریکہ نے سلفی طاقتوں کو مضبوط کیا، جو بعد میں القاعدہ کی شکل میں سامنے آئے۔ یورپی برادری کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ شام میں سرگرم باغیوں کی حمایت کا نتیجہ بھی طالبان اور القاعدہ کی طرح کسی اور انتہا پسند گروہ کی صورت میں سامنے نہ آجائے، یہی وجہ ہے کہ شام کی جنگ میں شامل یورپی ممالک نے اس جنگ میں یورپی دہشتگردوں کی موجودگی کے نتائج پر تشویش ظاہر کی ہے۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے جن کا ملک شام میں آشوب برپا کرنے میں اہم کردار کا حامل ہے، نام نہاد آزاد فوج کی مدد کے لئے فرانسیسی نوجوانوں کو بھیجنے کو فرانس کے مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ 

بلجئیم کے حکام نے بھی شام کی جنگ سے واپس آنے والے انتہاء پسند نوجوانوں کی جانب سے یورپ میں تشدد پھیلانے کے سلسلے میں انتباہ دیا۔ ادھر شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سربراہ نے شام میں انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد میں روز افزوں اضافے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے مسئلے کا سیاسی و سفارتی حل تلاش کیا جائے۔ پالوپینریو کا کہنا ہے شام میں فرقہ وارانہ جنگ کے خاتمے اور عام شہریوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے ایک عالمی سفارتی اقدام کی فوری ضرورت ہے۔ ان کا مزيد کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے شام کے مسئلے کے حل کے لئے کوششیں شروع نہ کیں تو اس ملک کا سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوجائیگا اور اسکے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی دوسال کی تاخیر کے بعد آخر کار چند دن پہلے شام میں دہشتگردانہ اقدامات کی مذمت کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شام میں مسلح مخالفین کے اقدامات کی مذمت ایسے عالم میں کی جا رہی ہے کہ اس کونسل نے دہشتگردوں کے درمیان مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے نفوذ کے پیش نظر گذشتہ دو برس سے ابھی تک کبھی بھی کھل کر ان کی دہشتگردانہ کارروائیوں کی مذمت نہيں کی تھی، جبکہ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف مغربی ممالک اور ان کے عرب اتحادیوں کی جانب سے کئی قراردادیں پیش کی جاچکی ہيں، جسے چین اور روس نے ویٹو کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے شام کے بارے میں اپنی قراردادوں میں دو رخی پہلو اختیار کیا ہے اور اب تک کبھی بھی شام میں دہشتگردانہ اقدامات کی کھل کر مخالفت نہيں کی تھی۔ 

ایسا نظر آتا ہے کہ اب جب دہشتگردوں نے اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے اور ان کی جان خطرے میں ڈال دی ہے تو سلامتی کونسل اس سلسلے میں واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے، جبکہ دہشتگردوں نے شام میں اب تک ہزاروں بےگناہ شہریوں کو قتل کیا ہے اور مغربی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں سلامتی کونسل اب تک اسے نظرانداز کرتی رہی ہے، یا مسودہ قرارداد میں دہشتگردوں کے ساتھ ہی حکومت شام کی مذمت بھی شامل کی گئی ہے۔ شام کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض عرب حکمران بھی اس کھیل میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر انتہاء پسندی کی بنیاد رکھنے میں سعودی عرب کا بنیادی ہاتھ ہے، البتہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کے پیچھے امریکی اور برطانوی استعمار کا ہاتھ ہوتا ہے، اور اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اور اسکے بعض عرب اتحادی سلفیت اور تکفیری گروہوں کے ذریعے شام سمیت کئی ملکوں میں امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 246489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش