0
Friday 24 May 2013 19:50

پاک چین دوستی!

پاک چین دوستی!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

 چین کے وزیرِاعظم لی کی چیانگ پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں، گذشتہ روز ایوانِ صدر میں منعقدہ پر وقار تقریب میں دونوں ممالک کے درمیان 12 اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں طویل المدتی اقتصادی راہداری، سمندری سائنس، ٹیکنالوجی کے شعبہ جات، سرحدی چوکیوں کی حفاظت، خلائی ٹریفک کا نظام، میری ٹائم ٹریفک میں تعاون، سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم، زلزلے کے مرکز کی اطلاع دینے سمیت تانبے اور دھاگے کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ازاں بعد چینی وزیرِاعظم اور صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لی کی چیانگ کا کہنا تھا کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں پاکستان کے ساتھ تعلقات اور اسٹریٹجک تعاون کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ انھوں نے پاک چین دوستی کو دنیا کے لئے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی دوستی ہمارے لئے آزمودہ اور قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ دوستی نسل در نسل مضبوط ہوئی ہے۔

چینی وزیرِاعظم نے دوٹوک کہا کہ وزیرِاعظم بننے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں بے مثال تعاون موجود ہے اور یہ سلسلہ مزید وسعت اختیار کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی خود مختاری، علاقائی سلامتی اور ترقی و استحکام کے لئے مدد کرتے رہیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان کئی قدریں مشترک ہیں اور اعلٰی سطح پر گہرے روابط دونوں ممالک کے درمیان باہمی مضبوط تعلقات کے عکاس ہیں۔ دریں اثنا صدر آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین کی بے مثال ترقی سے متاثر ہے اور ہم اقتصادی ترقی کے لیے تعاون پر چین کے شکر گزار ہیں۔ صدر نے کہا کہ چیئرمین ماؤ، چو این لائی اور ذوالفقار علی بھٹو نے خطے میں پاک چین دوستی کے لئے بنیادی کردار ادا کیا۔
 
اس امر میں کلام نہیں کہ پاک چین دوستی دنیا بھر کے لیے ایک مثال ہے۔ دو متنوع نظامِ ہائے حیات کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک نے جس طرح بین الاقوامی معاملات پر اور دنیا کو پر امن بنانے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کیا یہ اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے مشہور یہی ہے کہ یہ ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں نے اس جذباتی تجزیہ کاری کا بھرم بھی خوب قائم رکھا ہوا ہے اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ مزید استحکام پکڑے گا۔ بلاشبہ چین کی اقتصادی اور سماجی ترقی قابلِ رشک ہے۔ ہمیں مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ چینی قیادت نے روزِ اول سے ہی اپنے قومی اہداف مقرر کر لئے تھے اور آج چین اپنی مسلسل جدوجہد کے اس قابلِ فخر مقام پر ہے، جہاں وہ نہ صرف خطے میں انتہائی اہم مقام کا حامل ملک ہے بلکہ دنیا چین کو ایک مستحکم معاشی طاقت کے طور پر بھی دیکھ رہی ہے۔ قومیں اپنے اہداف مقرر کئے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی ہیں۔ غلطی اتنی بڑی تباہی نہیں لاتی بلکہ غلطی پر ڈٹ جانے کی روش افراد سے لے کر اقوام تک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کرتی ہے۔ 

بلاشبہ چین ہمارا قابلِ فخر دوست ہے، لیکن تسلیم کر لینے میں حرج ہی کیا ہے کہ ہم چین کی اقتصادی ترقی اور اس کی معاشی پالیسیوں کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر ویسی لگن اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کر پائے جو ترقی کا جزوِ لازم ہوا کرتا ہے۔ چینی وزیرِاعظم نے دو ٹوک انداز اختیار کیا اور کہا کہ عالمی حالات چاہے جیسے بھی ہوں پاک چین دوستی ان سے متاثر نہیں ہوگی لیکن ساتھ ہی بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے پیشِ نظر پاکستان کو ان گھمبیر مسائل سے نکالنے کی پیشکش بھی کی، جن کے ہوتے ہوئے پاکستان ترقی کی ایک سیڑھی بھی نہیں طے کر سکتا۔ لی کی چیانگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر مدد کرنے کو تیار ہے۔ 

یہ پیشکش چینی سفیر بھی کر چکے ہیں جبکہ برادر اسلامی ملک ایران بھی متعدد بار پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے کے لیے اپنی خدمات کی پیشکش کر چکا ہے۔ مگر وہی بات کہ قیادت جب قومی اہداف مقرر نہیں کر پاتی تو مسائل کا ایک خونخوار قافلہ حملہ آور ہوتا ہے جو قوموں کی اجتماعی صلاحیت و استعداد کو کھا جاتا ہے۔ جانے والی حکومت اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں دو اہم کام کرکے گئی، ایک گوادر پورٹ کی چین کو حوالگی اور دوسرا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی قابلِ عمل شکل۔ یہ دونوں کام عالمی سامراج کو نہیں بھائے۔ ان منصوبوں کو نقصان پہنچانے کے لئے سامراج اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ دہشت گردوں کو متحرک کرکے ان منصوبوں کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ بہت کچھ آشکار ہے ضرورت مگر حکمتِ عملی کی ہے۔
 
اب جبکہ پاکستان داخلی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہے اور توانائی بحران نے بھی جینا دوبھر کر رکھا ہے تو ایسے میں آزمودہ دوست کی جانب سے اہم ترین مسائل کے حل کے لئے اپنے تعاون اور مدد کی پیشکش اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے، مگر چائنہ کے وزیراعظم کے اس دورے کو خطے کی تزویراتی تبدیلیوں کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ امریکہ افغانستان سے انخلا چاہتا ہے۔ لی کی چیانگ بھارت سے ہو کر پاکستان تشریف لائے ہیں، اگرچہ بھارت اور چین کے تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہے لیکن چینی وزیرِاعظم کا اپنے دورے کا آغاز بھارت سے کرنا علاقائی تعاون کے سلسلے میں چین کی نئی حکمتِ عملی کا عکاس ہے، مگر اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اپنی تمام تر کوہتاہیوں کے باوجود پی پی پی کی حکومت نے علاقائی تعاون کو خوب اہمیت دی اور پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والی حکومت بھی ہمسایہ ہمدرد ممالک سے دوستانہ تعلقات کو فروغ دے گی۔ خطے میں سامراجی عزائم اور اہداف کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان، چین اور ایران کے ساتھ مل کر اہم کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ چین خطے میں اپنی برتر حیثیت کے لئے کوشاں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے تعاون سے خطے میں امن و ترقی کی نئی راہیں وا کی جائیں۔ پاکستان کو بھی چین کی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی دیرینہ گرمجوشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو پاک چین دوستی کا طرہء امتیاز ہے۔ قومیں امداد کے سہارے ترقی نہیں کرسکتی ہیں بلکہ اس کے لئے خاص حکمتِ عملی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے حوالے سے ہمیں دوست ملک کی’’ہمدردی‘‘ کو قومی حکمتِ عملی سے اپنی ترقی کی اہم شاہراہ بنا لینا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 266798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش