0
Monday 5 Aug 2013 20:04

مصر، فوج، جمہوریت

مصر، فوج، جمہوریت
اسلام ٹائمز- جمہوریت پیچیدہ ترین نظام حکومت ہے۔ انسانی معاشروں نے مختلف قسم کی حکومتوں کے طولانی تجربات کے بعد جمہوریت کو ایک پسندیدہ ترین اور کارآمدترین نظام حکومت کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ آج علم سیاست دراصل علم نظام جمہوریت ہے۔ اس علم میں حکومت داری کے طور طریقے، سیاسی پارٹیوں کی تشکیل، انتخابات، اختیارات کی علیحدگی اور سیاسی استحکام جیسے موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ 

اس مقدمہ چینی کا مقصد مصر میں جاری سیاسی کشمکش اور بدامنی کا جائزہ لینا ہے۔ راقم اس تحلیل میں مصر کے حالات کو جمہوریت کے تناظر میں پرکھنا چاہتا ہوں۔ اس قسم کے جائزے کی اہمیت اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ آج کل تمام سیاسی ماہرین مصر میں رونما ہونے والے واقعے (قانونی صدر کی برکناری اور فوج کے دوبارہ برسراقتدار آنے) کو ایک غیرجمہوری قدم قرار دیتے ہوئے اسے جمہویت کے اعتبار سے پیچھے کی جانب ایک قدم قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ چیز جس نے مصر کے موجودہ سیاسی حالات کے بارے میں علم سیاست کے محققین اور دانشمند افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے یہ ہے کہ آیا مصری معاشرہ دوبارہ جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو سکے گا یا اسی طرح گھوم پھر کر دوبارہ فوجیوں کے قبضے میں باقی رہے گا؟ 

علم سیاست کی بزرگ ھستیوں جیسے ارسطو کی نظر میں کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کی بقا اور ماندگاری کیلئے ضروری ہے کہ اس معاشرے کا درمیانہ طبقہ دوسرے تمام طبقات سے زیادہ طاقتور ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ معاشرہ جمہوریت کا گہوارہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں ایک وسیع درمیانہ طبقہ پایا جائے۔ جبکہ مصر کے بارے میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق مصر کی 8 کروڑ آبادی کا 40 فیصد صرف 2 ڈالر روزانہ کی آمدنی پر گزارا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مصر میں حکومت کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک "کرائے کی دولت" قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی دولت جس کی انکم کا بڑا حصہ لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے بیرونی امداد اور بیرون ملک مقیم شہریوں کی جانب سے بھیجے جانے والے پیسے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ امر حکومت اور معاشرے میں جدائی کا باعث بنا ہے جس کے نتیجے میں مصری حکومت خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ جبکہ ایک معاشرے میں جمہوریت کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ اس کی آبادی کا بڑا حصہ فقیر افراد کی بجائے درمیانے طبقے کے افراد پر مشتمل ہو اور اسی طرح حکومت کی انکم کا بڑا حصہ ملک کے اندر ہی انجام پانے والی پروڈکشن اور صنعتی سرگرمیوں سے حاصل ہوتا ہو۔ صرف ایسی صورت میں ہی حکومت کو ٹیکس دینے والی عوام اس حکومت پر نظارت اور نگرانی کا عمل انجام دیتے ہوئے اسے اپنے مقابلے میں جوابدھی پر مجبور کر سکتی ہے۔ 

مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مصر کی موجودہ صورتحال میں جمہوریت کو مستحکم کرنے والے عناصر انتہائی کمزوری اور ضعف کا شکار ہیں۔ مصری معاشرے میں کئی قسم کے شہری اور سیاسی طبقات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سکولر طبقہ، بائیں بازو کا طبقہ، نیشنلسٹ طبقہ، شدت پسند اسلام پسند طبقہ اور معتدل اسلام پسند طبقہ جن میں سے کوئی بھی طبقہ دوسرے طبقے کے ساتھ مفاہمت کرنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ لہذا ایک ایسے معاشرے میں ایک جمہوری اور عوامی حمایت یافتہ حکومت کی سرنگونی توقع کے خلاف نہیں۔ البتہ صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں مصر کے اندرونی عوامل کے ساتھ ساتھ خطے کے حالات اور بین الاقوامی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ 

ٹھیک ایک سال پہلے مصر کے صدارتی انتخابات میں اسلام پسند گروہوں کے نمائندے کے طور پر جناب محمد مرسی کی کامیابی نے دنیا والوں کو اس ملک میں جمہوریت کے پہلے مرحلے کے آغاز کی نوید دلائی تھی۔ ان انتخابات نے جس میں ووٹوں کے بہت کم اختلاف سے جناب محمد مرسی کامیاب قرار پائے تھے، مصر میں نیا سیاسی ماحول ایجاد کر دیا تھا جو اکثر سیاسی ماہرین اور سیاست دانوں کی جانب سے خوش بینانہ تجزیات اور پیش بینیوں کے باوجود زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور مصر ایک بار پھر ایک ایسی فوجی بغاوت کا شکار ہو گیا جس میں عوامی مطالبات نے مرکزی کردار ادا کیا۔ البتہ صدارتی انتخابات کے اگلے ہی دن سے مصر دو قطبی معاشرے کی طرف گامزن ہو گیا۔ جناب محمد مرسی کے مقابلے میں شکست کھانے والے سیاسی مخالفین جن کی تعداد 49 فیصد تھی اس شکست کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ سکولر قوتوں نے حکومت میں اسلام پسند عناصر کی موجودگی پر تنقید کرنا شروع کر دی۔ دوسری طرف مصری جوانوں نے اخوان المسلمین پر یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ وہ عوامی انقلاب کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ مصر کی سابق رژیم سے وابستہ عناصر نے بھی جناب محمد مرسی کو سابق صدر حسنی مبارک کی طرح اقتدار کو اپنے اور اپنی حامی اخوان المسلمین کے مکمل قبضے میں لینے کی کوششوں میں مشغول پایا۔ 

معتدل اور شدت پسند اسلام پسند عناصر جیسے اخوان المسلمین اور سلفی گروہوں نے اس کامیابی کی مستی میں مصری معاشرے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ اگرچہ سابق صدر حسنی مبارک نے کبھی بھی ملک میں سیاسی آزادی کے حق میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا تھا لیکن کم از کم اجتماعی آزادی کا خیال ضرور رکھا۔ مصر کے انقلابی معاشرے میں اخوانی اور سلفی اسلام پسند عناصر کا پہلا قدم ہی اس قدر ناقابل برداشت تھا کہ ان کی حکومت کے آغاز سے ہی مصر میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا اس انداز کا اسلام مصری عوام کی فردی اور اجتماعی زندگی میں ہونا چاہئے یا نہ؟ اس تناو کے نتیجے میں مذہبی فسادات رونما ہوئے اور کئی قبطی عیسائیوں کی جانیں جاتی رہیں۔ شائد قبطی عیسائی اور دینی اقلیتیں وہ پہلا گروہ تھا جس نے نومنتخب صدر سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا۔ اگرچہ انہوں نے واضح طور پر اس بات کا اعلان نہیں کیا لیکن عملی میدان میں وہ جناب محمد مرسی کے مخالفین سے جا ملے۔ جناب محمد مرسی اور ان کے حامیوں کی جانب سے اسلامی شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہونے اور عوامی احتجاج اور اعتراضات کو یکسر نظرانداز کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ملک کے نئے آئین میں بھی اپنی جماعت اخوان المسلمین کی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ یہ امر مصر کی دوسری سیاسی جماعتوں اور قوتوں حتی مصری فوج کیلئے انتہائی پریشان کن ثابت ہوا اور ان کی جانب سے سنجیدہ ردعمل ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔ 

جناب محمد مرسی نے صدر مملکت ہونے کے ناطے سپریم کورٹ کے جج اور جنرل طنطاوی سمیت کئی اعلی فوجی کمانڈروں کو معزول کر کے ملک کے دو خودمختار اور ہردلعزیز اداروں یعنی عدلیہ اور فوج کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس طرح انہوں نے اپنے اور مصری معاشرے خلاف نئی دشمنیوں کی بنیاد رکھی اور سیاسی مخالفین کو مزید تنقید کا موقع فراہم کیا۔ لیکن جناب محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں اور بھی کئی قسم کے عوامل کارفرما تھے جیسا کہ مصری معاشرے کی پیچیدہ صورتحال اور خطے اور عالمی سطح پر جناب محمد مرسی کی خارجہ پالیسیاں۔ صدر مرسی کی خارجہ سیاست کچھ ایسی تھی کہ حتی مشرق وسطی کے وہ ممالک جو مصر میں اسلام پسند عناصر کے برسراقتدار آنے سے خوشحال نظر آتے تھے اور گذشتہ ایک سال سے مصر کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہے تھے مصر کی خارجہ پالیسیوں سے نالاں نظر آ رہے تھے۔ 

مصر میں اخوان المسلمین کی کامیابی نے سب سے زیادہ ترکی کو مسرور کیا جس کا معتدل اسلامی حکومت کا ماڈل مصر کیلئے نمونہ عمل بن چکا تھا۔ سعودی عرب اور قطر بھی مصر میں سلفی اور اخوانی قوتوں کے برسراقتدار آنے سے نہ صرف خوشحال نظر آ رہے تھے بلکہ انہوں نے اپنی مالی امداد کے ذریعے صدر مرسی کو معاشی مسائل سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن دوسری طرف خطے میں جاری اکثر مسائل کے بارے میں مصر کی جانب سے ترکی اور سعودی عرب کی حمایت میں پالیسی اختیار کرنے کے باوجود چونکہ مصر ایک نئی سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تھا لہذا جناب محمد مرسی نے بعض مسائل میں اپنی الگ پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جیسا کہ شام کے بحران سے متعلق صدر محمد مرسی نے ایک چار طرفہ منصوبہ پیش کیا جسے ترکی اور سعودی عرب نے زیادہ پسند نہ کیا۔ 

مصر میں ایک طرف عوامی ناراضگی کے تسلسل اور بدامنی میں اضافے اور دوسری طرف جناب محمد مرسی کا امریکی پالیسیوں سے زیادہ اتفاق نہ کرنا جس کا واضح نمونہ گذشتہ ایک سال کے دوران صدر محمد مرسی کی جانب سے 14 دورے انجام دینا اور ایک بار بھی امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات نہ کرنا ہے، اسی طرح شمالی افریقہ میں نیٹو اور فرانس کے موقف کی مخالفت کرنے نے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو یہ نتیجہ حاصل کرنے پر مجبور کر دیا کہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت سے زیادہ توقعات رکھنا فضول ہے۔ لہذا گذشتہ ایک سال کے دوران امریکہ نے مصر کی مالی امداد روک رکھی تھی اور حتی آئی ایم ایف کی جانب سے بھی مصر کو مالی امداد فراہم کرنے میں رکاوٹیں پیدا کر رہا تھا۔ 

اس کے علاوہ شام میں خانہ جنگی کا تسلسل، عراق میں بدامنی کی شدید لہر اور ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں نے امریکہ کے اندر یہ پریشانی پیدا کر دی تھی کہ کہیں مشرق وسطی میں اسلام پسند اور سلفی قوتیں زور نہ پکڑ لیں کیونکہ اس صورت میں اسرائیل کی قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ مصر میں آنے والی سیاسی تبدیلی سے خوش بھی ہے اور امیدوار بھی اگرچہ امریکہ نے کھلم کھلا اس بات کا اظہار نہیں کیا۔ امریکی حکام عرب دنیا میں اخوان المسلمین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے سخت خوفزدہ ہیں۔ اخوان المسلمین آج ایک ایسی تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جس کی شاخیں مصر سے لے کر فلسطین تک تمام اسلامی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ امریکہ کی نظر میں اخوان المسلمین اپنے مذہبی رجحانات کے مدنظر خطے کے مستقبل بالخصوص اسرائیل کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ لہذا امریکہ کیلئے پہلی ترجیح مصر میں سکولر قوتوں کی حمایت ہی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 286784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش