20
0
Sunday 1 Dec 2013 22:16

ان الباطل کان ذھوقا

ان الباطل کان ذھوقا
تحریر: عون علوی
(aownalavi@yahoo.com)

ابتدا میں ہی بغیر کسی تعصب کے ایران کے انقلاب کو "اسلامی انقلاب" کہنا قابل ستائش ہے۔ اسی طرح اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ انقلاب اسلامی نے ابتداء ہی میں امت مسلمہ میں امید کی کرن پیدا کی اور یہ بھرپور عوامی انقلابی تحریک دنیا بھر کے لئے خوش کن ثابت ہوئی اور دنیا بھر کی عوام کو حوصلہ ملا  کہ امریکہ اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں کو عوامی طاقت سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ آپ نے یہ بھی قبول کیا کہ اسلامی انقلاب نے لوگوں کو حوصلہ دیا کہ اسلامی قوانین نافذ العمل ہوسکتے ہیں اور اس تاثر کو بھی غلط ثابت کیا کہ پوری دنیا سے دشمنی مول نہیں لی جاسکتی۔ البتہ ضمناً عرض خدمت ہے کہ انقلاب اسلامی نے پوری دنیا سے نہیں بلکہ صرف مشرقی و مغربی استعمار و اسلام دشمن طاقتوں سے دشمنی کو اپنی شناخت قرار دیا ہے۔ آپ نے انقلاب اسلامی کے تینوں نعروں بشمول "مرگ بر ضد ولایت فقیہ" کو سراہا اور پہلے دو نعروں کو پوری امت مسلمہ کا مشترکہ نعرہ قرار دیا جبکہ تیسرے نعرے کو بھی اسلامی قوانین کے نفاذ اور شاہ کے سیکولر و مغرب زدہ معاشرے کی نفی قرار دیا۔ یہ امر بھی باعث بنتا ہے کہ آپ پر حسن ظن کرتے ہوئے یہ تصور کیا جائے کہ آپ نے یہ کالم مسلکی، قومی و سیاسی تعصب اور نیت شوم کی وجہ سے نہیں تحریر کیا۔

آپ نے یہ بھی بیان کیا کہ انقلاب اسلامی کی بنیاد میں ڈاکٹر علی شریعتی کے علمی کام اور اقبال کی شاعری کا بہت دخل ہے۔ جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے، آپ کی بات سو فیصد بجا ہے لیکن علی شریعتی کی فکر کو انقلاب اسلامی کی بنیاد قرار دینا آپ کی معلومات میں کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ نے اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا کہ امام خمینی کے دس سالہ دور اقتدار میں اسلام کے اکثر قوانین کو نافذ کیا گیا، یہ بات بھی سو فیصد درست ہے۔ کالم میں امریکی سفارت خانے کی یرغمالی اور شاتم رسول سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کے فتوے کی مثال پیش کرکے امام خمینی کے جاندار امریکہ مخالف کردار کا اعتراف بھی یہی تاثر دیتا ہے کہ آپ بظاہر انقلاب اسلامی کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ منصف مزاج افراد آپ کی اس بات کی بھی تائید کریں گے کہ مذکورہ بالا نعروں کا اصل مقصد ولایت فقیہ یعنی اسلامی معاشرے کا قیام ہے۔ آپ نے بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے قبول کیا ہے کہ امریکہ نے ایران کو برائی کا محور قرار دیکر مشرق وسطٰی میں ساٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا اور عرب شہزادگان اور امریکی پشت پناہی سے قائم حکمرانوں نے ایران کے خلاف ایک بھرپور جنگ مختلف محاذوں پر شروع کر دی۔ یہ حقیقت بھی قابل انکار نہیں ہے کہ ایرانی عوام گذشتہ چونتیس برسوں سے مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضد ولایت فقیہ کے نعرے لگاتی رہی ہے۔

مذکورہ بالا باتوں کی بنیاد پر راقم یہ سمجھتا ہے آپ پر ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے حسن ظن کیا جائے اور یہ تصور کیا جائے کہ آپ کے کالم کے پس پردہ کوئی شوم مقاصد نہیں ہیں اور آپ کے اعتراضات ناقص علم اور مغرب نواز میڈیا بشمول پاکستانی میڈیا کے غلط پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہیں۔ البتہ میڈیا میں اکثریت کی منافقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو لوگ یہ احتمال دے رہے ہیں کہ آپ کا کالم بھی میڈیا کی انقلاب اسلامی کے خلاف زہر افشانی کی ہی ایک کڑی ہے، ان کو بھی مورد الزام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے میڈیا کے منفی رویے نے عوام میں بداعتمادی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ آپ نے کالم کا آغاز ہی ایک بےبنیاد دعوے سے کیا کہ آیت اللہ خمینی کے افکار انہی کے اپنے دیس میں ایسے انجام کو پہنچے ہیں، جس کا انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ آپ جیسے بلند پایہ اہل قلم سے یہ توقع نہیں تھی کہ آپ ایران کے P5+1  کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو "ایران امریکہ معاہدہ" قرار دیں گے۔ اگرچہ امریکہ مذکورہ گروہ کا ایک رکن ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ معاہدے کے فریقین امریکہ اور ایران نہیں بلکہ P5+1 اور ایران ہیں۔ مذکورہ گروہ میں امریکہ کے علاوہ چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ جیسے اس معاہدے کو "ایران چین معاہدہ" کہنا غلط ہے، اسی طرح اس معاہدے کو "ایران امریکہ معاہدہ" کہنا بھی سیاسی بےبصیرتی کا دوسرا نام ہے۔ اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ یہ معاہدہ امریکہ و ایران کے درمیان ہوا ہے، پھر بھی کس منطق کی رو سے اسے نئی صف بندی قرار دے کر امریکہ ایران کی دوستی تصور کرنا درست ہے؟ کیا یہود مدینہ کے ساتھ معاہدے کے یہ معنی تھے کہ خاکم بدہن پیغمر اکرم (ص) نے یہود کو اپنا دوست مان لیا تھا جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں؟ کیا صلح حدیبیہ کفار مکہ کے ساتھ دوستی تھی اور کفار کو برحق تسلیم کرنے کے مترادف تھی؟ صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی ایسے افراد موجود تھے جو رسول اللہ کی رسالت تک میں شک کر بیٹھے تھے۔
 
ایران کے حالیہ معاہدے میں کہاں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایران نے امریکہ کو تسلیم کر لیا ہے۔ کاش آپ آیت اللہ خامنہ ای کی بسیجیوں کے مجمع میں اسی دن کی تقریر سنتے، جس دن یہ معاہدہ طے پا رہا تھا تو آپ کو معلوم ہوتا کہ امام خمینی کی فکر ایرانی معاشرے میں کس قدر پختہ تر ہوگئی ہے۔ کیا اسلامی انقلاب کے سربراہ کی جانب سے گوانتاناموبے اور ابو غریب جیل میں امریکی مظالم بیان کرنا اور ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی سفاکیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنا وہ بھی عین اسی دن جب ایران کی مذاکراتی ٹیم مذکورہ فریق کے ساتھ جوہری توانائی کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی، اس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ ایران شیطان بزرگ کے خلاف اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا؟ اگر آپ اسی خطاب کے دوران ہزاروں بسیجیوں کے نعرے سنتے اور دیکھتے کہ کس جوش و خروش سے وہ مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضد ولایت فقیہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں تو آپ اس خام خیالی کا کبھی شکار نہ ہوتے کہ امام خمینی کی فکر کی بنیادیں ایران نے خود ہلا دی ہیں۔ 11 فروری زیادہ دور نہیں ہے، آپ زحمت کرکے کسی معتبر عالمی ٹی وی چینل پر دیکھ لیجئے کہ کس طرح ایرانی انقلابی عوام کا بحر بےکراں مرگ بر امریکہ کی صداؤں سے متلاطم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر علی شریعتی کے علمی کام کو انقلاب اسلامی کی بنیاد قرار دینا ایسی ہی بےبنیاد بات ہے جیسے یہ تصور کرنا کہ سر سید احمد خان کا علمی کام تخلیق پاکستان کی بنیاد ہے۔ انقلاب اسلامی کی بنیاد تعلیمات محمد و آل محمد ہے۔ ایران کے علماء کی چار سو سالہ جدوجہد ہے۔ 15 خرداد کا قیام ہے۔ امام خمینی کے افکار ہیں۔ اقبال کی حیات بخش شاعری ہے۔ شہید مرتضٰی مطہری، شہید بہشتی اور ان جیسے دسیوں مایہ ناز علماء کی علمی کاوش ہے۔ خدا جانے آپ نے کن اطلاعات کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ امام خمینی کی کتب ایران میں ناپید ہوگئی ہیں۔ آپ تو ایک قابل ذکر عرصے تک ایران میں رہے ہیں، حیرت ہے کہ آپ نے ایسی بےتکی بات کیسے کر دی۔ آپ کا یہ کہنا کہ امام خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ کو ایران کے اندر اور باہر سے علماء کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یہ تاثر دیتا ہے کہ شاید اکثر علماء نے اس نظریئے کو رد کیا ہے۔ کاش آپ ایران، بحرین، پاکستان، عراق اور لبنان کے علماء کی حمایت پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے۔ کاش آپ شہید باقر الصدر، شہید عارف حسین الحسینی، شہید مرتضٰی مطہری، علامہ مصباح یزدی، علامہ جوادی آملی اور اسی طرح کے سینکڑوں علماء کے افکار کا مطالعہ کر لیتے تو آپ یہ بات اتنی آسانی سے نہ کہتے۔

آپ نے جن مسلکی اور عرب و عجم اختلافات کا ذکر کیا ہے، خدا کا شکر ہے کہ انقلاب اسلامی اور اس سے وابستہ افراد ان تمام تہمتوں سے بری الذمہ ہیں اور ان اختلافات کو صرف اور صرف امریکہ و اسرائیل کے کاسہ لیس حکمرانوں اور علماء نے ہی بہانہ بنا کر شیطان بزرگ کی خدمت کی ہے۔ آج ایران مسئلہ فلسطین کا سب سے بڑا حامی ہے۔ کیا فلسطین میں رہنے عجم ہیں یا شیعہ؟ ایران نے بارہا حماس کی سیاسی و مالی مدد کی ہے؟ کیا حماس ایک عرب اور سنی العقیدہ جماعت نہیں ہے؟ بحرین میں سعودی عرب اور آل خلیفہ کی کھلم کھلا درندگی کے باوجود، کیا ایران نے بحرین کی حمایت مسلکی بنیادوں پر کی ہے؟ کیا مصر اور تیونس کی انقلابی تحریکوں کی حمایت اس بات کی عکاس نہیں ہے کہ ایران کی حمایت مسلکی و عجمی تعصبات سے سو فیصد پاک ہے۔ جہاں تک طالبان کا مسئلہ ہے تو آپ ہی فرمایئے کہ کیا یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح نہیں ہے کہ طالبان امریکہ کی اپنی ہی تیار کردہ عسکری قوت ہے جو روس کے خلاف شیطان بزرگ نے تیار کی تھی۔ آپ ایک بھرپور عوامی و انقلابی تحریک کا مقایسہ طالبان جیسے درندہ صفت گروہ کے ساتھ کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے یہ کہا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو یا پتھر کے زمانے میں جانے  کے لئے تیار ہو جاؤ تو ایران ہی وہ واحد ملک تھا جس نے امریکہ کی حمایت کا ڈٹ کر انکار کیا تھا۔ کیا آپ بخوبی نہیں جانتے کہ عراق سے امریکی افواج کا انخلاء ایران ہی کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت ہوا ہے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ایران نے عراقی مجاہدین کی کس حد تک عسکری، سیاسی و مالی حمایت کی ہے؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ غزہ کے مجاہدین کی ایران نے کس طرح سے حمایت کی ہے۔؟

آپ نے بڑی آسانی سے تمام تر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کو عرب عجم چپقلش قرار دے دیا۔ کون نہیں جانتا کہ صدام نے کس کی ایماء پر ایران پر حملہ کیا؟ کسے نہیں معلوم کہ عراق کی بعثی حکومت کو ایران کے خلاف جنگ میں امریکہ، اسرائیل و روس سمیت 62 ممالک کی مکمل عسکری، سیاسی و مالی حمایت حاصل تھی۔ کیا امریکہ، اسرائیل، روس اور مٖغربی ممالک آپ کی نظر میں عرب ہیں؟ کیا آپ اس حقیقت سے بےخبر ہیں کہ شاہ ایران کی طرح صدام حسین بھی امریکہ کا ہی ایک مہرہ تھا۔ اگر آپ نہیں جانتے تو از راہ کرم قلم اٹھانے سے پہلے کچھ مطالعہ کر لیا کریں اور اگر جانتے ہیں تو "عرب عجم چپقلش" کی تعبیر استعمال کرکے آپ نے لوگوں سے حقائق چھپانے بلکہ انہیں مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ انقلاب رجعت اور پسپائی کا شکار ہو گیا ہے، آپ کے حقائق سے آگاہ نہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ البتہ پھر واضح کر دوں کہ آپ پر حسن ظن کا یہ تقاضا ہے کہ راقم یہ کہہ رہا ہے ورنہ یہ بھی کہنا بےجا نہ ہوگا کہ آپ حقائق کو پامال کرکے اپنے قارئین کو گمراہ کر رہے ہیں۔
 
حالات سے آگاہ اور با بصیرت لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جمہوری اسلامی ایران نہ صرف علمی، طبی، سیاسی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کر رہا ہے بلکہ فکری محاذ پر بھی آج سے چونتیس سال پہلے کی نسبت کئی گنا پیشرفت کرچکا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ سیاسی، فوجی اور مسلکی مفادات نے انقلاب کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ کاش آپ انقلاب کی روح سے واقف ہوتے اور یہ جانتے ہوتے کہ کس طرح ایران نے سیاسی، فوجی اور مسلکی مفادات کی پروا نہ کرتے ہوئے ہمیشہ امت مسلمہ کے مشترکہ مفاد کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ کیا اسرائیل کے ساتھ دشمنی ایران کا ذاتی مفاد ہے؟ کیا سخت ترین پابندیاں برداشت کرکے کلمہ حق کی خاطر ڈٹے رہنا سیاسی، فوجی و مسلکی مفاد ہے؟ کیا مغربی طاقتوں کے مقابلے میں تن تنہا کھڑے ہو کر شام، لبنان، فلسطین، مصر، تیونس وغیرہ کی حمایت کرنے میں ایران کا سیاسی، فوجی اور مسلکی مفاد ہے؟ کیا یہ اقدامات انقلاب کی روح کو زخمی کرتے ہیں یا اسے قوی سے قوی تر کرتے ہیں۔؟ 

آپ کا یہ کہنا کہ ایرانی قوم سے پہلا نعرہ چھن گیا ہے، آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ 11 فروری تک انتظار کر لیں آپ کو جواب مل جائے گا۔ اگر زیادہ انتظار نہیں ہوتا تو تہران کے نماز جمعہ کے اجتماع کو دیکھ لیجئے گا، آپ خود دیکھ لیں گے کہ ایران میں جمعہ کا فریضہ تب تک انجام نہیں ہوتا جب تک انقلابی جوان شیطان بزرگ کے خلاف اپنی بھڑاس نہ نکال لیں۔ رہی یہ بات کہ اس دوستی کے بعد اسرائیل کے خلاف نعرہ بےمعنی سا ہوگیا ہے۔ یہ جملہ خود انتہائی بےمعنی ہے۔ اولاً قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے کہ مذکورہ معاہدے کو دوستی سے تعبیر کرنا بےبصیرتی کی علامت ہے۔ ثانیاً اس معاہدے پر اسرائیلی وزیر اعظم کا سیخ و پا ہونا خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے اس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان صہیونیت کو ہوا ہے۔ ثالثاً میں آپ کو ایک دفعہ پھر دعوت دیتا ہوں کہ آپ بسیجیوں سے رہبر انقلاب سید علی خامنہ ای کے حالیہ خطاب کو ایک دفعہ سماعت کر لیں۔ اسرائیل کے لئے حرامزادہ اور پاگل کتے جیسی تعبیرات کا استعمال آپ کے اعتراض کا دندان شکن جواب ہے۔ 

آپ سے گزارش ہے کہ علی شریعتی اور محسن رضائی جیسے افراد کے افکار پر انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے امام خمینی اور رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے افکار کا بخوبی مطالعہ کر لیں، تاکہ آئندہ اس طرح کی فاش غلطیوں سے بچ سکیں۔ آپ سے یہ بھی توقع ہے کہ ایرانی صدر یا اس کی کابینہ کے کسی اقدامات کے ساتھ ساتھ ولی فقیہ سید علی خامنہ ای اور ایران کے دیگر مذہبی و انقلابی حلقوں کی آراء کو مدنظر رکھ لیا کیجئے، تاکہ مستقبل میں آپ بدگمانی کا شکار نہ ہوں۔ اگر آپ نے ایرانی صدر کے نیویارک کے سفر میں ہونے واقعات کی بناء پر کوئی رائے قائم کی ہے تو آپ کو چاہیئے کہ آپ رہبر انقلاب کے اس جملے کی طرف بھی توجہ کریں کہ نیویارک کے سفر میں پیش آنے والے واقعات بجا نہیں تھے۔ آپ سے آخر میں ایک بار پھر گزارش ہے کہ 11 فروری 2014ء کے عظیم مظاہروں کو دیکھنا مت بھولئے گا، تاکہ آپ مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضد ولایت فقیہ کے فلک شگاف و طاغوت شکن نعروں کو اپنے کانوں سے سن سکیں اور جان سکیں کہ "جاء الحق و ذھق الباطل ان الباطل کان ذھوقا"
خبر کا کوڈ : 326473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ کیا خوب لکھا ہے، اسے اوریا صاحب تک ضرور پہنچا دیجئے گا۔
سلام عون بھائی
آپ نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو کہنا چاہئے تھا۔ خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائیں، سلامت رہیں۔ سعیدی
Pakistan
Orya sb k column parh ker in batonon ki kami ka bilkul ahsas ho rha tha jo aap ne zikr keen.
اس کالم کو پبلش بھی کروانے کی کوشش کریں، تاکہ عوام الناس میں جو اضطراب پھیلا ہے وہ دور ہو اور اس معاہدے کو انقلاب اسلامی ایران کی طرح اسلام کی فتح قرار دیں۔ تشکر
Afreen Aown bhai Afreen.
Sibtain
United Kingdom
بہت اعلٰی اور دندان شکن جواب ھے۔
سلام علیکم
اسے واقعاً دنیا کے تمام اردو اخبارات میں شائع ہونا چاہیے، اس مضمون نے میرے ایمان کی گرمی، دل میں روشنی اور بصیرت میں اضافہ کیا ہے۔ زندہ تحریر اسی کو کہا جاتا ہے۔
Iran, Islamic Republic of
aun bhai khuda aap ko salamt rakhy
United States
خداوند آپکی کاوشوں کو قبول کرے۔
بہت اچھی کوشش ہے، اوریا مقبول اور ان لوگوں کو بھی بھیج دیں جنہوں نے اس کالم کی تعریف مجلس میں کی ہے، سمجھ تو گئے ہونگے۔۔
ارشاد حسین ناصر
Pakistan
Bahot khoob likha aap ne, orya maqbool jaan jesy log to bahot der inqlab k bary me bad gumani phelany ki try kar rahy hein but in ko moqa nhi mil raha tha, to ab kesy chup kar k beth jaen ge
Khuda aap ki taufiqat mn izafa farmay..nice ans
ارشاد ناصر بھائی، مجلس میں کس نے اوریا مقبول کےکالم کی تعریف کی ہے؟ کچھ بتائیں تو سہی۔
ہمارے دلوں کی ترجمانی کرتا ہوا دندان شکن کالم۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اور توفیقات خیر میں اضافہ کرے۔ آمین
سید عباس حسینی
United States
ماشاءاللہ یہ رخ قابل ستایش ھے اور اسطرح کے لوگ کم نہیں اور اقا جواد صاحب جیسی شخصیت کو ڈسنے کے بجائے شیاطین زمانہ کو پہچانو اور ان اہداف کو نشانہ بناو، ورنہ اپنی دنیا و اخرت خراب کرو گے ۔۔۔ شاباش
بہت خوب
ماشاءاللہ، خیلی عالی عون بھائی، خدا آپکی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
کہاں پر آقا جواد صاحب کا ذکر ہے؟؟؟ ویسے ہی بعض لوگوں کی داڑھی میں تنکا ہلتا رہتا ہے۔ بات کہیں کی ہو، موڑ کر جواد صاحب پر لے جاتے ہیں اور دنیا و آخرت انکی خراب ہے جو ولی فقیہ کے مقابلے میں کھڑے ہیں، چاہے جو بھی ہیں۔
Pakistan
سلام برادر، اوریا مقبول کے ضمن میں دوسروں کو ھدف بنانا بھی کچھ اچھا کام نہیں۔ آپ نے ڈاکٹر شریعتی کو نشانہ بنا کر غلطی کی ہے۔ علی شریعتی کی خدمات بھی بہت زیادہ ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ذھنوں پر انکی تعلیمات کی ایک چھاپ ہے۔ آپ کو چاہئے تھا کہ صرف اسلامی انقلاب کا دفاع کرتے نہ کہ کسی محترم کی کردار کشی۔ شکریہ
علی سجاد جعفری
سلام. برادر سید کا ذکر نہ اس کالم میں کہیں ہے نہ ہی حقیر نے اس سے پہلے کسی کالم میں کیا ہے. مسئلہ صرف یہ ہے کہ راقم نے آج سے چند ماہ قبل قرآن، اهل بیت اور علماء بشمول امام خمینی و آقا جوادی آملی کی علمی آراء اور حزب الله و شہید حسینی کی روش کو سامنے رکهتے ہوئے انتخابات میں حصه لینے کی حمایت کی تهی، جسے برادر نے بزرگی کرتے ہوئے ڈسنے سے تعبیر فرمایا ہے۔
عون علوی
ہماری پیشکش