0
Thursday 13 Feb 2014 10:59

طالبانی مذاکرات، حکومت کو پھنسانے کی سازش

طالبانی مذاکرات، حکومت کو پھنسانے کی سازش
تحریر: تصور حسین شہزاد

طالبان اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹیوں کی جانب سے بات چیت کی مثبت سمت پیش رفت کے اعلانات کے باوجود اس گفت و شنید کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ شدت پسند تنظیم کے ترجمان کا امریکی جریدے کو انٹرویو میں اس بات کا برملا اظہار کہ طالبان پاکستان میں (اپنی من پسند) شریعت کا (جبری) نفاذ چاہتے ہیں، ان کے بقول ملا فضل اللہ پاکستانی قوم کی قیادت کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، وہ خلیفہ اور ملا عمر امیر المومنین ہوں گے۔ یہ انٹرویو شدت پسندوں کے عزائم اور مستقبل کے منصوبوں سے آگاہی دے رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی اخبارات ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ اور ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ میں شائع ہونیوالی خبریں کہ امریکا پاک افغان سرحدی علاقوں میں روپوش ایک امریکی انتہاپسند شہری کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کیلئے امریکی صدر ازروئے قانون اپنی فوج کو ہدایات جاری کرکے اسے ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کی ہدایات جاری کر چکے ہیں کیونکہ سی آئی اے کسی دوسرے ملک میں چھپے امریکی کو نشانہ نہیں بنا سکتی۔ یعنی یہ خدشہ کہ کسی بھی وقت کوئی ڈرون یہ سارا ڈرامہ فلاپ کرا سکتا ہے، اپنی جگہ موجود ہے اور یہ صورتحال پاکستان حکومت کے شدت پسندوں سے مذاکرات کے بیل منڈھے نہ چڑھنے کے اشارے دے رہی ہے۔

یوں بھی اب تک ان مذاکرات کے سلسلے میں جو بھی منظر نامہ متشکل ہو رہا ہے وہ ناظرین کو متذبذب کرنے کیلئے کافی ہے۔ شدت پسندوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے حکومت کو مذاکرات کے دام میں پھنسا کر اپنی قانونی حیثیت منوا لی ہے۔، اہل نظر کے ان خدشات کی تصدیق کر رہا ہے کہ عسکریت پسند ‘‘مذاکرات‘‘ کو بھی ایک حربی وار کے طور پر استعمال کرکے حکومت کو جال میں پھنسا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی لئے ان کی جانب سے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بات چیت میں سنجیدہ ہیں۔ اس لئے انہیں فوجی قیادت سے ملوایا جائے، مگر پاکستان کے عسکری ذرائع ایک غیر قانونی قرار دی جانیوالی شدت پسند تنظیم کیساتھ مل بیٹھنے کو خلاف دستور سمجھتے ہیں۔ اس لئے انتہاپسندوں کے اس مطالبے کو درخور اعتنا نہیں جانتے۔ اس طرح یہ بات خارج از امکان ہے کہ جی ایچ کیو ان لوگوں کیساتھ مذاکرات کرے گا جو آج بھی غیرملکی جریدے میں فوج کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے کر واضح اعلان کر رہے ہیں کہ وہ موقع ملتے ہی اعلٰی عسکری شخصیات پر حملے کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

شدت پسندوں کے عزائم تجزیہ نگاروں کی آراء کی تصدیق کر رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن میں بے پناہ نقصان اٹھانے کے بعد انتہاپسندوں نے مذاکرات میں جانے کیلئے اپنے ہمدردوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ مفاہمتی عمل کے ذریعے انہیں فوجی آپریشن میں مکمل تباہی سے دوچار ہونے سے بچائیں، مذہبی و سیاسی قیادت میں موجود ان کے بہی خواہوں نے سرعت کیساتھ متحرک ہو کر مذاکرات کا ڈھونگ رچانے میں شدت پسندوں کا ساتھ دیا اور بقول شخصے وزیراعظم میاں نواز شریف قیام امن کی دیرینہ خواہش کو بغیر خون خرابے کے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی آرزو کو بر آتا دیکھنے کی تمنا میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر مذاکرات کی پیشکش میں سنجیدہ ہوگئے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ عسکری ذرائع ایسے وقت میں جب فوج انتہا پسندوں کے تمام ٹھکانوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو کر دہشت گردی کے عفریت کی جڑوں تک پہنچ چکی تھی اور ان کا بیج تک مٹانے کیلئے بھرپور وار کرنے والی تھی، حکومت نے مفاہمتی عمل کے اعلان سے شدت پسندوں کو کیفرکردار تک پہنچنے سے بچا لیا جو کہ دہشت گردی کی جنگ میں لازوال قربانیاں دینے والوں کیلئے شدید ذہنی دھچکے کا باعث بنا۔

عسکری ذرائع ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے خطاب سے صرف ایک دن پہلے آرمی چیف سے ملاقات میں قیام امن کیلئے انتہاپسندوں کے ساتھ آہنی عزم سے نمٹنے کا جو اشارہ دیا تھا، فوج اس سے حوصلہ پا کر فیصلہ کن وار کیلئے تیار ہو رہی تھی کہ ایوان نمائندگان میں مذاکرات کی گونج نے سارا منصوبہ التوا میں ڈال دیا، اس پر عسکری قیادت کا اضطراب فطری ہے، مگر وہ دستوری طور پر سیاسی حکومت کے احکامات کی تعمیل پر مجبور ہے۔ اس لئے فی الوقت تیل کی دھار دیکھنے پر اکتفا کرکے رہ گئی ہے، مگر شدت پسندوں کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے تسلسل نے قیام امن کی راہ مسدود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک ہفتے میں پشاور میں دوسری بار سینما ہاؤس پر چینی ساختہ دستی بموں سے حملے میں انسانی ہلاکتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ انتہا پسندانہ عزائم رکھنے والے مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ جاری رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ لال مسجد کے خطیب کی میڈیا پر رونمائی کے ذریعے وہ انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی چال کو بڑی ہنرمندی سے استعمال کرکے ملک میں اپنی من گھڑت شریعت کے نفاذ کیلئے فضا ہموار کرنے میں جتے ہیں، اپنی گرفت نظام پر مضبوط کرنے کے بعد وہ اقتدار پر قبضہ مکمل ہونے کی صورت میں ہئیت حاکمہ کی تشکیل سازی بھی کرچکے ہیں۔

ملا فضل اللہ کی خلافت کا اعلان ان کے مذموم عزائم کی نشاندہی کر رہا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پاکستان کے قیام کی مخالف ساری مذہبی جماعتیں عرصہ دراز سے اس ریاست پر قوت کے بل بوتے پر قبضہ کرنے کے جو خواب دیکھتی آئی ہیں، انہیں طالبان کی مہم جوئی کے نتیجے میں اس خواب کی تعبیر کی عملی شکل ظاہر ہونے کی امید ہوچلی ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ جس طرح اقلیتی حکمرانی کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹتی چلی آئی ہے، اسے شدت پسندوں کے گروہوں کے ذریعے اپنی ہوس اقتدار پوری کرنے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس لئے باقاعدہ طے شدہ منصوبے کے ذریعے سیاسی حکومت کو اس منجدھار میں دھکیلا گیا ہے، جہاں بحران زور پکڑنے کی صورت میں اقتدار پر اس کی گرفت کمزور پڑتے ہی خفیہ سازشیں پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ لال مسجد کے خطیب کی باتیں ’’ہز ماسٹر وائس‘‘ کی صدائے بازگشت ہیں، میڈیا میں بیٹھے ایجنٹ اپنے فرائض بڑی تندہی سے انجام دے کر رائے عامہ ہموار کرنے میں جتے ہیں۔ ایک جمہوری نظام کا جڑ پکڑنا مقتدر حلقوں کیلئے سوہان روح بن رہا ہے، ہمیشہ کی طرح نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے نام پر عامۃ الناس پر زمینی سرحدیں تنگ کرنے کا عمل سرعت پذیر ہے۔ طالبان سے طالبان کے مذاکرات کے نتائج نوشتۂ دیوار ہیں۔۔۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے لوگوں کو گمان تک نہیں کہ اب کچھ ہی دیر میں ٹرک کی بتی بجھنے والی ہے۔۔۔؟ ویراں سرائے دہر میں چشم انتظار پتھر ہونے سے کون بچا سکتا ہے!
خبر کا کوڈ : 351137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش