9
1
Thursday 20 Mar 2014 08:39
شریف برادران کے نام

شیوخ و شاہ کو سمجھو نہ پاسبان حرم

شیوخ و شاہ کو سمجھو نہ پاسبان حرم
تحریر: عرفان علی 

پاکستان پر تخت لاہور کی حکومت ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے۔ داتا کی اس نگری میں پاکستان کے دو ایسے شاعر بھی مدفون ہیں جن کے اشعار موجودہ حکمران گنگناتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ علامہ اقبال سے دامن نہیں چھڑا سکتی، نظریاتی مجبوری ہے۔ شہباز شریف کو حبیب جالب کی نظم ’’دستور‘‘ اتنی پسند ہے کہ بڑے ترنم سے کہتے ہیں کہ ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا" کہنے سے کیا ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ شریف برادران سب کچھ مانتے ہیں لیکن راز فاش نہیں کرتے۔ 23 اگست 2007ء کو سابق جسٹس فخرالدین جی ابراہیم سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی۔ بندہ نے ان سے پوچھ لیا، حضور سب کہہ رہے ہیں کہ شریف برادران حکومت سے خفیہ معاہدہ (یعنی ڈیل) کرکے سعودی عرب گئے ہیں؟ چونکہ وہ شریف برادران کی وطن واپسی کے لئے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن میں ان کی جانب سے وکیل تھے اور اسی سلسلے میں اسلام آباد جا رہے تھے، مجھے جواباً کہا کہ نواز شریف نے خود انہیں بتایا ہے کہ کوئی خفیہ ڈیل نہیں ہوئی۔ اسی دن جب ہم نتھیا گلی میں ہوٹل کے کمرے میں پہنچے تو سب سے پہلے ٹی وی کا بٹن آن کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس خفیہ ڈیل کی کاپی اور اس میں درج نکات پر مبنی خبر ایک نیوز چینل پر نشر ہو رہی تھی۔ میرے ساتھ صحافی دوست فہیم بھی تھے۔ ہم دونوں چند گھنٹے قبل فخرالدین جی ابراہیم صاحب کی بات یاد کرکے مسکرانے لگے۔ یہ الگ بات کہ سپریم کورٹ نے اس دستاویزی ثبوت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔

ستمبر 2007ء میں سعودی شہزادے مقرن بن عبدالعزیز اور لبنان کے سعد حریری نے اسلام آباد میں ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوڑ دی اور امید ظاہر کی کہ نواز شریف ڈیل کا احترام کریں گے۔ پاکستان سے سعودی عرب آمد کے بعد لندن روانگی سے قبل تک کا سارا عرصہ شریف خاندان نے سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کے سرور پیلیس میں گذارا۔ لندن سے بڑے بے آبرو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے کے مصداق جب انہیں پاکستان کے بجائے دوبارہ سعودی عرب ہی میں رہنے کی ہدایات کی گئیں تو جدہ میں امریکی قونصلیٹ کے نزدیک اپنے شریف پیلیس (محل) میں منتقل ہوئے۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف کو پاکستان آنے کا دورہ آٹھ ستمبر کو پڑا تھا اور اسی دن شہزادہ مقرن اور سعد حریری اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ دس ستمبر کو وہ جدہ ایئرپورٹ پر دوبارہ اپنے بھائی شاہ عبداللہ کے مہمان تھے۔

جی ہاں شاہ عبداللہ نواز شریف کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، یہ بات نواز شریف اور شہباز شریف نے خود معروف صحافی سہیل وڑائچ کو بتائی، جنہوں نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب ’’غدار کون‘‘ میں بھی کیا ہے۔ شہباز شریف نے سعودی مہربانیوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا: ’’سعودی حکومت تو اس حد تک سوچ رہی تھی کہ اگر حکومت پاکستان میرا پاسپورٹ جاری نہیں کر رہی تو سعودی پاسپورٹ جاری کر دیا جائے۔ یعنی وہ اس حد تک سوچتے تھے۔‘‘ سعودی بادشاہ پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور یہ پاسپورٹ والی سہولت کس کے لئے مخصوص ہے، اس کے لئے آج سعودی عرب کی جیلوں میں ذلیل و خوار ہونے والے ہمارے ہم وطنوں کے علاوہ کون سمجھ سکتا ہے۔؟

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ چند ملین ڈالرز ادھار کی ضمانت کا اعلان کیا۔ پاکستان نے شام کے مسئلے پر سعودی عرب کے موقف کی تائید کردی۔ بعد میں شاید کم قیمت پر توجہ دلائی گئی تو بات ڈیڑھ ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سعودی تحفہ ہے۔ اس کے بعد بحرین کے بادشاہ کو بھی یاد آیا کہ پاکستان کی نواز شریفی حکومت کو شرف زیارت بخشا جائے۔ لیکن سابق سفارتکار اور سابق فوجی افسران حکومت پر ان بادشاہی مہربانیوں کو ہضم نہیں کر پا رہے۔ ظفر ہلالی ہوں یا اشرف جہانگیر قاضی جیسے منجھے ہوئے کہنہ مشق سفارتکار اور ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف ہوں یا دیگر دفاعی تجزیہ نگار، سبھی ایک بہت ہی خطرناک اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔ پراکسی وار یعنی نیابتی جنگ کی اصطلاح تو ماضی میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہے، لیکن ان دوروں اور حکومت کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی اور ڈرامائی تبدیلی کے پیش نظر اب پاکستان کے لئے کرائے کی قاتل ریاست (mercenary state) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ملک کی اقتصادی شہہ رگ کراچی پر راج کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کے قائد نے سوال کیا ہے کہ کیا پاکستان کرائے کی ٹیکسی ہے کہ جس کا دل چاہے پیسے دے کر بیٹھ جائے اور اپنی مرضی سے اس ٹیکسی میں جہاں تک چاہے سفر کرے اور جہاں دل چاہے کرایہ دے کر اتر جائے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سعودی تحفے پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جانا چاہیے۔ اس ردعمل پر حکمران غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ کوئی اتنا سادہ لوح نہیں جو ان بد بخت عرب بادشاہوں کی خصلتوں کو نہ پہچانیں۔ یہ اتنی بڑی رقم دیں اور بدلے میں کچھ نہ چاہیں۔ شام اور بحرین میں سعودی بادشاہ کو پاکستان کی فوجی مدد بھی درکار ہے اور وہ مدد بھی جو افغانستان کے محاذ میں جنرل ضیاء کی حکومت نے کی تھی۔ امریکی بحری افواج کا اس خطے میں ہیڈ کوارٹر بحرین میں ہے۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے سعودی بادشاہ نے افغانستان کی جنگ میں امریکی افواج کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ دنیا میں غیر ملکی افواج کی کسی بھی ملک میں موجودگی کا اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے, لیکن سعودی عرب میں امریکی فوج کا اسٹیٹس آف فورسز ایگریمنٹ (سوفا) خفیہ تھا۔ اگست 2003ء تک امریکی فوج سعودی عرب میں موجود رہیں اور اس کے بعد بھی مکمل انخلاء نہیں ہوا، تعداد میں کمی کی گئی۔
 
معروف امریکی صحافی سیمور ہرش نے دفاعی تجزیہ نگار و صحافی ولیم ایم آرکن کی ایک کتاب کی تعریف کی ہے کہ اس نے بہت سی خفیہ باتوں اور امریکی رازوں کو فاش کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے کوڈ نیمز، نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکی فوجی منصوبے، پروگرام اور آپریشنز کا کھوج۔ قومی دفاع کی رپورٹنگ پر انعام یافتہ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹس کی سینیئر صحافی لنڈارابنسن نے اسپیشل فورسز کی خفیہ تاریخ ’’ماسٹرز آف کے اوس‘‘ لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں سعودی امریکی خفیہ فوجی تعلقات کی بعض تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ولیم سمپسن نے اپنے دوست سعودی شہزادے پرنس بندر بن سلطان پر دی پرنس کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، جس میں اس کے منفی کردار کی تفصیلات درج ہیں۔ آل سعود پر سنی بریلوی مصنف کی اردو میں کتاب تاریخ نجد و حجاز لکھی گئی، جو ایک طویل عرصے سے مارکیٹ سے غائب ہے۔

سعودی عرب نے کبھی اسرائیل کی نابودی کے لئے فوج نہیں بھیجی، لیکن بحرین میں پرامن جمہوری و سیاسی تحریک کو کچلنے کے لئے اپنے فوجی ٹینک بھیجے ہیں۔ سعودی عرب نے امریکہ کے کہنے پر القاعدہ اور طالبان کو فروغ دیا اور امریکہ کے کہنے پر بعض کو مروا دیا، بعض کو خود گرفتار کرلیا اور بعض کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ طالبان اور القاعدہ سے معاملات آج بھی سعودی عرب کے ذریعے طے کئے جاتے ہیں۔ سعودیوں کے ذریعے طالبان کے خفیہ مذاکرات کی داستانیں احمد رشید نے اپنی کتاب ڈیسنٹ انٹو کے اوس میں بیان کی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ڈیوڈ اگناشس انکشاف کرچکے کہ عرب انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مغربی انٹیلی جنس اداروں کا اجلاس وہاں ہوا تھا اور شام کے خلاف نئی حکمت عملی وہاں مرتب کی گئی تھی۔

’’غدار کون‘‘ میں آپ پڑھیں گے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کہتے تھے کہ حکومت کی رٹ قائم رکھنا ضروری ہے، ماورائے آئین و قانون اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انہیں انتہا پسندی اچھی نہیں لگتی تھی۔ نائن الیون کے بعد امریکی حملوں پر ان کی بھی وہی پالیسی ہوتی جو پرویز مشرف کی تھی، بس وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر یہ کام کرتے۔ ایسے بہت سے اقوال زریں پڑھنے کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ ایران گیس پائپ لائن، شام پالیسی اور سعودی و بحرینی بادشاہوں کی غلامی کے لئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے والے خود کو پرویز مشرف سے اچھا کیسے تصور کرتے ہیں۔ شروع میں عرض کیا تھا کہ شریف برادران کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ نواز شریف نے سہیل وڑائچ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ قید میں کبھی نہیں روئے۔ اڈیالہ جیل میں ان کے قریب ہی ایک سیل میں قید رہنے والے ڈاکٹر فاروق ستار نے رہائی کے بعد ایک گفتگو میں مجھے بتایا تھا کہ شریف برادران آنسوؤں کے ساتھ رویا کرتے تھے اور ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا کرتے تھے۔

سہیل وڑائچ نے ایک انتہائی اہم سوال کیا تھا: آپ کے اقتدار سے ہٹائے جانے پر عام لوگ کیوں خاموش رہے، اس کی کیا وجہ تھی، جس کا جواب نواز شریف کے پاس نہ تھا۔ کہنے لگے کہ کہ میں عوام سے یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ آپ اٹھے کیوں نہیں؟ میں اس وقت تک الیکشن نہیں لڑوں گا جب تک مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ اس سوال کا جواب علامہ اقبال کے ان اشعار میں بھی موجود ہے، جو سلاطین و بادشاہوں اور ان کی چاپلوسی کرنے والوں کے بارے میں لکھے ہیں اور جو بندہ پہلے ایک کالم میں لکھ چکا، لیکن آج حبیب جالب کی زبانی بتانا چاہوں گا کہ:
شیوخ و شاہ کو سمجھو نہ پاسبان حرم 
یہ بندگان زر و سیم ہیں خدا کی قسم
شیوخ و شاہ تو ہیں خود شریک ظلم و ستم
شیوخ و شاہ سے رکھو نہ کچھ امید کرم
امیر کیسے نہ واشنگٹن کے ساتھ رہیں
انہی کے دم سے ہیں ساری امارتیں ہمدم
یہ مانگتے ہیں دعائیں برائے اسرائیل 
کہ اسرائیل سے ہیں بادشاہتیں قائم 
غرض انہیں تو فقط اپنے تخت و تاج سے ہے 
انہیں شہید فلسطینیوں کا کیوں ہو غم 
گماشتے ہیں یہ سب سامراج کے یارو
عدو کے ساتھ ہی کرنا ہے ان کا سر بھی خم
شہباز شریف صاحب کو معلوم ہو کہ دستور نظم ترنم سے پڑھنے سے جالب کی پیروی نہیں ہوجاتی، وہ تو قبر سے بھی آپ کو سمجھا رہے ہیں:
شیوخ و شاہ بھی کب ہیں ہمارے یار، اے لوگو
ہمارا خون پیتے ہیں یہ سب مکار، اے لوگو

پھر مت کہئے گا کہ عوام آپ کی حکومت کے دھڑن تختہ پر گھروں میں کیوں بیٹھے رہے، کیونکہ وہ آج آپ کی بادشاہ نوازی کے خلاف سڑکوں پر ہیں! کل شاید ان کے آرام کا دن ہو۔
خبر کا کوڈ : 363796
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ بہت خوب عرفان صاحب۔ بہت ہی عمدہ طریقے سے آپ نے نام نہاد شریف برادران کو بے نقاب کرنے والا کالم تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ keep it up islamtimes. jazakallah
salam
سلام
اے کاش کہ یہ تحریر اتنی پڑھی اور پھیلائی جائے کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی اردو زبان سمجھی جاتی ہے وہ سب لوگ ان خائن بادشاہوں اور ان کے غلام حکمرانوں کی اصلیت سے واقف ہوجائیں۔
آپ بیک گرائونڈ انفارمیشن سے اتنے زیادہ باخبر ہوتے ہیں کہ آپ کی تحریر مستند اور جامع ہوتی ہے، شاید دیگر افراد اس پر توجہ نہیں دیتے کہ حوالہ جات کے ساتھ قارئین کو حقائق سے مطلع کیا جائے، تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ بات کرسکیں۔
شریف بدمعاش حکمرانوں کو یہ تحریر پڑھنا چاہیے اور پھر وہ قوم کو بتائیں کہ ان پر کیوں اعتماد کیا جائے، وہ تو ہمیشہ حقائق کو خفیہ رکھتے ہیں۔
bari bari sab kay parday chaak karo......
سلام
جن کے پردے چاک کرنے کی خواہش ہے ان کے نام بھی فاش کر دیں بھائی۔
پاکستان (تباہی کے دہانے) پر۔ ڈیسنٹ انٹو کے اوس Decent into Chaos بھی معلوماتی کتاب ہے لیکن مذاکرات کی تفصیلات مذکورہ بالا کتاب میں زیادہ ہیں۔ جس کتاب کا حوالہ آرٹیکل میں ہے وہ 2008ء میں شایع ہوئی تھی لیکن پاکستان اون دی برنک مارچ 2012ء میں شایع ہوئی، اس لئے تب تک کی تفصیلات اس میں درج ہیں۔ قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔ التماس دعا۔۔۔عرفان علی
مذاکرات کی تفصیلات Pakistan on the Brink میں ہیں۔ احمد رشید کی کتاب جس کا حوالہ دیا گیا وہ یہ کتاب ہے۔ پچھلی وضاحت میں پہلا جملہ شاید کٹ گیا ہے۔
اس لئے نوٹ فرمالیں۔
منتخب
ہماری پیشکش