1
0
Sunday 17 Aug 2014 16:44

لانگ مارچ کے مطالبات کا جائزہ

لانگ مارچ کے مطالبات کا جائزہ
تحریر: سید اسد عباس تقوی

اسلام آباد کا طبعی درجہ حرارت کم اور سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اپنے اتحادیوں کے ساتھ اسلام آباد میں پہنچ چکے ہیں۔ ان جماعتوں کے مارچ کو روکنے کے لیے حکومت نے بہت سی کوششیں کیں، ہر حربہ استعمال کیا گیا، تاہم عوامی قافلے اسلام آباد پہنچ ہی گئے۔ اس حوالے سے ملک کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں تعریف کی مستحق ہیں، جنہوں نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے ممکنہ تصادم کی صورتحال کو رفع کیا۔ تحریک انصاف، عوامی تحریک اور ان کی اتحادی جماعتوں کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس تحریک کو مکمل طور پر پرامن رکھا اور ملکی وسائل نیز تنصیبات کو کوئی نقصان نہ پہنچایا۔ صورتحال تاہم اب بھی گھمبیر ہے، تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک اور ان کی اتحادی جماعتیں جو ایجنڈا اور مطالبات لے کر اسلام آباد آئے ہیں، ان پر تاحال پیشرفت کی جانا باقی ہے۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے مارچ پر روانگی سے قبل جن نکات پر اتفاق کیا درج ذیل ہیں:
ا۔ جدوجہد جمہوری انداز میں آگے بڑھائی جائے گی۔
ب۔ جدوجہد آئینی اور قانونی طور پر آگے بڑھے گی۔
ج۔ جدوجہد عدم تشدد پر مبنی ہوگی۔
د۔ جدوجہد کے دوران کسی غیر آئینی اقدام (مارشل لاء) کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے انقلاب مارچ سے خطاب کے دوران پانچ مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اسے پورا کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ انکے پانچ مطالبات یہ تھے۔
1۔ وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب استعفٰی دیں۔
2۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں فوری تحلیل کی جائیں۔
3۔ تین سال کیلئے قومی حکومت قائم کی جائے۔
4۔ کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا مکمل اور کڑا احتساب کیا جائے۔
5۔ 10 نکاتی سماجی بہبود اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا جائے۔

10 نکاتی سماجی بہبود اور اصلاحات کا ایجنڈا
1) یہ حکومت ہر بے گھر کو گھر دیگی اور اس کیلئے آسان قرضہ دیا جائیگا، جو پچیس سال میں ادا کرنا ہوگا۔
2) سرکاری ہسپتالوں میں کم آمدنی والے افراد کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کیلئے ہیلتھ پالیسی مرتب کریگی۔
3) ہر بچے اور بالغ کو الگ الگ مفت لازمی تعلیم دی جائیگی۔
4) کم وسائل والوں کو آٹا، چینی، گھی، چاول، دودھ، دالیں، سادہ کپڑے اور دیگر بنیادی ضروریات آدھی قیمت پر فراہم کی جائینگی۔
5) پہلے مہینے پانی اور بجلی کے بل نصف ہونگے۔
6) خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے اور انہیں معاشی تحفظ دینے کیلئے ہوم انڈسٹری کو فروغ دیاجائیگا۔
7) سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ڈھانچے پر نظرثانی کریگی۔
8) مذہبی منافرت کے خاتمے کیلئے آئینی ترمیم کے تحت کسی بھی فرقے کو کافر قرار دینے پر پابندی لگائی جائے گی۔
9) اقلیتوں پر کسی کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائیگی اور ایسا کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائیگا۔
10) قومی حکومت ہزارہ، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں انتظامی بنیادوں پر 23 صوبے بنائیگی۔

عمران خان کا موقف ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں چونکہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، لہذا موجودہ حکومت عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ وہ چودہ ماہ سے اس دھاندلی کے خلاف مختلف آئینی و قانونی اداروں سے رجوع کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق اب تک الیکشن کمیشن نے جن 14 حلقوں میں ووٹوں کی جانچ پڑتال کی ہے، میں ساٹھ ہزار سے ستر ہزار ووٹوں کا ہیر پھیر نظر آیا ہے۔ کہیں بیلیٹ پیپر پر انگوٹھے نہیں لگے اور کہیں ایک ہی انگوٹھا کئی کئی بیلیٹ پیپرز پر چسپاں ہے۔ ایسے میں عمران کہتے ہیں کہ ان انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔

لہذا ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فی الفور مستعفی ہو، دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں اور ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حکومت کا خاتمہ وہ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کے تحت دھاندلی کی تحقیقات اور انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد کیا سیٹ اپ ہو، اس بارے میں تاحال عمران کوئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ٹیکنوکریٹس کی نگران حکومت قائم ہو، پھر ان کا کہنا تھا کہ غیر سیاسی حکومت ہو۔ اس حوالے سے ان کا حتمی موقف یقیناً آج اپنے اراکین سے مشاورت کے بعد ہی سامنے آئے گا، تاہم وہ اس بات پر مصر ہیں کہ حکومت فی الفور ختم ہو۔

اگر ان دونوں گروہوں کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ طاہرالقادری اور ان کی اتحادی جماعتوں کا چارٹر آف ڈیمانڈ بنیادی طور پر حکومت کے خاتمے کے بعد وقت کے حصول کے نظریئے پر قائم ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اتحادی چاہتے ہیں کہ انہیں تین سال کی مدت ملے، جس میں وہ انتخابات میں وارد ہونے کی مکمل تیاری کرسکیں۔ جہاں تک ان کے دیگر مطالبات جو ذکر کئے گئے ہیں، کا تعلق ہے تو ان کی نوعیت دو قسم کی ہے۔ پہلی قسم قومی فلاح و بہبود سے متعلق ہے جبکہ دوسری قسم آئینی امور سے متعلق ہے۔ جہاں تک فلاحی امور کا تعلق ہے تو ان پر عمل درآمد کے لیے عبوری حکومت کو بہت سے وسائل درکار ہوں گے، تاکہ وہ لوگوں کو بلوں، اشیائے صرف، ادویات اور تعلیم میں سبسڈی دے سکے۔ جہاں تک آئینی نوعیت کے معاملات کا تعلق ہے تو اس میں سے بہت سے امور ایسے ہیں جس پر آئین پاکستان کے تحت اس متوقع حکومت کو اقدام کا اختیار ہی نہیں ہے۔

نئے صوبوں کی تشکیل، آئین پاکستان میں تبدیلی یا ترمیم عبوری حکومتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، یہ کام اسی وقت کیا جاسکتا ہے جس وقت پاکستان میں ایک آئینی اسمبلی موجود ہو۔ آئین میں تبدیلی کا طریقہ کار خود اس مسودے میں درج ہے، جس کے خلاف کوئی اقدام قابل قبول نہیں۔ اگر یہ مطالبات موجودہ حکومت سے ہیں تو اس کے لیے قادری صاحب اور ان کی اتحادی جماعتوں کو چارٹر آف ڈیمانڈ سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اگر قادری صاحب یہ سمجھیں کہ میرے تمام تر مطالبات کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو اس کے لیے انہیں مزید جدوجہد اور عوامی رسوخ کی ضرورت ہے۔ ان کے جلسے میں موجود لاکھوں افراد کو پاکستانی عوام کی مکمل نمائندگی نہیں کہا جاسکتا۔ انقلاب بہر حال انقلاب ہی ہوتا ہے، جس میں ملک کی ایک بڑی اکثریت نظام کو بدلنے کے لیے امڈ آتی ہے۔ انقلابی جدوجہد میں آئین اور قانون کے سہارے نہیں لیے جاتے، بلکہ یہ جدوجہد موجودہ نظام سے اظہار برات اور اس کی مکمل بیخ کنی کے لیے کی جاتی ہے۔

رہا عمران کے مطالبات کا سوال تو وہ فوری انتخابات کے حامی ہیں، تاہم اس کا آئینی و قانونی طریقہ کیا ہوسکتا ہے جس میں الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، دھاندلی کے عمل کی تحقیق اور احتساب نیز نئے انتخابات وغیرہ جیسے امور شامل ہیں کو قابل عمل بنایا جائے، تاحال ناپید ہے۔ بہرحال اس ساری صورتحال کا حل ملک کی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات اور کسی متفقہ حل پر پہنچنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ یہ تحریک عمومی طور پر ملک کے سیاسی عمل کو مضبوط کرنے کے عنوان سے نہایت اچھی تحریک ہے، جس سے یقیناً کچھ مثبت تبدیلیاں ضرور آئیں گی۔ تاہم اگر اس تحریک میں کسی بھی موڑ پر کوئی مذاکراتی ڈیڈ لاک پیدا ہوتا ہے تو پھر حالات پیچیدہ ہوجائیں گے۔ خدا ہمارے ملک کو ہر قسم کی آئینی و قانونی پیچیدگیوں سے بچائے اور عوام کو امن و سکون کی فضا میسر فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 405252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

long march mulk kay mufad may nahe
ہماری پیشکش