0
Friday 31 Oct 2014 18:21

پاکستان کی سرحدی صورتحال اور پاک فوج کا عزم

پاکستان کی سرحدی صورتحال اور پاک فوج کا عزم
تحریر: تصور حسین شہزاد

دہشت گردوں کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن کے تسلسل میں ہی کے پی کے، کے علاقے خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے دوران ایک چھڑپ میں 21 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے جبکہ 8 سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ فضائی کارروائی میں بمباری سے 20 دہشت گرد ہلاک اور ان کے 4 ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے۔ قبل از پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے وادی تیرہ کے علاقہ اکا خیل میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو نشانہ بنایا، بمباری سے 20 دہشت گرد ہلاک اور 8 زخمی ہوئے جبکہ ان کے 4 ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے۔ دریں اثنا آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پشاور کا دورہ کیا اور شہید ہونے والے اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ سربراہ پاک فوج نے سی ایم ایچ میں زخمی جوانوں کی عیادت بھی کی اور جوانوں کے بلند حوصلے کو سراہا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔

فوجی ترجمان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جس طریقے سے اندرونی بیرونی ناموافق حالات میں دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں، اس پر اسے خراج تحسین پیش کرنا واجب ہے، کیونکہ مسلح افواج کو اس نازک ترین مرحلے پر جس قسم کی عوامی حمایت فراہم کرنا ہماری سیاسی قیادت کی ذمہ داری بنتی تھی، مقام افسوس ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اس کا احساس نہیں کیا بلکہ سیاست دانوں کی باہمی سر پھٹول سے عوام کی توجہ بٹ کر رہ گئی اور عام آدمی بھی اس اہم ترین عسکری کارروائی کی طرف سے بے خبری کی حد تک غافل رہا، جبکہ دہشت گردی کیخلاف آپریشن ضرب عضب دراصل ملکی بقا اور قومی سلامتی کی سب سے بڑی معرکہ آرائی ہے، جس کے بارے میں میڈیا کو بھی عوامی آگاہی مہم چلا کر قوم کو فوج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ترغیب دینے کا فریضہ انجام دینا چاہیے تھا، لیکن برا ہو سیاست دانوں کے رویے کا، جس کے باعث قومی تاریخ کے نازک موڑ پر بھی سیاست چمکائی۔ لیکن ادھر فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور ادھر مخصوصی سیاست دانوں نے ایشوز کھڑے کر دیئے، جس کو ضرب عضب کیخلاف سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فوج نے نہ صرف آئی ڈی پیز کے ساتھ مکمل تعاون کیا بلکہ ان کے لئے کیمپوں کا قیام اور ان کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی فوج نے ہی سرانجام دیا۔

ادھر ہمارے پڑوسی ملک افغانستان نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے دہشت گرد افغان سرزمین میں داخل ہو کر اس کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ سوات سے بھاگ کر افغانستان جانے والے دہشت گردوں کو، ملا فضل اللہ کی قیادت میں مجتمع ہونے کے لئے افغان حکومت نے اپنی سرزمین پر خفیہ اڈے بنانے کی اجازت اور سہولت دی اور اب شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تو یہاں سے فرار ہو کر افغانستان جانے والوں کو بھی افغان حکمرانوں نے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس تناظر میں عسکری ترجمان کا یہ کہنا بجا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے اہداف حقیقی معنوں میں حاصل کرنے کے لئے افغان حکومت کا تعاون ناگزیر ہے جو نہیں مل رہا۔ وزیرستان سے بھاگنے والوں نے سرحد پار افغان علاقوں میں پناہ لے لی اور وہاں سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔ مگر ان کے خلاف کارروائی کے لئے افغان حکومت کوئی تعاون نہیں کر رہی۔

پشاور میں پریس بریفنگ کے دوران ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد طالبان کی اعلٰی قیادت افغان صوبہ کنٹر سے مسلسل پاکستان میں کارروائیاں کر رہی ہے جبکہ آپریشن سے پہلے افغان حکومت نیٹو اور ایساف کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دہشت گردوں کے قلع قمع کے لئے افغان حکومت نے پاکستان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جبکہ افغان موبائل فون سمیں بھی پاکستان کی سکیورٹی کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت کئی بار افغان حکومت سے کہہ چکی ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان سرحدوں سے متصل علاقے میں نصب غیر ملکی کمپنیوں کے موبائل فون ٹاور ہٹائے جائیں تو سرحدوں کے درمیان پھیلے دہشت گردوں کو باہم رابطہ کاری کی سہولت کا موثر ذریعہ ہیں اور قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا سبب بنتے ہیں، لیکن افغانستان کے فوجی و سول حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ساری منفی کارروائی کے پس پردہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں جو ایک طرف مشرقی طرف سے پاکستان اور کشمیر کی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں سے پاک فوج کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی سازش میں مصروف ہیں تو دوسری جانب وہ مغربی سرحد پر بھی شورش کی سرپرستی کرکے پاکستان کیخلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران دہشت گردوں سے 132.5 ٹن بارود اور 12 ہزار سے زائد ہتھیار اور دیگر جنگی ساز و سامان برآمد کیا گیا۔ یہ غیر ملکی ساختہ اسلحہ پاکستان دشمن قوتوں نے انہیں فراہم کیا تھا، تاکہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے اسے اندرونی طور پر کمزور کیا جاسکے۔ ظاہر ہے یہ دشمن بھارت کے سوا کون ہوسکتا ہے، جس نے افغانستان میں پاکستان دشمن لابی کی مدد سے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حدود میں اپنی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔ جہاں سے دہشت گردوں کو تربیت دے کر اسلحہ و گولہ بارود سے لیس کرکے پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ پاک فوج پوری جواں مردی کے ساتھ ملکی و غیر ملکی دشمنوں سے برسر پیکار ہے۔ خیبر ایجنسی میں آپریشن کی وجہ بھی یہی ہے کہ وزیرستان سے بھاگ جانے والے دہشت گرد یہاں پناہ لے رہے تھے۔ عسکری قیادت ان دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے پرعزم ہے۔ اب یہ ہماری قومی سیاسی قیادت عوام اور ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم ترین مشن کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لئے عساکر پاکستان کی دامے، درہے، سخنے اعانت کے لئے ایک ہوجائیں۔ بھارت جیسا ازلی دشمن سرحدی کشیدگی پیدا کرکے آپریشن متاثر کرنے کے درپے ہے، لیکن پاک فوج واضح کرچکی ہے کہ وہ دشمن کا یہ حربہ کار گر نہیں ہونے دے گی اور مشترقی سرحدوں کی صورت حال کے باوجود قبائلی علاقوں میں فوج کی تعداد کم نہیں کی جائے گی۔ قوم کو اپنی اور وطن کی بقاء کے لئے فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 417401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش