0
Sunday 5 Jun 2011 19:36

پی این ایس مہران حملہ کے بعد عسکری قیادت پر تنقید اور سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

پی این ایس مہران حملہ کے بعد عسکری قیادت پر تنقید اور سیاسی جماعتوں کا ردِعمل
تحریر:عامر حسینی
پی این ایس مہران پر حملے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایک مرتبہ پھر پاکستان زبردست بحث و مباحثے کا مرکز بن گیا ہے۔ نیوی کے بیس پر عارضی قبضہ اور اس قبضے کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصان کے تناظر میں یہ بحث سامنے آئی ہے کہ کیا پاکستان کے دفاعی اثاثے خاص طور پر ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اس حملے کے فوراً بعد سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے جو بیان جاری ہوا اس میں اگرچہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کی گئی تھی، لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر انٹیلی جنس کی ناکامی اور سکیورٹی پلان میں موجود خامیوں پر اظہار تشویش بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ حملے کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت کئی ملکوں کے اخبارات و جرائد نیز ٹی وی چینلز پاکستان میں ہونے والی اس دہشت گردی کے بڑے واقعے کو جس انداز سے دیکھ رہے ہیں اس میں ملک کی دفاعی فورسز، خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دفاعی اداروں میں دہشت گردوں کے حامیوں کے موجود ہونے کی بات بھی تواتر سے کی جا رہی ہے۔ پاکستان پر دباؤ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط لابی اپنی اپنی حکومتوں پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت اور پاکستان کے ریاستی اداروں میں موجود تحریک طالبان اور القاعدہ کے دوستوں کو نکالنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
حکومت اور آرمی کی طرف سے اگرچہ کبھی اعلانیہ یہ اعتراف نہیں کیا گیا کہ تحریک طالبان اور القاعدہ وغیرہ کو ریاستی اداروں کے اندر سے مدد مل رہی ہے لیکن پی این ایس مہران بیس پر حملے کے بعد دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی مرتبہ سکیورٹی اداروں میں انتہا پسندوں کے حامیوں کو نکال باہر کرنے پر غور کیا گیا۔ ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ دفاعی کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے شرکاء نے سکیورٹی اداروں اور خفیہ اداروں میں اعلانیہ کسی جانچ پڑتال کی مہم کو خارج از امکان قرار دیا۔ عسکری قیادت کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش انتہا پسندوں کے فوج کی قیادت کے خلاف اس پروپیگنڈے کو وسعت دے گی کہ افواج پاکستان کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں سینیٹر جان کیری اور مارک گراسمین کے دوروں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ چاہے تو سراج حقانی نیٹ ورک کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے سویلین قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ سے مل کر انہیں اس بات پر قائل کریں کہ اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔
ادھر سینیٹر جان کیری نے سینیٹ کو اس حوالے سے خصوصی بریفنگ بھی دی ہے۔ امریکی سینیٹ میں اس حوالے سے جو بحث ہوئی اس میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے کئی سینیٹرز نے اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کیا۔ کیری لوگر بل تیار کرنے والے سینیٹر رچرڈ لوگر، جو کہ سینیٹ کی کمیٹی کے لیے فارن ریلیشن کے طاقت ور رکن بھی ہیں، نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے اسامہ بن لادن کی ٹیپ اور ڈاکٹر قدیر خان نیٹ ورک کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی افواج کا مورال دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں گر گیا تو ایٹمی اثاثے کسی کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔
پاکستان کے صدر، وزیر اعظم، وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اگرچہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت بارے خوب بیان دیئے، لیکن دباؤ ابھی تک برقرار ہے۔ پی این ایس مہران بیس پر حملے کے بعد داخلی سطح پر بھی فوج اور آئی ایس آئی پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ دفاعی بجٹ پر بھی پہلی مرتبہ عوامی حلقوں سے بھی تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اندر بھی نچلے رینک کے لوگوں میں پریشانی موجود ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ماہر مائیکل ہربرٹ نے صورت حال کا بڑی خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ریاست ڈھانچہ جاتی بحران کا شکار ہے اور ریاستی ادارے ایک طرف تو باہمی تنازعوں میں اُلجھے ہوئے ہیں جبکہ ان اداروں کے اندر بھی تقسیم نظر آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سویلین سکیورٹی اداروں کا مورال تو ویسے ہی بہت گرا ہوا تھا، فوج اور خفیہ اداروں کو لوگ کچھ سمجھتے تھے، اب ان پر سے بھی اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
فوج اور ایجنسیوں پر دباؤ کی شدت میں اضافے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی روش بھی بہت زیادہ محتاط ہے اور بعض جگہوں پر وردی والی نوکر شاہی کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ مساجد اور مدارس کے اندر بھی پہلی مرتبہ عسکری قیادت شدید تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ایسے میں اگرچہ صدر مملکت آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی سمیت حکومت کے اعلیٰ عہدے دار فوجی عسکری قیادت کا دفاع کر رہے ہیں لیکن خود حکومت کی اتحادی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ وغیرہ اس واقعے میں عسکری قیادت سمیت سارے حکمران طبقات کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (نواز) کے قائد میاں نواز شریف تو انتہا پر جا کر پی این ایس مہران سانحے کی بنیاد پر فوج کے اعلیٰ افسران سے استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عسکری اور سویلین قیادت کیا ایک ہی موقف کی حامل ہیں۔؟ اس سوال کا جواب محتاط اندازے سے یہ دیا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی سطح پر پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسی چیز نے اس کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ (نواز) کو پریشان کر رکھا ہے۔ خود پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر مسلم لیگ (قائد) سے اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ سے مضبوط ہوتے رشتوں پر سخت عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ وزیر دفاع چودھری احمد مختار کے امریکہ چلے جانے اور ان کے استعفیٰ دینے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ جبکہ سویلین حکومت تاحال عدلیہ سے اپنی محاذ آرائی ترک کرنے پر تیار نہیں ہوئی۔ ایسے میں ریاست کے ڈھانچے بارے تشویش بجا نظر آتی ہے۔ حکمران طبقات کی باہمی تقسیم اور اداروں کی باہمی ناچاقی کے اس ماحول میں پارلیمنٹ سے بھی لوگوں کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اس ماہ میں ہیلری کلنٹن کا دورہ کسی امریکی بڑے اہلکار کا دورہ ہے۔ اس سے قبل سینیٹر جان کیری اور مارک گراسمین بھی دورہ کر چکے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اسلام آباد میں عسکری و سویلین قیادت سے ملاقاتوں کے دوران پاکستان سے کہا کہ وہ امریکی توقعات پر فیصلہ کن اقدامات کرے، جو ماضی میں نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے بھی پاکستان کی قیادت پر زور دیا کہ وہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرے، جبکہ ریاستی اداروں میں چھپے انتہا پسندوں کو بے نقاب کرے۔
عسکری قیادت انتہا پسندوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار محسوس ہوتی ہے۔ جبکہ سویلین حکومت عسکری قیادت پر زور دے رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کرے۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد والے سانحے کے بعد پارلیمنٹ میں جو ان کیمرا اجلاس ہوا اور بعدازاں جو قرارداد پاس ہوئی، پے در پے امریکی ڈرون حملوں نے اس قرارداد کو معطل کر دیا۔ اس عمل سے سویلین یا فوجی حلقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی جماعتیں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اس صورت حال کو کیش کرا کے موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مڈٹرم الیکشن کی آواز پھر سنائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) بھی اس مطالبے کے گرد گھوم رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 76961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش