0
Wednesday 8 Jun 2011 07:06

پاک فوج میں شدت پسندوں کا نفوذ اور نقصانات (3)

پاک فوج میں شدت پسندوں کا نفوذ اور نقصانات (3)
تحریر:سید علی شیرازی
الیاس کشمیری پاکستان کی "جہادی اسٹبلشمنٹ" کا اہم مہرہ رہا۔ معروف کالم نویس عامر خاکوانی نے 1999ء میں الیاس کشمیری سے ملاقات کی اور انہیں یادداشتوں پر مشتمل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں "الیاس کشمیری نے البتہ زور دے کر کہا کہ ہم پاکستان کے اندر کسی گڑبڑ کے شدید مخالف ہیں، پاکستان ہمارا ملک ہے اور گوریلا جدوجہد کا بیس کیمپ ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں دسٹرب نہیں کیا جائے گا کیونکہ گوریلے سب سے زیادہ حفاظت اپنے بیس کیمپ کی کرتے ہیں"
9/11 کے بعد پاکستانی یوٹرن کی وجہ سے کل کے حلیف، آج کے شدید حریف بن گئے۔ کیا ہوا اس کی جمع بندی آخری حصے کے لئے چھوڑ دیں۔ مگر پہلے آئیں اس بیس کیمپ کے مبینہ "محافظ گوریلے" اور اس کے گروپ کی پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کاروائیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
دسمبر 2003ء میں جنرل پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے کئے گئے۔ پہلے حملے میں جھنڈا چیچی پل راولپنڈی پر پرویز مشرف کے کانوائے کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسرے حملے میں دو خودکش حملہ آوروں نے پرویز مشرف کو مارنے کی کوشش کی۔ لیکن دونوں حملوں میں مشرف بچ نکلا۔ اسی گروپ نے فتح جنگ کے نزدیک پرویز مشرف دور کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو انتخابی جلسے میں خودکش حملے میں مارنے کی کوشش کی۔ مذکورہ بالا حملوں کے بعد ملٹری انٹیلجنس نے اس گروپ کے بعض ارکان کو گرفتار کر لیا جن میں الیاس کشمیری، سارجنٹ میجر اسلام الدین شیخ عرف عبدالسلام صدیقی، اسٹاف سارجنٹ ائیر فورس مشتاق احمد، حوالدار 98 ائیر ڈیفنس محمد یونس، ایس ایس جی نائیک ارشد محمد، زبیر احمد، غلام سرور بھٹی اور اخلاص احمد شامل ہیں جبکہ مارے جانے والوں میں امجد فاروقی شامل تھا۔  الیاس کشمیری کو بچانے کے لئے یہاں پر "جہادی اسٹبلشمنٹ" متحرک ہو جاتی ہے اور اتنے اہم کیس میں الیاس کشمیری کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
2008ء میں پرویز مشرف کے طیارے پر اینٹی ائیر کرافٹ سے فائرنگ کی سازش۔
فروری 2008ء میں لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ کا قتل۔
19 نومبر 2008ء کو میجر جنرل فیصل امیر علوی کا قتل۔
21 جنوری 2009ء کو شیخ زید ہاسپیٹل کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر صبور ملک کا قتل۔
مارچ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر لاہور کے علاقے لبرٹی چوک میں حملہ۔
10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو روالپنڈی پر حملہ، جس میں الیاس کشمیری گروپ کا اہم کمانڈر عقیل عرف ڈاکٹر عثمان گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
22 اکتوبر 2009ء کو بریگیڈئیر معین الدین حیدر کا اسلام آباد، سیکٹر جی الیون میں قتل، بریگیڈئیر معین الدین  ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے طور پر بھی تعینات رہے اور انہیں وزیرستان آپریشن کا   اسٹریٹجک ماہر (the strategist of Waziristan operation) بھی کہا جاتا تھا۔
27 اکتوبر 2009ء کو بریگیڈئیر وقار پر قاتلانہ حملہ۔
2 نومبر 2009ء کو بریگیڈئیر سہیل پر فائرنگ اور قتل۔
4 دسمبر 2009ء کو پریڈ لائن روالپنڈی مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ
22 مئی 2011ء کو کراچی میں پی این ایس مہران بیس پر حملہ۔
 آفیسرز پر ہونے والے حملوں کے باہمی تعلق کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، واضح طور پر یہ مارے جانے والے، فوج میں اینٹی طالبان عناصر تھے۔ جنہیں بڑی مہارت سے چن چن کر مارا گیا۔ جیسا کہ کالم کی ابتدائی سطروں میں بتایا گیا ہے کہ 9/11 کے بعد پاکستانی یوٹرن نے کل کے حلیف جہادیوں کو شدید حریف میں تبدیل کر دیا۔ لیکن یہ تمام اسٹبلشمنٹ کا یو ٹرن نہیں تھا، بلکہ کہیں بہت اندر اور گہرائی میں اس یوٹرن کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی۔ یہ "یو ٹرن سے متنفر" بڑی مہارت سے جہادیوں کو اینٹی طالبان عناصر کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ آج بھی یو ٹرن لینے والوں کو مسلسل احساس دلوا رہے ہیں کہ ملک کی بقا مبینہ "جہادی" پالیسیز کے استمرار میں ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق تین جون رات گیارہ بجے جنوبی وزیرستان میں وانا بازار سے تقریباً بیس کلومیٹر دور غواخواہ نامی مقام پر سیبوں کے باغ میں چائے پینے والے کچھ دہشت گردوں پر ڈرون طیارے نے 4 میزائل فائر کئے۔ ان ہل فائر (Hellfire) نامی میزائلوں کے حملے میں نو افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد پنجابی تھے اور اُن میں ایک فرد کو الیاس کشمیری بتایا جا رہا ہے۔ مقامی نیوز ایجنسیز اور نیوز چینلز کسی نامعلوم سرکاری اہلکار کی طرف سے تصدیق بھی کر رہے ہیں کہ الیاس کشمیری ہلاک ہو چکا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے بریکنگ نیوز بھی چلائی کہ 313 بریگیڈ کی طرف سے ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ حالانکہ اس نجی ٹی وی چینل کو صرف ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کی فیکس موصول ہوئی ہے، جس میں ہنزلہ کاشر نامی شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ 313 بریگیڈ کا کمانڈر الیاس کشمیری شہید ہو چکا ہے اور ہم جلد اس کا انتقام امریکہ سے لیں گے۔
ایسے موقع پر جب پی این ایس مہران بیس، جی ایچ کیو، پریڈ لائن مسجد، سری لنکن ٹیم  وغیرہ پر حملوں اور متعدد طالبان مخالف فوجی آفیسرز اور اہلکاروں کے قتل میں ملوث الیاس کشمیری کی طرف انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں اور حساس اداروں پر دباو بڑھایا جا رہا تھا تو اچانک اس کی موت کی خبر مشہور کر کے اُسے بیک گراونڈ میں کیوں دھکیلا دیا گیا۔ حالانکہ متعدد شواہد موجود ہیں کہ الیاس کشمیری تین جون رات گیارہ بجے غواخواہ نامی مقام پر موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہ ہلاک ہوا ہے، کیا یہی "یو ٹرن سے متنفر" الیاس کشمیری کو مردہ ثابت کر کے اس اسٹریٹجک ایسٹ (strategic asset) کو بچانے کے چکر میں ہیں؟؟            اختتام
 
                          
خبر کا کوڈ : 77477
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش