0
Monday 29 Aug 2011 01:07

حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی، خطے پر مغربی تسلط کے خاتمے کا آغاز

حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی، خطے پر مغربی تسلط کے خاتمے کا آغاز
تحریر: سعداللہ زارعی
اسلام ٹائمز- مغربی ممالک، خطے میں کٹھ پتلی حکومتوں اور مصر کے فوجی حکام کی جانب سے حسنی مبارک اور اسکے خاندان کے خلاف عدالتی کاروائی پر راضی ہونے نے مصر کے عوامی انقلاب سے متعلق بہت سے حقائق کو آشکار کر دیا ہے اور مصر اور خطے کے دوسرے مسلمان عرب عوام کے اھداف کے بارے میں چہ مگوئیوں اور افواہوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
اس سے قبل مغربی دنیا انقلاب کے اصلاحی پہلو پر زور دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف تھی کہ مصری عوام صرف حسنی مبارک کے دوران صدارت کے طولانی ہونے اور جمہوری حکومت کے آمرانہ حکومت میں بدل جانے پر ناراضی ہیں اور اس ناراضگی کا حکومت کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات یا اپنے عوام سے تعلقات کی نوعیت سے کوئی تعلق نہیں۔
خطے میں سعودی عرب اور اردن جیسی کٹھ پتلی حکومتیں بھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں کہ عرب عوام کی انقلابی تحریکیں صرف اور صرف گذشتہ سیاسی نظام کی بہبود اور بعض عیوب و نواقص کی برطرفی کی خاطر معرض وجود میں آئی ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ عوام موجودہ اقدار یا حکومتی خصوصیات کا انکار کر رہے ہوں۔
لہذا یہ ممالک مصر میں امر موسی اور محمد البرادعی، تیونس میں محمد الغنوشی اور بحرین میں شہزادہ سلمان بن خلیفہ جیسے چہروں کے پسندیدہ ہونے پر زور دیتے رہے لیکن حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی نے ان سب باتوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اس بارے میں چند نکات اہم ہیں:
۱۔ حسنی مبارک پر چاہے جس جرم میں یا جس وجہ سے مقدمہ چلایا جائے بہرحال ایسے شخص یا حکومت پر مقدمہ ہے جو 1975 سے بے چون و چرا مغرب اور صہیونیستوں کی نوکری کرنے میں مصروف تھا۔
مصری حکومت نے 1975 سے 2010 تک اس قدر مخلصانہ انداز میں مغربی دنیا کی نوکری کی کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے ایک بلندپایہ افسر نے اسے اسرائیل سے زیادہ صہیونیستی حکومت قرار دیا اور حسنی مبارک اور عمر سلیمان جیسے افراد کی موجودگی کو اسرائیل کی بقا کی ضمانت قرار دیا۔
حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی بلاشک ایسی حکومت کے خلاف عدالتی کاروائی ہے جس نے اپنی قوم کے مفادات کو قوم کے دشمنوں کے مفادات کی خاطر قربان کر دیا۔ یہ عدالتی کاروائی سیاسی، معاشی اور سیکورٹی پہلووں کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے چند روز قبل اسرائیل کے ایک معروف تجزیہ نگار نے اعلان کیا ہے کہ حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد خطے میں اسرائیل کی سابقہ پوزیشن کا بحال ہونا ناممکن ہے۔
یہ عدالتی کاروائی خطے میں حسنی مبارک جیسی دوسری حکومتوں کو یہ پیغام دیتی نظر آتی ہے کہ مغربی دنیا سے وابستگی اور اپنے مسلمان عوام سے دشمنی ان کٹھ پتلی حکمرانوں کیلئے وحشت ناک انجام کا باعث بنے گا۔
آہنی پنجرے میں بند مصر کے کٹھ پتلی حکمران پر کرپشن اور دوسرے جرائم کی خاطر مقدمے نے سعودی عرب، اردن، مراکش اور دوسری حکومتوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور ان ممالک کے حکمران ابھی سے ہی مغربی دنیا کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے سے پہلے سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے میں مغربی دنیا کے تسلط کا فوری طور پر خاتمہ شروع ہو گیا ہے۔
۲۔ حسنی مبارک 1970 کی
دہائی کے شروع اور جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد سے ہی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو گئے۔ وہ اس سے قبل مصر کے ائر چیف مارشل تھے۔
مصر 1948 سے لے کر 1975 تک جب انور سادات نے تل ابیب کا دورہ کیا، مغربی دنیا اور اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں عالم عرب کا جنرل ہیڈکوارٹر اور اگلا مورچہ تھا۔ لیکن چونکہ مصر کے سیاسی رہنما ملک میں موجود توانائیوں خاص طور پر اسلام پسند قوتوں سے صحیح طور پر استفادہ نہ کر پائے لہذا مغرب کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور 1967 کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد عملی طور پر جمود کا شکار ہو گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ انور سادات نے مصر اور مغربی دنیا کے درمیان تمام تنازعات کو ہمیشہ کیلئے حل کروانے کا فیصلہ کر لیا اور 1973 کی خفیہ جنگ کا پلان بنایا۔ وہ اس طرح سے صحرای سینا اور "تابا" کے علاقے کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن پھر اچانک ہی انور سادات نے اپنی فوج کو ان دونوں علاقوں سے باہر نکال لیا اور دوطرفہ مذاکرات کی بات کرنے لگے۔
اسکے بعد سے مصری حکومت عرب خطے میں مغربی دنیا اور اسرائیل کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی۔ مصر کے معروف محقق جناب فھمی ھویدی نے کیا خوب کہا ہے کہ گذشتہ تین عشروں میں اسرائیل کی بقا اور اسلام پسند قوتوں کے مقابلے میں اسکی مزاحمت قاہرہ کی خاص عنایتوں کی مرہون منت ہے۔
حسنی مبارک، اسکے خاندان اور وزیر داخلہ کے خلاف عدالتی کاروائی درحقیقت اس 35 سالہ تاریخی سفر کے خلاف کاروائی ہے جو 1975 میں انور سادات کے تل ابیب دورے سے شروع ہوا اور 2010 تک جاری رہا۔
اس عدالتی کاروائی نے ثابت کر دیا کہ گذشتہ تاریخ برعکس ہو چکی ہے اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل سے روبرو ہے۔
۳۔ حسنی مبارک اور انکے خاندان کے خلاف عدالتی کاروائی نے ثابت کر دیا کہ امریکہ اور یورپی ممالک کا مصر میں اثر و رسوخ تقریبا مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
حسنی مبارک کو ایسے وقت قاہرہ کے ایک کالج میں عدالتی کاروائی کیلئے لایا گیا جب اولا انکی سرنگونی کو 6 ماہ گزر چکے ہیں اور یہ چھ ماہ ایک کٹھ پتلی حکمران کی نسبت عوام کے غم و غصے کے خالی ہونے کیلئے کافی تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دوما یہ کہ حسنی مبارک کی بیماری امریکہ کیلئے اچھا بہانہ بن سکتا تھا تاکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے عدالتی کاروائی کو رکوانے یا اسے موخر کرنے کیلئے موثر اقدام انجام دیتا لیکن وہ اس کام میں بھی کامیاب نہ ہو سکا اور حسنی مبارک انتہائی کو حقارت کے ساتھ اپنے خلاف عدالتی کا سامنا کرنا پڑا۔
حسنی مبارک کی سرنگونی سے لے کر اب تک کئی امریکی حکام انہیں عدالتی کاروائی سے بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور جدید مصری حکومت پر بھی شدید قسم کا دباو ڈال چکے ہیں۔ اس مدت میں کم از کم 30 امریکی سفارتی وفد اور دسیوں یورپی وفد مصر کا دورہ کر چکے ہیں اور مختلف سیاسی شخصیات، جماعتوں اور مراکز سے رابطہ قائم کرنے کے بعد یہ کوشش کر چکے ہیں کہ سابقہ مصری حکام کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جائے لیکن انکا یہ کم از کم مطالبہ بھی پورا نہ کیا گیا۔ جب انکا مطالبہ مسترد کر دیا گیا تو سب پر واضح ہو گیا کہ مصر اور دوسرے انقلابی عرب
ممالک میں مغرب کا اثر و رسوخ اب مزید باقی نہیں رہا۔
دوسری طرف حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی نے ثابت کر دیا کہ مصر کے سیاسی میدان میں نئی قوتیں ابھر کر سامنے آ چکی ہیں جنکو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ قوتیں گذشتہ دور کی سیاسی قوتوں پر باسانی غلبہ پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
۴۔ حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی شروع ہونے سے چند روز قبل مصر کی فوج اور سیکورٹی فورسز نے قاہرہ، اسکندریہ اور دوسرے شہروں میں احتجاج کرنے والے مصری شہریوں کے خلاف شدید رویہ اختیار کیا اور پولیس اور عام شہریوں کی یہ مڈبھیڑ عدالتی کاروائی شروع ہونے کے بعد مزید شدت اختیار کر گئی۔
ان جھڑپوں نے انقلاب کے اوائل میں مصری شہریوں کے ساتھ فوج کے اچھے رویے کو خدشہ دار کر دیا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران بعض تجزیہ نگار دعوی کرتے رہے ہیں کہ مصر میں عوامی انقلاب کی کامیابی میں مصر آرمی کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو اس حد تک کہنے لگے کہ مصری انقلاب کی حقیقی فاتح مصر آرمی ہے نہ مصری عوام۔ بعض دوسرے تجزیہ نگار یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ مصر میں انقلاب حسین طنطاوی کی سربراہی میں مصری فوج کی عمر سلیمان کی سربراہی میں مصری سیکورٹی فورسز پر برتری کی علامت ہے۔ البتہ مصری فوج کی جانب سے حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی کی مخالفت اور فوج اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ مذکورہ بالا تمام تجزیئے غلط تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصر پر حسنی مبارک کا 35 سالہ تسلط فوج اور سیکورٹی اداروں کی مکمل حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا لہذا حسنی مبارک اور اسکے خاندان کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطلب خود مصری فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف عدالتی کاروائی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف فوج کا شدید ردعمل اور دسیوں عام شہریوں کا زخمی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ مصر آرمی اس حقیقت کو درک کر چکی تھی۔
ایک اور اہم نکتہ جسکا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ مصری فوج اس موقع پر اسٹریٹجک غلطی کا شکار بھی ہوئی کیونکہ اسکی جانب سے حسنی مبارک کی حمایت کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر نہیں ہوا جبکہ اگر فوج اس موقع پر رسمی طور پر عوام کی حمایت کا اعلان کرتی تو فوجی کمانڈرز کیلئے انتہائی مقبولیت اور محبوبیت کا باعث بن سکتی تھی البتہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ خداوند عالم جو مدبر الامور ہے حقائق کو واضح کرتا ہے تاکہ حق اپنے حقدار تک پہنچ سکے۔
مصر آرمی کی جانب سے عوام کی مخالفت کے مدنظر ابھی سے یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مصر کا عوامی انقلاب بہت جلد مصری فوج، حکمفرما فوجی کونسل اور عصام شرف کی حکومت کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دے گا۔
آنے والے دن اور ہفتے مصری فوج کیلئے اہم انتخاب کے دن ہیں، عوام کے ساتھ مقابلے اور عوام کی حمایت کے درمیان انتخاب۔ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مصر کی حکمران فوجی کونسل اور اعلی فوجی کمانڈرز عوامی مطالبات کو پورا کرنے سے دریغ کریں جیسا کہ اب تک کئی بار عوام کی مخالفت کر چکے ہیں لیکن فوج کا بڑا حصہ اسکے برخلاف ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ مستقبل قریب میں فوج اور اسکی اعلی
قیادت کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے اور اس طرح فوج عوامی انقلاب کے مقابلے میں زیادہ موثر اقدام کرنے سے عاجز ہو جائے گی۔
۵۔ مغربی ممالک اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے انتہائی دکھ کے ساتھ ایسے ڈکٹیٹر کے خلاف عدالتی کاروائی کا نظارہ کیا ہے جسے وہ اپنا وفادار شخص سمجھتے تھے۔ انکے چینلز آہنی پنجرے میں بند ڈکٹیٹر کی تصاویر شائع کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ تصاویر خاص طور پر امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسی حکومتوں کیلئے انتہائی رسوائی کا باعث بنیں جو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ خطے کی سیاسی حالات انکے مکمل کنٹرول میں ہیں اور وہ مشرق وسطی میں غربی مفادات کے تحفظ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی ممالک یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رقباء اور اسی طرح خطے میں حسنی مبارک کے رقباء ایسی نئی دنیا کا نظارہ کر سکتے ہیں جس میں سید حسن نصراللہ اسرائیل کی طاقتور فوج پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور حسنی مبارک آہنی پنجرے میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور مغربی ممالک نہ حسن نصراللہ کی عزت کو کم کرنے پر قادر ہیں اور نہ ہی حسنی مبارک کو ذلیل اور رسوا ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
ان حالات کے تناظر میں گراہم فولر جیسے تجزیہ نگاروں کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ:
"مغربی تہذیب و تمدن کا دورہ اختتام پذیر ہو چکا ہے اور اسلام کی حکمرانی میں نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے"۔
درحقیقت حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی امریکہ کے تمام روایتی اور جدید حریفوں کیلئے ایک فرصت ہے۔ ایسے میں روس، بھارت اور چین جیسی بین الاقوامی قوتیں جنکے مفادات مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ سے وابستہ نہیں ہیں ایسی دنیا کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جس میں امریکہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے پر قادر نہیں ہے۔ یہ ممالک رسمی اور عمومی سفارتکاری سے متعلق اپنی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ عمومی سفارتکاری کا انتہائی واضح اور آسان راستہ اسلام پسند قوتوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا قیام ہے۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران روس اور بھارت کی رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب تمام ممالک انٹرنیشنل ریلیشنز میں اس عظیم تبدیلی کو درک کرنے لگیں گے۔
۶۔ حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کیلئے سب سے زیادہ رنج آور اور تلخ ثابت ہوئی ہے۔ عدالتی کاروائی شروع ہونے کا دن درحیققت اسرائیل کیلئے "قومی سوگ" کا دن تھا۔ حسنی مبارک اگرچہ ملت مصر کیلئے ایک ڈکٹیٹر تھا لیکن اسرائیل کیلئے ایک انتہائی وفادار دوست تھا۔ اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی کے بعد اردن کے ڈکٹیٹر اور دوسرے کٹھ پتلی حکمران جیسے محمود عباس کی حیثیت بھی ختم ہو چکی ہے لہذا اسے سخت حالات کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔
اسی وجہ سے حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کاروائی کے نتیجے میں آنے والے شدید سیاسی زلزلے کے آثار اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی ان گیدڑ بھبکیوں میں نظر آتے ہیں جو وہ غزہ یا جنوبی لبنان میں اسلامی مزاحمت کے خلاف مار رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 89320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش