0
Sunday 18 Mar 2012 12:57

مشرق وسطٰی کے بعض ممالک کی حکومتیں استعمار کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہیں، شیخ شوکت حسین

مشرق وسطٰی کے بعض ممالک کی حکومتیں استعمار کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہیں، شیخ شوکت حسین
جناب شیخ شوکت حسین ایک اعلٰی مرتبہ کے مربی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بےباک قلم کار بھی ہیں۔ شوکت حسین نے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی ملیشیاء میں بیس سال تک تدریس کے فرائض انجام دیئے اور اب آپ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ قانون میں ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل لاء پڑھاتے ہیں۔ جناب شیخ شوکت صاحب نے کشمیری عوام کی خاطر بہت حد تک زحمتیں برداشت کیں، آپ کا ماننا ہے کہ کشمیری لوگوں کی مظلومیت ابھی تک دنیا میں عیاں نہیں ہوئی، اس لئے آپ نے بارہا کشمیری مظلومیت کو منظر عام پر لانے کے لئے کاوشیں کیں، جس کے نتیجہ میں مسلسل عتاب و مشکلات سے دوچار ہوئے، یہاں تک کہ کشمیر کے لوکل میڈیا میں آپ کے مضامین نشر ہونے پر پابندی بھی عائد ہوئی، حق گوئی کے عوض آپ پر بھارتی سرکار کی جانب مختلف کیس بھی دائر کئے گئے۔

اسلام ٹائمز: شیخ صاحب اولاً ہم آپ کا تعارف و مصروفیت جاننا چاہیں گے۔؟
شوکت حسین: میرا نام شیخ شوکت حسین ہے، میں نے علی گڑھ مسلم یونیوسٹی سے ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور پی ایچ ڈی کیا ہے، میرا مقالہ ایل ایل ایم میں ہیومن رائٹس ان اسلام تھا اور پی ایچ ڈی میں میرا مقالہ نان مسلمز اِن اسلامک اسٹیٹس تھا، فی الحال میں یونیورسٹی آف کشمیر میں تدریس میں مصروف ہوں۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں پائی جانے والی موجودہ اسلامی بیداری کی شروعات کب سے ہوئی ہے۔؟
شوکت حسین: اصل میں اسلام خود ایک لہر ہے بیداری کی، اول اسلام سے ہی ہم نے اس کا آغاز ہوتے دیکھا ہے، سالہا سال تک مسلمان اس بنیادی نکتے کو فراموش کئے ہوئے تھے اور پھر اسلامی تعلیمات و دینی شعور نے مسلمانوں کو اپنی اصلیت کی جانب راغب کیا اور وہ آج سڑکوں پر آکر استعماری غلامی کی طوق گردنوں سے نکال پھینکتے ہیں، اگر ہم عالم اسلام میں حال میں پائی جانے بیداری کو دیکھیں تو اس کے پس پشت بہت سارے عوامل کارفرما ہیں، اصل میں جب مغرب نے دنیا کو زیر کرنے کی کوشش کی تو دنیا میں دو طرح کے ممالک سامنے آئے، ایک تو وہ جنہوں نے مغرب کی ہر چیز کو اپنانے کا عہد کیا اور کچھ ممالک نے اسکی توڑ کی اور مغرب کی ثقافت سے اپنے ممالک کو محفوظ کیا اور کہا کہ جو کچھ بھی وہاں سے آئے اس کو رد کرو۔

وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح سے سکندر اعظم نے کوشش کی دنیا پر قبضہ کرنے کی، مغرب کی موجودہ کوشش بھی یہی تھی کہ دنیا کو زیر کریں، دوسری اپروچ دنیا میں مغرب کو رد کرنے کی ہے، اس میں جمال الدین افغانی نے بہت اہم رول ادا کیا، اس کے برعکس ایک اور اپروچ کہ ہمیں مغرب کو اپنانا ہو گا اس سلسلے میں بھارت میں سر سید احمد خان نے اپنا رول ادا کیا، اس اپروچ کو مصطفٰے کمال عطا ترک نے ترکی میں اپنایا کہ مغرب کی ہر چیز کو اپنانا ترقی کا اصل راز ہے، یہ دونوں رسپانس تھے جن کو ہم میجر رسپانس کہہ سکتے ہیں، لیکن جو دنیای اسلام میں سب سے بہتر رسپانس آیا وہ علامہ اقبال کی شکل میں سامنے آیا، اور علامہ اقبال نے مشرق اور مغرب کی جو اساس تھی اس کو اس کے اصلی رسورسز سے بنیادی ماخذ کے ذریعے دنیا تک پہونچایا۔
 
علامہ اقبال رہ نے انگلینڈ کی کیمبرج ہونیورسٹی میں رہنے کے باوجود اپنے اصل ہدف کو ترک نہیں کیا، وہ عربی بھی جانتے تھے فارسی سے بھی واقف تھے، اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ وہ مغربی تہذیب کو پہچانتے تھے اور اس کی اساس سے واقف تھے، علامہ اقبال کا رسپانس میچور اور پوزٹیو رسپانس تھا، علامہ اقبال نے دو باتوں کی جانب عالم اسلام کی توجہ مبذول کرائی، ایک یہ کہ مغرب کو ہم انکار نہیں سکتے اور مشرق سے اپنے کو رلیونٹ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اجتہاد کے دروازے کو کھلا رکھیں، اہل سنت کے یہاں اجتہاد تھا لیکن بد قسمتی سے اس کو بند کیا گیا، جس کے نتیجہ میں عالم اسلام کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اہل تشیع میں تو اجتہاد رہا لیکن جس قدر اس کو لاگو ہونا چاہئے تھا اس قدر لاگو نہیں ہے، اگرچہ اجتہاد کو عملی زندگیوں میں ہر مسلمان کو اپنانا چاہئے۔
 
غرض کہ علامہ اقبال نے عالم اسلام کی بیداری میں ایک اہم رول ادا کیا ہے، آپ نے عالم اسلام کو اپنے بنیادی اساس کی جانب توجہ دلائی، عالم اسلام میں ایک نئی سوچ کے اجاگر کرنے میں علامہ اقبال نے اہم ذمہ داریان انجام دی ہیں، جس کے نمایاں اثرات پاکستان کی تشکیل ہے، اخوان المسلمین اور جماعت اسلامی انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے، جو علامہ اقبال نے دی ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں پائی جانے والی انقلابی لہر کے مثبت اثرات دنیا پر کیا ہو سکتے ہیں۔؟
شوکت حسین: اس انقلابی کے مثبت اثرات انشاءاللہ پوری کائنات پر ہونگے، جیسے اول اسلام میں اسلام کا نفوذ دنیا کے مظلومین کے لئے ایک رحمت ثابت ہوا، اسی طرح سے اگر آج کی دنیا میں اسلام نافذ ہو جائے چونکہ مغرب کا جو نظام ہے یا مشرق کا کمیونزم دونوں استحصالی نظام ثابت ہوئے ہیں، تو اگر استحصالی نظام کی جگہ ایک منطقی و عقلی دستور اسلام کی شکل میں نافذ ہو جائے تو دنیا پر اسکے مثبت اثرات ہر حال میں ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ موجودہ اسلامی تحریکیں بعض ممالک میں زود تر کامیاب ہوئیں تو کہیں پر یہ تحریکیں ہنوز مشکلات کا شکار ہیں۔؟
شوکت حسین: اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کے درمیان کس قدر تحریکوں کا رجحان ہے اور وہ کس قدر انقلاب سے مانوس ہیں، دوسری چیز جیو پالی ٹیکس ہے، اس پر بھی کامیابی منحصر ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ کہیں ممالک میں ان تحریکات کو بین الاقوامی سپورٹ ملتی ہے تو کہیں پر انہی تحریکوں کو عالمی طاقتیں دبانے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں۔
آپ کشمیر کو ہی لیجئے، کشمیر میں سابقہ سال مظاہرے ہوئے لیکن دنیا بھر کی جیوپالیٹکس اس کے لئے مناسب نہ تھی، اسلئے ان مظاہروں سے مثبت نتائج برآمد نہ ہو پائے، اگرچہ اس انقلابی لہر میں ہر وہ چیز موجود تھی جو ایک تحریک کے لئے لازمہ ہوتی ہیں، میں یہاں پر یہ کہنا چاہوں گا کہ مشرق وسطٰی کی تحریکیں تحریک کشمیر کے نتیجے میں وجود پائی ہیں، لیکن افسوس کہ دینا کی عالمی برادری نے ہماری پشت پناہی نہیں کی، جیوپالیٹکس کا عمل دخل تحریکوں میں ضروری ہے لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، ہمیں کوشش کر کے اپنے فرائض انجام دینے ہونگے، جہد پیہم لازم ہیں تحریکوں کی کامیابی کے لئے۔

اسلام ٹائمز: کیوں امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی تحریکوں کو کچلنے کی مزموم سعی کر رہے ہیں۔؟
شوکت حسین: بنیادی طور پر امریکہ کا مقصد پوری دنیا کو اپنا باج گزار بنانا تھا اور دنیا کو اپنی غلامی کے طوق وہ پہنانا چاہتے ہیں اور اگر ان حالات میں ایسی تحریکیں وجود میں آنا شروع ہو جاتی ہیں جو یہ کہیں کہ لا شرقیہ ولاغربیہ یعنی نہ ہمیں مشرق کی غلامی منظور ہے اور نہ ہی مغرب کی بالا دستی قبول ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو دنیا کے ٹھکیدار بنے ہوئے ہیں انکو یہ تحریکیں پسند نہیں آئیں، نتیجے کے طور پر انہوں نے یہ انقلاب دبانے کی سعی لاحاصل کی، اول اسلام میں بھی یہ مشکلات اسلام کے ساتھ پیش آئی کہ اس وقت کے روم و ایران نے اسلام کو دبانے کی کوشش کی تھی۔

اسلام ٹائمز: اس کے برعکس جمہوری اسلامی ایران بیداری اسلامی لہر کی ہر حال میں پشت پناہی کر رہا ہے، کیا وجہ ہے۔؟
شوکت حسین: ایران چونکہ انقلاب اسلامی کے نام پر قائم ہوا ہے اور وہ ایران میں اسلامی قوانین کی احیاء میں مصروف ہیں، اسلئے لازم ہے ایران کے لئے کہ وہ دنیا میں پائی جانے والی اسلامی تحریکوں کا نہ صرف قائل ہو بلکہ ان تحریکوں سے تعاون بھی کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو گویا وہ اپنے مقصد قیام سے انکار کر رہے ہیں، غرض کہ ایران کا وجود ہی اسی لئے ہے کہ وہ دنیا میں انقلاب کو ایکسپورٹ کرے، اور ایسی تحریکوں کی رہنمائی کرے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یوں ہوا کہ وہ اس اصل ہدف سے منحرف ہو رہے ہیں، جس مقصد کے لئے امام خمینی رہ نے انقلاب اسلامی ایران کی تشکیل فرمائی تھی۔
 
اسلام ٹائمز: بحرین کے حوالے سے ہم آپ سے پوچھنا چاہیں گے کہ بحرین کی بیداری کو کیوں مسلم ممالک ہی کچل رہے ہیں۔؟
شوکت حسین: اصل میں مشرق وسطٰی میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں بلواسطہ یا بلا واسطہ استعماری طاقتوں کی ایماء پر بہت سارے کام کرتی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اسی مرحلے کی یہ ایک کڑی ہو، اور دوسری بات یہ ہے کہ جہاں پر بھی اسلام ناب یا انقلاب ناب برپا ہونے کے خدشات ظاہر ہوں وہاں پر استعماری طاقتیں اور اسکے اتحادی اسکو دبانے کی کوشش بھی زیادہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: بحرین میں حقوق انسانی کی پامالی اور ہیومن رائٹس کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
شوکت حسین: ہیومن رائٹس کا ابیوز (پائمالی) کہیں پر بھی ہو قابل مذمت ہے اور جہاں پر بھی حقوق انسانی کی پائمالی ہو رہی ہو تو دنیا کے باشعور طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لئے اپنا رول نبھائیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کا تعلق چونکہ کشمیر سے ہے، ہم یہاں پر یہ پوچھنا چاہیں گے کہ تحریک آزادی کشمیر کا رول اور اس پر بھارت کا ردعمل کیا ہے۔؟
شوکت حسین: کشمیر کا مسئلہ بھی عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے کہ جو فسلطین کے ساتھ خاصی مماثلت رکھتا ہے، کشمیر خطے کے لوگ بھی پچھلے ساٹھ سال سے بھارت کے تشدد کی چکی میں پِس رہے ہیں، کشمیریوں کو یہ قوی امید تھی کہ دنیا خاص طور عالم اسلام مسئلہ کشمیر کو فسطین کی طرح اجاگر کرے گا، لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ عالم اسلام نے اقتصادی مفادات کی خاطر کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی رول ادا نہ کیا، اور ہماری مظلومیت پر انہوں نے صرف تماشائی کا کام کیا۔
جس کی وجہ سے کشمیر کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جا  رہے ہیں اور اب کشمیر کی تاریخ کا بدترین دور سامنے آ رہا ہے کہ جو نظام کشمیر پر بھارت کی شکل میں قبضہ کئے ہوئے ہے وہ اپنی پوری توانائی بروئے کار لا کر یہاں کی نوجوان نسل کو تہذیبی تذلیل میں ڈھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہاں کی نوجوان نسل کو اپنے اسلامی تمدن سے منحرف کرکے بھارتی کلچر کی جانب مائل کیا جا رہا ہے، کشمیر کے بہت سارے جوانوں کو اسکالر شپ، نوکریاں اور دیگر لالچ دیکر کسی اور بد تہذیب قوم کی رغبت دلائی جاتی ہے اور ہماری نئی نسل کو بیرون ریاست رہنے کے لئے آمادہ کیا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اسی منصوبہ کے تحت لاتعداد افراد کو کہ جن کا تعلق بیرون کشمیر سے ہوتا ہے یہاں پر کام دلایا جاتا ہے تاکہ وہاں کا شیطانی تمدن وارد کشمیر کیا جائے، تو اس حربے سے کشمیر کا تشخص ،کشمیر کا وقار اور یہاں کی اسلام پسند تہذیب کو بدلنے کی ناپاک سعی کی جا رہی ہے، جس سے ہماری تحریک آزادی کو بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو ہر ظالم کا مظلوم کے خلاف رویہ ہوتا ہے، وہی بھارت کا کشمیر کے خلاف بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: بیداری اسلامی کے کشمیر پر کیا مثبت اثرات ہو سکتے ہیں۔؟
شوکت حسین: عالم اسلام کی انقلابی تحریکوں کا کشمیر پر مثبت اثر پڑنا چاہئے لیکن مثبت اثر تب پڑے گا جب عالم اسلام کی سرپرستی کرنے والے حساس ہوں، ان مسائل میں جن کا سامنا کشمیری عوام کو کرنا پڑ رہا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ بھارت ایک تجارتی منڈی ہونے کے باعث دنیا کے اس سے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں، تو اکثر وہ ممالک اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر عالم اسلام کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں، مثال کے طور پر اسلامی ممالک کی موجودگی کے باوجود بابری مسجد کا المیہ اور عالم اسلام کا اس پر چپ سادھ لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے ملکی و ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بیداری عالم کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
شوکت حسین: بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ابھی تو انکی حالت ٹھیک نہیں ہے، لیکن انہیں فی الحال اسی نظام میں رہ کر اپنا تشخص قائم کر کے ایک روشن مستقبل کے لئے بے انتہا کوشش کرنی چاہئے، بھارت کے بعض مسلمان مدارس کی شکل میں یا دینی تنظیموں کی شکل میں اپنی ذمہ داریاں سمجھ رہے ہیں اور وہ بھارت میں رہ کر بھی اپنا اہم رول نبھا رہے ہیں، جس کی انہیں قیمت چکانی پڑ رہی ہے، کبھی ان کی ملازمت خطرے میں ہوتی ہے تو کبھی ان کی عصمت، لیکن وہ اس کے باوجود بھی اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں، جو قابل تحسین ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض ممالک میں تحریکیں زود تر کامیاب ہوئیں لیکن کشمیر میں پچھلے ساٹھ سال سے کوشش جاری ہے، کون سی رکاوٹ حائل ہو رہی ہے۔؟
شیخ شوکت حسین: بات ظاہر ہے کہ بعض ممالک کے دشمن کمزور پڑتے ہیں اور ان کے دشمن جلدی ہار تسلیم کرتے ہیں یا عوام کی بیداری اس قدر عروج پر ہوتی ہے کہ تحریکیں زود تر کامیابی کی منازل طے کرتی ہیں، ہند پاک کی آزادی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ انگریزوں کی تعداد کم تھی جسکی وجہ سے ہم جلدی آزادی سے ہمکنار ہو گئے، اسکے برعکس کشمیر کا مقابلہ ایک بڑی طاقت کے ساتھ ہے، بھارت کشمیر کی آبادی سے زیادہ اپنی فوج یہاں پر مسلط کئے ہوئے ہے، غرض کہ ہمارا مقابلہ ایک بڑے ملک سے ہے اس وجہ سے ہماری تحریک آزادی کے مشکلات زیادہ ہیں، کشمیری عوام کو اپنے بنیادی اصول، اسلامی تعلمات، اور اولیاء خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر کوشش کرنی چاہئے، انشاءاللہ یہ قوم ضرور آزادی سے ہمکنار ہو گی۔ 

اسلام ٹائمز: کس موجودہ حکومت کو آپ عالم اسلام کے لئے مشعل راہ قرار دیں گے، کون سی حکومت مثالی حکومت ہے۔؟
شوکت حسین: ابھی دنیا میں کوئی مثالی حکومت نہیں ہے، ایران کی شکل میں کوشش ہو رہی ہے، اصل میں مسلمانوں کا نظام اتنا عظیم ہے کہ اس کو لاگو کرنا بہت ہی مشکل ہے، لیکن اگر اسلامی نظام کو مکمل نافض کیا جائے تو دنیا کو سکون کی سانس میسر ہو گی، اسلام ناب کو نافض کرنا قدرے مشکل ہے ناممکن نہیں ہے، ایران جیسا کہ میں نے کہا کوشش کر رہا ہے اور کامیابی بھی پا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کی قیادت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
شوکت حسین: ایک مظلوم ریاست میں اتنی مشکلات کے باوجود جو ان کا رول ہونا چاہئے وہ ادا کر رہے ہیں، ہماری تحریک کے ساتھ دشمن کی شکل میں مشکلات زیادہ ہیں، جس کا یہاں کی قیادت کو بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 146470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش