0
Thursday 12 Apr 2012 03:23

ریال اور ڈالر پر پلنے والے دہشتگرد گلگت بلتستان کو مسلکی جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، علامہ نیئر عباس

ریال اور ڈالر پر پلنے والے دہشتگرد گلگت بلتستان کو مسلکی جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، علامہ نیئر عباس
علامہ شیخ نیئر عباس مصطفوی کا بنیادی تعلق گلگت کے علاقے جلال آباد سے ہے، آپ نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ اہل بیت ع اسلام آباد میں علامہ شیخ محسن علی نجفی سے حاصل کی۔ کراچی میں امام حسین ع فانڈیشن میں اڑھائی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران کے شہر قم المقدس تشریف لے گئے، جہاں مدرسہ امام مہدی عج میں دس سال تک علم دین سے فیضیاب ہوتے رہے۔ علامہ صاحب مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ نومل میں امام جمعہ کی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہے ہیں، علامہ شیخ نیئر عباس سانحہ چلاس کے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دیئے جانے والے احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے سانحہ چلاس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں علامہ شیخ نیئر عباس مصطفوی کیساتھ خصوصی بات چیت کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال آپ کے خیال میں کس سازش کا حصہ ہو سکتی ہے۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ جب کوہستان کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے حکومت سے خدشات کا اظہار کیا، اس سے قبل وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے گلگت بلتستان کی حکومت کو ایک چٹھی کے ذریعے آگاہ کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں کوئی سانحہ پیش آسکتا ہے۔ اس پیشن گوئی کے باوجود گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں کئے اور کوہستان کا سانحہ پیش آیا، پھر ہم نے ان کو کہا کہ تنگیر سمیت مختلف علاقوں میں دہشتگردوں کے ٹریننگ کیمپس موجود ہیں۔ جس کی طرف فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن حکومت نے کوئی ایکشن نہ لیا۔
 
ٹی این اے جو کہ کالعدم تنظیم میں تبدیل ہو گئی، اس تنظیم کی کال پر گلگت میں ہڑتال کی کال دی گئی، اس روز اہل تشیع پر ہینڈ گرنیڈ کے ذریعے حملے کی کوشش کی گئی، تاہم اس حملے میں حملہ آور ہی نشانہ بن گئے، انتظامیہ اور خفیہ اداروں کو اس حوالے سے مکمل آگاہی ہے۔ تاہم انہوں نے جان بوجھ کر ایشو بنانے کی کوشش کی، اس روز کالعدم سپاہ صحابہ کے شرپسندوں نے گلگت میں فورسز سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، اس دوران کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔
 
چلاس کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے کہ وہاں کے حالات تیسری قوت خراب کر رہی ہے جھوٹ پر مبنی ہے، وہاں پر تمام طالبان موجود ہیں، وہاں گاڑیوں میں بھر کر آنے والے شرپسندوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا اور شہید کیا، انتظامیہ اب ان دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، انتظامیہ وہاں پر دہشتگردوں اور پرامن شہریوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہی ہے، جو یقیناً ہمارے ساتھ ظلم ہے۔

اسلام ٹائمز: چلاس میں فورسز کی موجودگی میں شہریوں پر حملے کے بعد انتظامیہ کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: جب یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا تو پولیس موجود تھی، اور پولیس کی گاڑیوں میں شہریوں کو تھانے میں لے جا کر شہید کیا گیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو شامل تفتیش کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، کیونکہ دہشتگرد تو ان پولیس اہلکاروں کی حدود میں تھے اور انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔

اسلام ٹائمز: سانحہ چلاس میں اب تک کتنی شہادتوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور لاپتہ افراد کی تعداد کیا ہے۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: ابھی تک علاقے کی صورتحال جوں کی توں ہے، مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے ابھی تک مکمل معلومات نہیں پہنچ سکیں، آج کچھ دیر کیلئے گلگت میں کرفیو میں نرمی کی گئی تھی، اطلاعات کے مطابق جن علاقوں میں دہشتگرد موجود ہیں وہاں پر آپریشن کرنے کی بجائے اہل تشیع کے علاقوں میں کارروائیاں کی جا رہی ہیں، ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ جن گھروں میں نعشیں آئی ہیں اور جن لوگوں کو معلوم نہیں کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں کہ نہیں، اور پھر ان کو حراساں کرنا اور گھروں میں گھس کر آپریشن کرنا ریاستی ظلم ہے۔
 
ہمارا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ کتنے مسافر شہید ہوئے ہیں اور ان کی نعشیں فوری طور پر لواحقین کے حوالے کی جائیں، شہداء کے گھر والے اپنے پیاروں کو دیکھنے کیلئے تڑپ رہے ہیں، مقامی پرنٹ میڈیا غلط رپورٹنگ کر رہا ہے، ہم نے وادی استور میں ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے سانحہ کوہستان کے ذمہ داروں کے حق میں مظاہرہ کیا۔ وہ لوگ بھی ان دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ گلگت میں علمائے کرام کی گرفتاریوں کیلئے بھی فورسز نے کارروائیاں کی ہیں۔ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: کرفیو کے بعد سے ہمارے کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، متعدد بے گناہ نوجوانوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے، ایک دل کے مریض کو بھی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا ہے جن کی حالت انتہائی نازک ہے، دور دراز کے علاقوں میں لوگ محصور ہیں اور نقل و حرکت پر مکمل پابندی ہے، صدر انجمن کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا اور کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ گرفتاریاں 16 ایم پی او کے تحت کی ہیں، میں پوچھتا ہوں کہ جو لوگ مظلوم ہیں اور نعشیں اٹھا رہے ہیں ان کے سر پر دست شفقت رکھنے کے بجائے ان کے نوجوانوں کو گرفتار کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
 
اگر یہی ظلم کل کو لاوا بن کر پھٹ پڑا تو ملک کیلئے یہ نقصان دہ ہو گا، اور حکمران جو چاہ رہے ہیں یہ ان کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت اس دھرنے کی طرف توجہ دے تو یہ پاکستان کی حمایت میں ہے نہ کہ اس کے خلاف، انہیں ہمیں سراہنا چاہئے کہ ہم دہشتگردی کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں، ان دہشتگردوں نے صرف اہل تشیع کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ فورسز سمیت مختلف جگہوں پر حملے کئے گئے، اس وقت ملک میں یہی فکر پروان چڑھ رہی ہے اور یہی سوچ چلاس، کوہستان، اور گلگت کے قریبی علاقہ بسین میں خصوصی طور پر موجود ہے، اگر ان علاقوں میں دہشتگرد موجود نہیں ہیں تو شہریوں کو پولیس کے کانوائے کے ساتھ کیوں لایا جاتا ہے۔
 
جب ہمارے لوگ سانحہ کوہستان کے شہداء کی تعزیت کے لئے جا رہے تھے تو ڈیڑھ گھنٹے تک بسین کے علاقے میں ان پر فائرنگ کی گئی اور نازیبا نعرہ بازی کی گئی، سیرت النبی ص کے سلسلے میں نکالی گئی ریلی پر پتھرائو کہاں کی امن پسندی ہے، ہم ایسے لوگوں کے خلاف ہیں۔ اس سوچ نے اس پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ایک زمانہ تھا کہ اہل سنت محرم الحرام میں سبیل لگاتے تھے لیکن اب وہی لوگ اپنی مساجد میں اہل تشیع کے لئے پتھر لے کر بیٹھتے ہیں، یہ وہی طالبانہ سوچ ہے جو وہاں پر مضبوط ہو رہی ہے۔ اگر اس کی روک تھام کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو وہاں حالات سنگین سے سنگین تر ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کا مسئلہ شیعہ سنی کا مسئلہ ہے  یا دہشتگردی کا۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: اس مسئلہ کو شیعہ سنی بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ استعمار اور ان طاقتوں کو پہنچے گا جو مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتی ہیں، تیسری قوت سازش کرتی ہے لیکن اس میں ہاتھ وہاں کے ان مقامی دہشتگردوں کا ہی ہے، جو ڈالر اور ریال کی خاطر ملکی مفاد کے خلاف کیلئے کام کر رہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہاتھ بے نقاب کئے جائیں، وہاں پر موجود دہشتگرد آہستہ آہستہ اہل سنت کو دہشتگردی کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس وقت وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس دہشتگردی سے اب تک دور تھے، تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان دہشتگردوں کے بہکاوے میں آجائینگے۔
 
اگر بر وقت اقدامات نہ کئے گئے تو علاقے کو مسلکی جنگ کی طرف دھکیلنے کی سازش کامیاب ہو سکتی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ یہ سازشیں کامیاب ہوں اور پاکستان کمزور ہو، اس وقت عالم اسلام کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ایسی سازشوں کا کامیاب ہونا اسلام کیلئے ٹھیک نہیں، گلگت بلتستان میں وہی دہشتگرد سرگرم ہیں جو مجاہدین کے نام پر افغانستان بھیجے گئے، بعض خفیہ ادارے ان دہشتگردوں کی ٹریننگ کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ایسی قوتوں کا ہاتھ جلد از جلد کاٹ دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: حکومتی بے حسی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس دھرنے کے ذریعے مطالبات کی منظوری کے حوالے سے کتنے پر امید ہیں۔؟
علامہ نیئر عباس مصطفوی: دھرنے کے چوتھے روز جو کالعدم تنظیم کے لوگوں نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کی کوشش کی، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ آئے نہیں بلکہ انہیں لایا گیا ہے، لہذا اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری آواز اس جگہ پہنچ رہی ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے تھا، یہ ہماری کامیابی کی نشانی ہے، اسلام آباد کی انتظامیہ اس حوالے پریشان ضرور ہے، کوئی ہماری آواز سنے یا نہ سنے، ہم اپنا فرض سمجھ کر یہ دھرنا دے رہے ہیں، کیونکہ قرآن کا حکم ہے ظالموں کے خلاف جہاد اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے، اللہ کی نظریں ہمیں دیکھ رہی ہیں، ہم اس حوالے سے پریشان نہیں ہیں کہ میڈیا ہمیں کوریج کیوں نہیں دے رہا۔
خبر کا کوڈ : 152519
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش