0
Friday 17 Aug 2012 03:15

یوم القدس کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس دن کو حکومتی سطح پر منانے کا مطالبہ کرتے ہیں، مولانا عبدالشکور نقشبندی

یوم القدس کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس دن کو حکومتی سطح پر منانے کا مطالبہ کرتے ہیں، مولانا عبدالشکور نقشبندی
مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام پاکستان و مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ملی یکجہتی کونسل مولانا پیر عبدالشکور نقشبندی 1965ء میں چکوال میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد صاحب ایک معروف عالم دین اور جامع مسجد فاروقی سیٹلاٹ ٹاون کراچی میں پیش نماز ہیں۔ آپ کے نانا مرشد عالم پیر غلام حبیب نقشبندی چالیس ممالک کے مرشد کے طور پہ جانے جاتے تھے۔ ابتدائی تعلیم چکوال میں حاصل کی پھر آپ کراچی منتقل ہو گئے اور وہیں پر جامع علوم اسلامیہ کراچی میں دینی تعلیم حاصل کی اور 1986ء میں کراچی سے واپس چکوال آگئے۔ اور سلسلہ تدریس شروع کر دیا۔ مولانا عبدالشکور نقشنبدی ایم ایم اے کی سپریم کی کونسل کے رکن بھی رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی ابتدائی تاسیس میں بھی آپ کا کردار نہایت اہم ہے۔ جب انہیں بینظیر دور حکومت میں گرفتار کیا گیا تو مولانا سمیع الحق نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے آپ کی رہائی کے لیے کوششیں کیں۔ اسلام ٹائمز کی جانب سے مولانا پیر عبدالشکور نقشبندی سے مختلف موضوعات پر اٹھائے جانے والے سوالات خصوصی انٹرویو کی شکل میں پیش خدمت ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی تاسیس میں آپ کا رول رہا، سابقہ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم کی ناکامی کے کیا اسباب تھے؟
عبدالشکور نقشبندی: اس پلیٹ فارم سے بہت اچھا کام ہوا ، مولانا شاہ احمد نورانی صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب یہ تمام لوگ اس میں شامل تھے۔ ہمارے اختلافی مسائل جو ہم حل نہیں کر پا رہے تھے وہ بھی اللہ تعالی نے اس ٹیبل پر ہم سے حل کروائے۔ ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا جس پر تمام شرکاء کے دستخط موجود ہیں۔ جب افغانستان پر حملہ ہوا اور دفاع پاکستان و افغانستان کونسل قائم ہوئی۔ ادھر طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان میں انتخابات کا دور دورہ تھا۔ اس موقع پر انتخابی پلیٹ فارم کی شکل اسی سابقہ ملی یکجہتی کونسل کی چالیس جماعتوں سے چھ جماعتوں پر مشتمل ایم ایم اے معرض وجود میں آئی۔ گویا پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل کی جگہ ایم ایم اے نے لے لی اور وہ ایجنڈا مذہبی رواداری کا اسی جماعت نے ادا کیا۔ مجلس عمل کو چلانے والے افراد بھی وہی لوگ تھے جو ملی یکجہتی کونسل کو چلا رہے تھے گویا ملی یکجہتی کونسل کی جگہ متحدہ مجلس عمل نے لے لی۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب ایم ایم اے کا اتحاد بھی تعطل کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور ایم ایم اے کی فعالیت میں کون سی جماعت رکاوٹ کا باعث ہے۔؟
عبدالشکور نقشبندی: ایم ایم اے کے تعطل کی وجوہات بھی بڑی عجیب سی ہیں۔ مشرف کی موجودگی میں میاں نواز شریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور پاکستان تشریف لے آئے۔ لیکن جب تمام اپوزشن لیڈروں کا اجلاس ہوا جس میں ن لیگ، تحریک انصاف و دیگر پارٹیاں تھیں تو اس میٹگ میں نواز شریف صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا کہ ہم الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔ تو جب ہمارے قائدین نے یہ دیکھا کہ نہ (ن) لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کر رہے تو یہاں پر ہمارے قائدین کی طرف سے دو رائے آئیں کہ اگر نہ (ن) لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کر رہے۔ تو ہمیں بھی نہیں کرنا چا ہیے ورنہ ہم تو بہت پیچے رہ جائیں گے۔ اور ہمیں تو نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمارے کچھ مجلس عمل کے دوستوں جن کا میں نام نہیں لیتا ان کی رائے یہ تھی کہ ہماری اس الیکشن میں پوزیشن کچھ اچھی نہیں اور ہم اپنی سابقہ پوزشن کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ جس پر اختلاف رائے آیا اور مجلس عمل انتشار کا شکار ہو گئی۔ لیکن مجھے لگ یہ رہا ہے ملی یکجہتی کونسل سے ہی پھر ایک دفعہ انتخابی پلیٹ فارم تشکیل پائے گا۔ لیکن میری اپنے قائدین سے گزارش یہ ہو گی کہ سیاست کے اس پلیٹ فارم کو علیحدہ ہی رکھا جائے۔

دوسری بات جو آپ نے کہا کہ کون سے جماعت رکاوٹ کا باعث ہے تو اخبارات میں یہ آ رہا ہے کہ جماعت اسلامی مخالفت کر رہی ہے اور شاید آپ کا بھی اشارہ ادھر ہی ہو تو میں اس سے اتفاق نہیں کروں گا کیونکہ جس دن ہمارا ملی یکجہتی کونسل کا ابتدائی اجلاس ہوا تو حافظ حسین احمد صاحب نے یہ واضح کیا کہ مجھے فضل الرحمان صاحب نے بھیجا ہے اور میں تب اس کمیٹی میں بیٹھوں گا جب دفاع پاکستان کونسل اور ایم ایم اے کی افادیت کو تسلم کیا جائے گا۔ اور باقاعدہ اس کو تحریری شکل میں درج کریں۔ ملی یکجہتی کونسل کو بحال کرتے ہیں اور دفاع پاکستان کونسل کو اور ایم ایم اے کی افادیت کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سات رکنی کمیٹی تھی جس میں قاضی حسین احمد، ثاقب اکبر، پروفیسر ابراہیم صاحب، سلطان احمد علی وغیرہ موجود تھے تو قاضی صاحب نے کہا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن منور حسن صاحب سے ایم ایم اے کے بارے میں پوچھ لیا جائے۔ تو منور حسن صاحب کو کمیٹی میں بلاکر لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں اور اسی پر دعائے خیر ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: آپ کو ملی یکجہتی کونسل کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنایا گیا ہے اس شعبہ کے حوالے سے آپ نے آئندہ کا کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے۔؟

عبدالشکور نقشبندی: چونکہ میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا بھی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہوں اور اس حوالے سے مجھے کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔ لیکن ابھی تک باقاعدہ تو ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے اس کے لیے ہم میٹنگز کرے تیار کریں گے۔ لیکن انشاءاللہ ہم شعبہ اطلاعات سے ہر وہ کام کریں گے جو مسلمانوں کے مفاد میں ہو گا۔ اور ہر اس بات کی مذمت کریں گے جو اسلامی اقدار کے مخالف ہوں گیں۔ میڈیا میں فحاشی کے فروغ کے تدارک اور ہر اس عمل کی مخالف ہو گی جو اسلام کے منافی ہوں گیں۔ ہر اس بات کا جواب جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے اسکا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

میرا ماضی بھی گواہ ہے کہ چکوال کے ایک سیاسی شخصیت اور نامور صحافی ( ایاز امیر) نے جب ایک کالم میں کہا کہ رسول خدا (ص) کی توہین کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں تو میں نے اس کے خلاف تقاریر کیں۔ اس کو اس امر کی اس طرح سزا دی کہ وہ الیکشن ہار گیا۔ اس پر اس نے میر ے خلاف کافی کالم لکھے جس میں اس نے کہا کہ ایک مولانا جس کی زبان کلاشنکوف کی طرح چلتی ہے اس نے میرے خلاف غلط الزامات لگا کر تقاریر کیں ہیں او ر میرے وقار کو خراب کر کے مجھے الیکشن میں شکست دلوائی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل میں جمعہ کمیشن کا قیام قابل تحسین ہے اس کمیشن کے مشترکات پر کام کرنیکا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔؟

عبدالشکور نقشبندی: اس کے لیے باقاعدہ کمیشن بیٹھتا ہے اور مشترکات پر مبنی ایک خطبہ تیار کیا جائے گا جس کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس میں قرآن و احادیث کے علاوہ کرنٹ ایشوز پر بھی بات کی جائے گی اور اس خطبہ جمعہ کے ذریعے وحدت کو فروغ دیا جائے گا۔ کرنٹ ایشوز کی بات کی جائے تو تمام وہ مسائل جو مسلمانوں کو درپیش ہیں اس پر بات کی جائے گی مثلاً برما کا مسئلہ ہے جو کہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ اس کے حوالے سے خطاب کیا جائے۔ ان خطبات کا مقصد یہ ہے کہ تمام مساجد و امام بارگاہوں سے جب یکسانیت کی آواز نکلے گی اور کسی کی دل آزاری نہیں ہو گی تو انشاءاللہ اختلافی مسائل نہیں پیدا ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کے افغانستان سے خروج کے بعد کیا سمجھتے ہیں کہ کس کی حکومت آئے گی؟

عبدالشکور نقشبندی: افغانستان کا مزاج مذہبی ہے۔ میں خود طالبان کے دور حکومت میں افغانستان گیا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ وہاں کا ماحول مذہبی تھا لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی طالبان ہی کی حکومت آئے گی۔ گزشتہ سال کراچی میں میری ایک اہم طالبان لیڈر سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے کہا کہ ہم جہاد جیت رہے ہیں اور آپ لوگ پاکستان میں اسلحہ کی جنگ مت لڑو، اگر کسی کو شوق جہاد ہے تو وہ افغانستان میں آ کر لڑے۔ اور امریکہ وہاں ہی تباہ و برباد ہوجائے گا۔ اور جب طالبان کی حکومت آجائے گی تو ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کلاشنکوف کلچر نہیں ہونا چاہے اور اس طرح کو کوشش سے مقاصد بھی پورے نہیں ہوسکتے۔ امریکہ ہی ہمارا دشمن ہے۔ میں پچھلے سال لیبیا گیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ کرنل قذافی صاحب اچھے انسان تھے۔ اور جب انہوں نے امریکہ کی مخالف تقاریر کیں او ر اس کو للکارا تو امریکہ نے پہلے شورش کروائی اور پھر اس پر نیٹو کے ذریعے چڑھائی کر دی۔

عرب کے لوگ بہادر ہیں لیکن اسلامی ممالک کے حکمران سب امریکہ کے پیٹھو ہیں لیکن عوام امریکہ کے مخالفت میں اپنا بھرپور رول ادا کریں گے۔ اور سعودی عرب حکومت کو خراج تحسن پیش کرنی چاہیے کہ وہ اجلاس بلا کر مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ اور ہم سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ برما کے مسلمانوں کو اپنے ممالک میں پناہ دیں اور ان کو ہمیشہ کے لیے عذاب سے نجات دلائیں۔


اسلام ٹائمز: مولانا صاحب یوم القدس جو کہ قبلہ اول کی آزادی اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے منعقد ہو رہا ہے اس حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
عبدالشکور نقشبندی: ملی یکجہتی کونسل کے دو احسن اقدامات ستائیس رمضان کو یوم آزادی پاکستان اور جمعۃ الودع کو یوم القدس منانے کو بہت سراہا گیا ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد ہوٹل میں سیمینار کا انعقاد بھی ہو چکا ہے۔ ہم اس دن کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس کو حکومتی سطح پر منانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اپنی حکومت سمیت تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا سفارتی حل نکالا جائے۔ کیوں کہ قبلہ اول ہماری مقدس جگہ ہے اور صہیونی ہماری مقدسات کی توہین کر رہے ہیں۔ وہاں پر انبیا (ع) کے مزارت ہیں وہ صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ انبیا کی عبادت گاہ ہے۔ ہم تمام اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ اور اسرائیل کے ناپاک وجود کو یکسر رد کرتے ہوئے اور اس کے وجود کو مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ یہود و نصارا حضرت موسی (ع) کی تعلیمات سے منحرف ہوچکے ہیں۔ یہ الہی تعلیمات کے دشمن ہیں اور اس کے اثرات کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے تمام حمایتی ممالک باالخصو ص امریکہ اور دیگر ممالک جو اس کا ساتھ دیتے ہیں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے روزہ میں زحمت کی۔؟

عبدالشکور نقشبندی: اسلام ٹائمز کا بھی شکریہ جو اس مقدس کاز کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں اور ہماری نحیف آواز کو آگے پہنچایا۔
خبر کا کوڈ : 188180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش