0
Saturday 17 Nov 2012 14:07

مسئلہ شام کی وجہ سے اسرائیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف میں کمزوری واقع ہو رہی ہے، علامہ عارف حسین واحدی

مسئلہ شام کی وجہ سے اسرائیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف میں کمزوری واقع ہو رہی ہے، علامہ عارف حسین واحدی
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ عارف حسین واحدی کا شمار ملک کے نامور علماء کرام میں ہوتا ہے، آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی اور علمبردار ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عالمی اتحاد امت کانفرنس کے دور رس نتائج اور ملی یکجہتی کونسل کے عالمی ایجنڈے کے حوالے سے علامہ عارف حسین واحدی کا انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے تحت منعقدہ عالمی اتحاد امت کانفرنس کے حوالے سے فرمائیں۔؟

علامہ عارف حسین واحدی: بسم اللہ الرحمان الرحیم، قال اللہ وَاعْتَصِمُواْ بحَبْلِ الله جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآنی تصور ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ  قرآن کے اس نظرئیے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عرصہ دراز سے ہم وحدت امت کے لئے کوشاں تھے، 1995ء میں جب ملی یکجہتی کونسل بنی اس وقت اور اس سے پہلے بھی ہماری قیادت نے ہمیشہ وحدت امت کے لئے کردار ادا کیا اور دوبارہ ملی یکجہتی کونسل کے فعال ہونے میں ہمارا بہت بڑا کردار ہے، ہماری ان وحدت و اتحاد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ وحدت امت کانفرنس برگزار ہوئی، جسمیں پوری دنیا کے اسکالرز، علماء کرام اور زعمائے عالم اسلام تشریف لائے ہوئے تھے اور پاکستان سے بھی مفتیان کرام، بزرگ اور جید علمائے کرام جو تنظیموں سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں، جیسے مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن شریک ہوئے۔

یہ کانفرنس فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد امت کے قرآنی نظرئیے کو عملی جامہ پہنانے کی حیثیت سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سب جید علماء کرام نے اس بات پر زور دیا کہ شیعہ سنی اختلاف کو بھول جائیں، وہ ایک قصہ پارینہ ہوچکا ہے، ہم سب مسلمان ہیں اور امت اسلامیہ کو ساتھ لیکر چلیں اور امت اسلامیہ کا اس انداز میں ملی یکجہتی کونسل کی آواز پر لبیک کہنا لائق تحسین اور اس حوالے سے ہم ملی یکجہتی کونسل کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ قاضی حسین احمد صاحب کی مشقتیں، محنتیں اور کاوشیں جو وہ خلوص کے ساتھ کر رہے ہیں اور ساتھ علامہ سید ساجد علی نقوی جو سینئیر نائب صدر ہیں ملی یکجہتی کونسل کے، حافظ حسین احمد جو جنرل سیکرٹری اور باقی تمام افراد اور جماعتوں نے پر خلوص کوششیں کیں جو رنگ لائیں اور اتحاد امت کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا۔ یہ کانفرنس نہ صرف وحدت امت کے لئے بلکہ پاکستان کے لئے بھی باعث فخر ہے، ملت پاکستان کے قابل فخر ہے۔

پہلے بھی ایسی کئی کانفرنسیں پاکستان میں ہوئیں ہیں، لیکن وہ حکومتی سطح پر ہوئیں، لیکن اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ علماء کی ذاتی کوششوں سے منعقد ہوئی۔ عرصہ دراز سے وطن عزیز میں منفی قسم کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ جو کبھی شیعہ کو کافر قرار دیتے تھے، کبھی بریلوی کو کافر کہتے اور کسی دور میں مولانا مودودی کے بارے میں بھی یہ غلط زبان استعمال کی گئی، تمام مسالک کی سنجیدہ قیادت اس منفی سوچ پر رنجیدہ تھی، عرصہ دراز سے کوشش تھی کہ امت مسلمہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوجائے۔ اللہ کی ذات کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ پوری دنیا کے علمائے کرام اس میں شریک ہوئے، اگر کوئی نہیں تھا تو تکفیری گروپ اس میں نہیں تھا، یہ امت واحدہ کا واضح اعلان ہے کہ جو لوگ کافر کافر کے نعرے لگاتے ہیں وہ امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں۔ انہیں تمام علمائے کرام اور بزرگان نے اٹھا کر اپنی صفوں سے باہر پھینک دیا ہے۔

یہاں پر میں واضح طور پر قائد ملت جعفریہ سید ساجد علی نقوی کی کاوشوں کو سلام پیش کروں گا۔ عرصہ دراز سے بعض لوگوں کی طرف سے مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود انہوں نے اتحاد و وحدت کی کوششیں جاری رکھیں اور آج سرفراز ہیں وہ کہ ان کی کاوشوں سے تکفیری گروپ کو امت کی صف سے باہر پھینک دیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی اتحاد امت کانفرنس میں یہ طے کیا گیا کہ اسلام آباد کو عالمی اسلامی تحریکوں کا صدر دفتر بنایا جائے اور سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اس کا کیا کردار ہوگا، اس پر روشنی ڈالیں۔؟

علامہ عارف حسین واحدی: جس وقت اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تھا، مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اس وقت میں نے یہ تجویز دی تھی کہ ملی یکجہتی کونسل کو عالم اسلام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور یہ ایک عالمی ملی یکجہتی کونسل کا کردار ادا کرنا کرے۔ اس حوالے سے ایشیاء کے تازہ رسالے میں میرے بیابات موجود ہیں۔ اس میں یہ تصور آگے بڑھا اور خصوصاً اس پروگرام میں مجمع التقریب بین الامذاہب کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی نے یہ تجویز دی کہ عالمی سطح پر ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کا مرکز اسلام آباد کو قرار دیا جائے، تاکہ ہم امت مسلمہ کو اکٹھا لیکر آگے بڑھیں۔

انہوں نے قاضی حسین احمد کی کاوشوں کو لائق تحسین قرار دیا اور فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد میں ایک عالمی اسلامی مرکز ہوگا جس پر تمام امت مسلمہ جمع ہوگی۔ دنیائے اسلام میں صورتحال یہ ہے کہ عالمی ابلیسی قوتیں اور سامراجی طاقتیں یہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عالم اسلام میں فرقہ واریت پھیلا کر اور اختلاف ڈال کر ان کو کمزور کر دیں اور ہم ان پر حکمرانی کریں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی امت مسلمہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین، کشمیر، برما، لبنان، افغانستان اور باقی دنیا میں جو ظلم ہو رہا ہے، اس کے پس پردہ امریکہ کی ابلیسی سازشیں کارفرما ہیں۔ اس کے مقابلے میں ضروری تھا کہ اس طرح کا اتحاد ہو اور ہم الحمداللہ کامیاب ہوئے اور اسی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی توجہ فرمائیں کہ ملی یکجہتی کونسل 21 مئی 2012ء کو بحال ہوئی اور پانچ چھ ماہ میں ملی یکجہتی کونسل نے وہ وقار حاصل کیا کہ آج عالم اسلام کی رہبری کر رہی ہے۔ آج کا دور وہ دور نہیں ہے کہ ہم مذہبی تعصبات میں محدود رہ کر امت مسلمہ کے عالمی مفادات پر ضرب لگائیں، جو لوگ ایسے متعصبانہ ذہن رکھتے ہیں وہ امت مسلمہ کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔ آج وسعت قلبی اور کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، چھوٹی چھوٹی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور مشترکات پر جمع ہو کر اختلافی و فروعی معاملات کو ایک طرف رکھ کے قوت کے ساتھ پرچم اسلام کو اور اللہ کی کتاب قرآن کریم جو ایک مکمل ضابطہ حیات انسانی ہے، منشور ہے انسان کے تکامل کے لئے اور پاک مصطفٰی (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) اور صحابہ کرام کی سیرت کو سامنے رکھ کر آگے بڑھیں گے، انشاءاللہ پوری امت کی رہنمائی کریں گے اور کامیابی حاصل ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کہا گیا کہ شام کے سلسلے میں ایران، ترکی اور مصر سر جوڑ کر بیٹھیں، قبل اس کے کہ کوئی سامراجی طاقت اپنا فیصلہ مسلط کرے۔؟

علامہ عارف حسین واحدی: ملی یکجہتی کونسل کے قائد جناب قاضی حسین احمد صاحب نے یہ خوبصورت بات کی ہے، بجائے اس کے کہ نیٹو مداخلت کرے، اسلام دشمن طاقتیں مداخلت کریں، حق یہ ہے کہ عالم اسلام کی کلیدی قوتیں ہیں اور شخصیات اور امت مسلمہ خود شام کے مسئلے کو حل کریں، شام کا مسئلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے جن ممالک کے نام لئے ہیں، میں ان کے ساتھ سعودی عرب کو بھی شامل کرونگا، ان سب کو سر جوڑ کر مل بیٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنا چاہیے۔

مسئلہ شام کی وجہ سے اسرائیل کے مقابلے میں برسرپیکار محاذ ہمیں کمزور ہوتا نظر آرہا ہے، اسے کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ یقیناً اس کے پس پردہ امریکہ و اسرائیل کی بہت بڑی سازشیں ہیں۔ اس سلسلے میں رہبر معظم سید علی خامنہ سمیت عالم اسلام کی بڑی شخصیات کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ شام میں بحران کی وجہ سے حماس و حزب اللہ کا اتحاد کمزور ہو رہا ہے اور اسرائیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف میں کمزوری واقع ہو رہی ہے۔ شام کے مسئلے کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کے متفقہ موقف میں کمزوری نہ آئے۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ شام نے اسرائیل کے جغرافیے کو کافی حد تک کنٹرول کرکے رکھا اور خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کیا، شام کے خلاف تازہ کارروائیوں میں امریکہ نے اپنی من پسند قیادت کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اکٹھا کیا ہے، جس کی سربراہی دمشق کی مسجد امیہ کے امام کے سپرد کی گئی ہے۔ اس امریکی برانڈ اسلام کے بارے میں فرمائیں۔؟

علامہ عارف حسین واحدی: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بہت ہی خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ دنیا میں اسلام کی اس وقت دو قسم تشریخ و تفصیل ہے، ایک اسلام ناب محمدی ہے اور ایک اسلام امریکائی ہے۔ امت مسلمہ کو سمجھنا چاہیے کہ کونسا اسلام امریکائی اور کونسا اسلام، اسلام ناب محمد ی ہے۔ ہم ایک آمر کے دور میں امریکائی اسلام کا تجربہ پاکستان میں کرچکے ہیں اور وہ ناکام ہے۔ تو شام کے مسئلے میں جب امت مسلمہ سر جوڑ کر بیٹھے گی اور استعماری طاقتوں کی مداخلت کا خاتمہ ہوگا، تو امت مسلمہ کے تمام مسائل جن میں شام، بحرین، الجزائر، لبنان، فلسطین تمام مسائل حل ہوں گے اور امت سرفراز ہوگی۔ او آئی سی کو ان تمام مسائل میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن یہ ادارہ کسی اور کے اشاروں پر چل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کانفرنس کے اعلامیے بارے متضاد رائے آ رہی ہے، اس حوالے سے فرمائیں۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: 1995ء تمام مسالک کے بزرگان مل کر بیٹھے تھے اور یہ نکات طے ہوئے تھے۔ اس میں ہماری بہت بڑی کامیابی ہے کہ عظمت اہل بیت (ع) اور عظمت مہدی (ع) اس میں آگئی ہے۔ جو اس کی تکفیر کرنے والا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ وحدت امت کانفرنس کا یہ اعلامیہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کسی بھی مسلک کے بزرگان کی تکفیر حرام ہے، آج امت جن مسائل سے دوچار ہے، ایسے حالات میں امت مسلمہ ایسے افتراق کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
خبر کا کوڈ : 212549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش