0
Tuesday 11 Dec 2012 21:01

گیس پائپ لائن میں امریکی دباو رکاوٹ ہے، سیاسی قیادت تابعداری چھوڑ دے، ڈاکٹر مہدی حسن

گیس پائپ لائن میں امریکی دباو رکاوٹ ہے، سیاسی قیادت تابعداری چھوڑ دے، ڈاکٹر مہدی حسن
ڈاکٹر مہدی حسن پنجاب یونیورسٹی میں ابلاغیات کے پروفیسر رہے ہیں۔ وہ اسی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین بھی رہے۔ شعبہ صحافت میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد اس وقت موجود ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن بین الاقوامی اور سیاسی امور کے تجزیئے پر عبور رکھتے ہیں۔ ان دنوں نیشنل بیکن ہاوس یونیورسٹی کے ادارہ ابلاغیات کے سربراہ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ان سے اسلام ٹائمز نے خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر مہدی حسن صاحب! پینٹا گان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان حکومت کی بدعنوانی، وسائل میں کمی اور شدت پسندوں کی موجودگی افغانستان میں سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ بات کس حد تک درست نظر آتی ہے؟

ڈاکٹر مہدی حسن: دیکھئے جہاں تک دہشت گردی، عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کا تعلق ہے۔ تو پاکستان کے جو علاقے افغانستان سرحد کے ساتھ ساتھ ہیں۔ وہاں کیونکہ جو سرحد (ڈیورنڈ لائن) ہے۔ اس کی کوئی عزت اور توقیر نہیں ہے۔ اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور جو دہشت گرد ہیں۔ وہ اس کو کراس کرتے رہتے ہیں۔ وہ افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ تو یہ بات پینٹا گان کی صحیح ہے کہ شدت پسندوں کی قبائلی علاقے فاٹا میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ چونکہ پاکستان کے شدت پسند religious extremists ہیں۔ جو ان کو patronise بھی کرتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔ ان کو ہر قسم کی دیگر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں۔ اس لئے وہ آسانی سے کارروائیاں کرلیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بھی شدت پسندی کا سامنا ہے، اور یہ بھی خوش خبری سنائی گئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر ہورہے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مہدی حسن: نہیں! جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا تعلق ہے ۔ وہ love hate relationship جیسے ہیں، کیونکہ باہمی تعلقات میں کبھی بھی ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں رکاوٹ آگئی ہے۔ پچھلے 65 سال سے پاکستان کی تاریخ ہے کہ امریکہ کا پاکستان اتحادی رہا ہے، اور امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کو استعمال بھی کرتا رہا ہے۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا تعلق ہے، تو یہ پاکستان نے امریکہ کی اور عالمی برادری کی خواہش پر جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع کی تھی۔ اور اس کی ہم نے بہت بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ چالیس ہزار سویلین سے زائد اس میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ پانچ ہزار فوج اور پولیس کے اہلکار اور افسران شہید ہوئے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ہماری معیشت خراب ہوئی۔ معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔ وہ سب اس دہشت گردی اور شدت پسندی کی وجہ سے ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دہشت گرد اور انتہاپسند صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ افغانستان کی صورت حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اور افغانستان سے شدت پسند اور extremist جو ہیں وہ پاکستان پر اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔ جس میں پاکستان کے کہنے کے مطابق افغانستان کی سرکاری افواج بھی ملوث ہوتی ہیں اور وہ پاکستان پر گولہ باری اور حملے کرتی رہتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پینٹاگان کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج نے افغانستان میں اپنا مشن مکمل کرلیا ہے، البتہ دشمن کے حملوں کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہاں وہ مانتے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان نیٹو افواج پر حملے کرسکتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مہدی حسن: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا کہ مشن مکمل ہو گیا ہے۔ درست نہیں ہے۔ اگر مشن یہ تھا کہ دہشت گردی کو ختم کیا جائے اور مذہبی انتہا پسندی کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی جائے یا پھر ان کو eleminate کیا جائے۔ تو میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ جہادی جنگووں کی پاکستان، افغانستان اور دیگر قریبی ممالک میں جو موجودگی پائی جاتی ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی ممالک جن میں امریکہ پیش پیش ہے، انہیں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ خود مذہب کے نام پر اس انتہا پسندی کا ذمہ دار ہے۔ کیونکہ ان کی سرد جنگ کے زمانے میں ہمیشہ پالیسی رہی تھی کیونکہ کمیونزم Godless society preach کرتا ہے۔ مذہب کے عمل دخل کو فروغ دیا جائے۔ یہ کام وہ کرتے رہے۔ 

افغانستان میں جہاد کے نام پر جو جنگ لڑی گئی پاکستان کی سرزمین سے ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اور کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام ہوئے ہیں۔ افغانستان میں اس کو ختم کرنے میں اس لئے وہ اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پاکستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تعاون ہے۔ اس میں بھی کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ کیا آپ یہ درست سمجھتے ہیں؟
ڈاکٹر مہدی حسن: نہیں! میں نہیں سمجھتا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بہتری آئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی جو حکومت ہے وہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے میں مخلص نہیں ہے اور کرزئی حکومت جو ہے وہ اپنی ناکامیوں کی ذمے داری بھی پاکستان کے سر تھونپ دیتی ہے۔ چونکہ وہ ناکامی کی پالیسی پر گامزن ہیں، اور جو ناکامیاں ان کو ملتی ہیں چونکہ ان کی حکومت جو ہے وہ افغانستان کے بہت تھوڑے سے علاقے پر محیط ہے باقی افغانستان میں ان کی کوئی رٹ ہے نہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمے داری پاکستان پر ڈال کر اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ افغان انتظامیہ اس قابل ہوگئی ہے کہ 2014ء میں نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملکی حالات کو کنٹرول کرسکے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: میں پہلے بھی کئی بار میڈیا پر کہہ چکا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس میں شبہ ہے کہ 2014ء میں نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان کا جو معاشرہ ہے ۔ کئی سو سال سے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی یہ خواہش کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت بن جائے جسے نیم جمہوری (semi-democratic) حکومت کہا جاسکے، اور اس میں کچھ تھوڑی سی ماڈرن بنانے کی بھی جھلک پائی جاتی ہو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ فی الحال افغانستان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی، اور جس قسم کی ٹرائیبل سوسائٹی ہے کہ یہ ایک پسماندہ معاشرہ ہے۔ اس میں مجھے یہ امریکی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان اور ایران کے درمیان جو بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ لگتا نہیں کہ امریکہ اس کی وجہ سے ہم سے ناراض رہتا ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: جی یہ بالکل صحیح ہے اور ایران سے اچھے تعلقات پر دباو پڑتا رہتا ہے۔ اس سے تعلقات کے سلسلے ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کے ایران کے ساتھ جو تعلقات ہیں، ایک لحاظ سے بہت زیادہ قریبی نہیں ہیں۔ چونکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے جو تعلقات پاکستان کے تاریخی لحاظ سے ایران سے ہوا کرتے تھے اس میں بہت کمی آگئی تھی اور خاص طور پر ضیاءالحق کے زمانے میں تعلقات تو بالکل ختم کردئیے گئے تھے۔ پاکستان جہاد میں مصروف رہا۔ جو امریکہ کی طرف سے sponsored کیا گیا تھا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران کے حوالے سے پاکستان پر امریکہ کے pressure tactics جاری ہیں۔ اور پاکستان ان پریشرز کو محسوس بھی کرتا ہے، اور ایران کے حوالے سے پاکستان ان پریشرز کو محسوس بھی کرتا ہے اور امریکہ کے اس دباو کو قبول بھی کرتا ہے ۔ تو یہ ایک مسئلہ پاکستان کو درپیش ہے۔

اس سلسلے میں بھی ضرور ایک اہم صورت حال یہ بھی بنتی ہے کہ ایران کا جو نیوکلیئر پروگرام ہے۔ امریکہ کا یہ خیال ہے کہ اس میں ابتدا میں پاکستان کی طرف سے مدد کی گئی تھی۔ اور (آپ کو یاد ہو گا کہ) ڈاکٹر عبدالقدیر پر الزام لگایا گیا تھاکہ انہوں نے ایران کو ٹیکنالوجی مہیا کی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ان تعلقات کی وجہ سے امریکہ پریشان ہے اور اس کا خیال ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران سے پاکستان کو الگ کردیا جائے۔

اسلام ٹائمز: گیس پائپ منصوبے میں جو امریکہ کی طرف سے مختلف بیانات آتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر کا اخبارات میں بیان ہے کہ امریکہ کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر تشویش ہے۔ کیا یہ justified ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن: یہ justified تو اس لئے نہیں ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں آزاد اور خودمختار ممالک ہیں، اور وہ اپنی بھلائی کے لئے ترقی کے لئے، بہتری کے لئے، توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی بھی منصوبہ بنا سکتے ہیں اور کسی دوسری ریاست یا تیسرے ملک کو حق نہیں ہے کہ وہ ان کے اعتراضات ہیں ان کو بنیاد بنا کر اپنے مفاد کے لئے کسی ملک پر دباو ڈال سکیں کہ وہ ان کی پالیسیز کے مطابق اپنی پالیسیز کو تشکیل دیں۔

اسلام ٹائمز: گیس پائپ لائن منصوبے میں رکاوٹ امریکہ ہے یا پاکستان کی سیاسی قیادت اور معیشت کی کمزوری ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: پاکستان کی سیاست، معیشت حکومت کی کمزوری بھی اسی لئے ہے کہ امریکہ کے دباو کو وہ قبول کرتے ہیں۔ اور کمزور ہونے کی وجہ سے وہ دباو قبول بھی کرتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے میں تاخیر میں یقینا امریکہ کا دباو ایک اہم کردار ادار کررہا ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی دباو سے کیسے باہر نکلا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: امریکی دباو سے نکلا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر behave کرنے لگے، اور امریکہ کو صرف اس حد تک اپنا دوست سمجھے جس حد تک دونوں کے فائدے میں کوئی پالیسیز ہوں۔ اس کا subservient بن کر زندگی گذارنے سے انکار کردے۔ اس کے لئے پاکستان کی لیڈر شپ میں جرات کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت بھی ہونی چاہیے اور پاکستان کے عوام کو بھی متحد ہوکر ملک کی سکیورٹی اور ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 220304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش