0
Sunday 10 Feb 2013 13:08
سانحہ کوئٹہ کیخلاف ملک میرے کہنے پر جام ہوا

لوگوں کو شناخت کرکے مارا گیا، جلد اسلام آباد کے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنی شناخت پیش کرینگے، علامہ ساجد نقوی

لوگوں کو شناخت کرکے مارا گیا، جلد اسلام آباد کے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنی شناخت پیش کرینگے، علامہ ساجد نقوی
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائمقام صدر اور سربراہ اسلامی تحریک پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں کہ جنہوں نے امن و امان اور وطن عزیز کی سلامتی کے لئے دن رات ایک کیا۔ انہوں نے تمام سیاستدانوں سے روابط رکھ کر ثابت کر دیا کہ سیاست کو صرف مسلکی مطالبات تک محدود کرنا اسلامی نقطہ نظر کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ شیعہ علماء کونسل کے سربراہ سخت گیر موقف رکھنے کو پسند نہیں کرتے، لیکن تشیع کے دفاع اور عزاداری سیدالشہداء کے تحفظ سے بھی غافل نہیں۔ اسلام ٹائمز نے آمدہ الیکشن اور موجودہ تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے علامہ ساجد نقوی سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا گورنر راج واقعاً مسائل کا حل ہے۔؟
علامہ ساجد نقوی: میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ وہاں پر لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ہے۔ قاتلوں اور مجرموں کو بے نقاب کرکے ان کو کیفرکردار تک پہنچانا، یہ ذمہ داری ریاست و حکومت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے، وہ اس مسئلے کو یقینی بنائیں، اگر گورنر راج سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس کے ذریعے حل کریں، اگر کسی اور طریقے سے ہوتا ہے تو اس طرح حل کریں۔ تاکہ لوگوں کے اندر احساس تحفظ وجود میں آئے اور لوگوں کو سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔

اسلام ٹائمز: آمدہ انتخابات کے حوالے سے کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔؟

علامہ ساجد نقوی: اسلامی تحریک پاکستان جس کا اس سے قبل بھی انتخابات میں فیصلہ کن رول رہا ہے، کسی دور میں دو تہائی اکثریت میں بھی ہمارا رول تھا، جس پر بڑے بڑے فیصلے ہوئے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم انتخابات میں فیصلہ لیں گے، رابطے شروع ہوگئے ہیں۔ الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ دونوں طریقوں سے انتخابات میں وارد ہوسکتے ہیں۔ ہم سوائے تکفریوں کے کسی بھی جماعت سے الائنس کرسکتے ہیں۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت ہمارے ساتھ ہے، خاص طور پر خاموش اکثریت ہمارے کہنے پر ووٹ دیتی ہے۔ میں کسی فرقے کی بات نہیں کر رہا، عوام کی بات کر رہا ہوں، آئندہ انتخابات اگر فری اینڈ فیئر ہوئے تو ہمارا ووٹ تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: عوامی نیشنل پارٹی سے ہونے والی ملاقات کس حوالے سے تھی۔؟

علامہ ساجد نقوی: آج ہی ہمارے پاس عوامی نیشنل پارٹی کا وفد آیا تھا، انہوں نے ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کی دعوت دی ہے۔ اس دعوت کو ہم نے قبول کیا ہے۔ انشاءاللہ ہم اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے نئے میرکارواں کا انتخاب کب تک متوقع ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: دو دن قبل ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں کھل کر بحث ہوئی۔ قاضی حسین احمد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ظاہر ہے قاضی حسین احمد کا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ عالم اسلام میں ان کا ایک نام تھا۔ امت کو متحد کرنے میں ان کا ایک معتدل اور منطقی موقف تھا۔ اس کے بعد آئندہ صدر کے حوالے سے فیصلہ ہوا اور صدر کے چناؤ کا اختیار ہمیں تفویض کیا گیا کہ ہم تمام جماعتوں کے سربراہوں سے مشاورت کرکے آئندہ صدر کے لئے اجلاس بلائیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، اس معاملے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ ساجد نقوی: دہشت گردی کے حوالے سے جلد ایک سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے، ہم اپنا موقف وہاں بیان کریں گے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ نسل کشی رکنے کا نام نہیں لے رہی، صورتحال روز بروز ابتر ہو رہی ہے، اس مسئلے کا کیا حل ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: یہ سب کچھ ایک پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ کچھ مقاصد ہیں اور کچھ اہداف ہیں، اس کے تحت یہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ جو میں سمجھتا ہوں کہ ریاست کے لئے بدنامی کا باعث ہیں۔ اس حوالے سے اعلٰی سطح کا عدالتی کمیشن بنایا جائے، جس کے قواعد و ضوابط بڑے روشن اور واضح ہوں۔ جسمیں چیف جسٹس کے علاوہ چاروں صوبائی عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان شامل ہوں اور حقائق کو آشکار کیا جائے۔ مجرموں اور ان کے پشت پناہوں کو بےنقاب کیا جائے۔ اس قتل عام میں پاکستان کے اندر کے لوگ ملوث ہیں۔ پھر آپ دیکھ لیجئے کہ لوگوں کو شناخت کرکے مارا گیا، اس کا مطلب ہے کہ اس ملک کے مالک کوئی اور بننے جا رہے ہیں اور اس کی ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ ان کو شناخت کی ضرورت نہیں پڑے گی، یہ شناخت ہم خود کروائیں گے۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی پلیٹ فارم پر میں شناخت پیش کرونگا، اور پھر میں یہ بھی بتاؤں گا کہ ہمیں یہاں زندہ رہنے کا حق ہے اور زندہ رہنے کا ہمارا طریقہ کار کیا ہوگا، اس لئے کہ یہاں زندگی کا تحفظ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم اس ملک کا حصہ ہیں اور طاقت ور حصہ ہیں۔ پہلے دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکاؤ، پھر سزائے موت کے خاتمے کی بات کرو۔ جو لوگ مارے گئے اس کا جواب کون دے گا، حکومتیں تو بےبس ہیں، ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ صرف قومی خزانہ ان کی دسترس میں ہے اور کوئی چیز ان کی دسترس میں نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: عدالتوں سے دہشتگردوں کو اس بناء پر رہا کر دیا جاتا ہے کہ ثبوت ناکافی ہوتے ہیں، کیا قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔؟
علامہ ساجد نقوی: آئین و قانون میں ترامیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اگر آئین کمزور ہے تو نیا سوشل کنٹریکٹ بناؤ، آپ کا یہ سسٹم فیل ہوگیا ہے، اگر خود جان بوجھ کر ایسا نہیں کر رہے ہو تو مجرموں کو کٹہرے میں لاؤ۔ میرے مدعی مارے گئے، میرے گواہ مارے گئے۔ میں خود اس مسئلے میں متاثر ہوں، میرا کیس کیسے پیش ہوا ہوگا۔ کس نے مارے، مارے بھی بڑی پلاننگ کے تحت، اب کیس کیسے پیش ہوگا اور مجرموں کو سزا کیسے ہوگی۔ مدعی کیسے عدالت میں جائے، میں گواہ کہاں سے لاؤں گا۔

اسلام ٹائمز: دینی طاقتیں تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، کیا ایسی صورتحال پارلیمان میں دینی طاقتوں کی کمزور نمائندگی کا باعث نہیں بنے گی۔؟

علامہ ساجد نقوی: دینی قوتیں اگر مجتمع ہوجائیں، جماعتوں کے منشور انسانی دماغ کا شاہکار ہیں۔ اسلامی نظام میں اصل اصول وحی الہی نے طے کئے ہیں۔ اس کا اطلاق وہ لوگ کریں گے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہی اسلامی سسٹم ملک کو چلانے کے لئے سب سے بہتر ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ دینی قوتوں کو دوبارہ مجتمع کیا جائے۔ دینی قوتوں کے زیر اثر کثیر تعداد میں جو ووٹ ہے، وہ ایک طاقت بن کر ابھر سکتا ہے۔

اسلام ٹائم:کیا گورنر راج کے خاتمے پر دوبارہ احتجاج شروع ہوسکتا ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: گورنر راج جو نافذ ہوا، وہ ہمارے کہنے پر ہوا، ٹیکسلا سے لیکر حیدر آباد تک ملک ہمارے کہنے پر جام ہوا۔ جی ٹی روڈ اور نیشنل ہائی وے میرے اپنے کہنے سے بلاک ہوا۔ انڈس ہائی وے بھی جامشورو سے لیکر ڈی آئی خان تک جام ہوئی، یہ سب اسلامی تحریک کے کارکن تھے جو وہاں موجود تھے۔ اصل میں کوئٹہ کی یکجہتی کونسل نے یہ کام شروع کیا۔ تین چار دن تک لاشیں وہاں رکھیں۔ کسی نے رول ادا کیا، میں اس کی نفی نہیں کرتا، میں اصل حقائق آپ کو بتا رہا ہوں۔ اس یکجہتی کونسل کی حمایت میں پورے ملک میں ہم نے دھرنا دیا۔ کراچی ایئرپورٹ بلاک ہو رہا تھا، ریلوے کا نظام بند ہو رہا تھا، میں نے روکا۔ ہم نے ایک نمونہ دکھایا، لیکن ہم اس ملک میں اس سے بڑھ کر بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت نے گورنر راج نافذ کیا۔ اصل مطالبہ لوگوں کی جانوں کا تحفظ ہے، گورنر راج ہو یا کوئی دوسری چیز۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں آپ نے تختی کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا اور پورے ملک سے نمائندے کھڑے کئے، لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی، اب کی بار کیا تیاری ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: سن 1988ء میں ہم نے الیکشن میں تختی کے نشان پر حصہ لیا تھا۔ وہ ہمارا پہلا قدم تھا۔ وہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت نوابزادہ نصراللہ جیسے آدمی نے کہا تھا کہ یہ لوگ انتخابات میں آئے ہیں۔ یہ نئے ہیں آگے جائیں گے۔ ہم تشیع کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑیں گے، ہم نے کہا کہ اسلامی تحریک الیکشن میں وارد ہوگی، اب انتخابات میں وارد ہونے کے کئی طریقے ہیں۔ شیعوں میں دھڑے ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم کسی دھڑا بندی میں شریک نہیں ہیں۔ لوگ ہمارے کہنے پر پہلے بھی ووٹ دیتے رہے۔ ایک سیٹ پر یا بیس سیٹوں پر، یہ تو حالات کے تقاضوں پر منحصر ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے آپس کے اختلافات ملی یکجہتی کونسل کی عاملہ کے اجلاس میں بھی کھل کر سامنے آئے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ ساجد نقوی: یہ آپس کا اختلاف نظر ہے، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور لوگ بھی تو تھے اختلاف کرنے والے، اور اسی اختلاف کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں آسکا، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری سابقہ پالیسی تشیع کی بہتری کے حوالے سے موجود ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، کوئی کچھ اور سوچتا ہے تو یہ اس کا کام ہے۔ ہمارے لئے ان معاملات میں کوئی پرابلم نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت کی رائے ہمیں ملے گی، یہ الگ بات ہے، ابھی صرف ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم انتخابات میں حصہ لیں گے۔ کیسے لیں گے یہ آگے کی بات ہے۔ کس انداز میں آئیں گے؟ کیسے آئیں گے؟ وہ فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔ عوام کی سپورٹ ہمارے ساتھ برقرار ہے۔ اگر اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی اور کرے گا، ہمارا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے کی بحالی کے آثار بہت کم نظر آرہے ہیں، جے یو آئی والے بھی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ ساجد نقوی: کوئی کسی کے ساتھ نہیں گیا، آپ اپنی اطلاعات درست کرلیجئے۔ یہ صرف رابطے ہیں۔ ہمارے اپنے حالات تھے، کسی وجہ سے اجلاس اب آکر ہوا۔ کچھ مسائل تھے اور کچھ امور تھے، جن کے حوالے سے ہم منتظر تھے۔

اسلام ٹائمز: یہ رابطے ہی ہوتے ہیں جو سیاسی پارٹیوں کو ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔؟

علامہ ساجد نقوی: سیاست میں رابطے تو ہوتے ہیں، ہم نے اپنی عاملہ میں طے کیا ہے کہ الیکشن میں کیسے وارد ہونا ہے۔ رابطوں کے حوالے سے بھی طے کیا گیا ہے اور کلیات طے ہوئیں ہیں۔ اب آگے معاملہ چل رہا ہے، جیسے آج اے این پی والوں کے ساتھ رابطہ ہوا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ جان نچھاور نہ کریں صرف ایک پرچی نچھاور کریں، عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

علامہ ساجد نقوی: جان نچھاور کرنا، ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ جان نہیں مانگتے صرف ایک پرچی نچھاور کریں، اپنے حقوق کے لئے، ہمارے لئے نہیں۔ اس پرچی سے سیاسی قوت پیدا ہو اور اس سیاسی قوت سے اپنے حقوق حاصل کئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پر پابندی لگی تھی، کیا آپ نے اسے دوبارہ الیکشن کمیشن سے کلیئر کرا لیا ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: اسلامی تحریک دو مرتبہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعت ہے۔ ہم الیکشن کمیشن کے لوازمات پور ے کرچکے ہیں اور ہماری جماعت اسلامی تحریک کا نام الیکشن کمیشن نے لسٹ میں دیا ہے۔ جن جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے لوازمات کو پورا نہیں کیا، ان کی لسٹ سے ہمارا نام حذف ہوگیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت وقت کیسے بےبس ہے۔؟

علامہ ساجد نقوی: آپکی حکومت کے پاس دفاع، خارجہ، مالیاتی امور اور امن و امان نہیں ہے۔ حکومت ہوتی ہی امن و امان کو قائم کرنے کے لئے ہے۔ لیکن اس حکومت کے پاس امن وامان بھی نہیں ہے، یعنی اس حکومت کا جواز ختم کر دیا گیا، ملک کو ایسے انداز میں چلایا جا رہا ہے کہ جہاں حکومتوں کے جواز کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر فوج نے ایک نیا ڈاکٹرائن پیش کیا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ملک آخر یہاں تک پہنچا کیوں۔؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کے تحت جو اختیارات الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں، وہ ملنے چاہییں اور جو انتظامی فیصلے وہ کر رہے ہیں، ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ تین بنیادی چیزیں ہیں، ایک الیکشن کمیشن جو کہ بن گیا، دوسرا شفاف نگران حکومت، وہ آئین کے مطابق ہونی چاہیے۔ کوئی ایسی کوشش جس سے انتخابات ملتوی ہوں، ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ تیسری بات انتخابات کا آزادانہ اور شفاف انعقاد۔
خبر کا کوڈ : 238503
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش