0
Friday 1 Mar 2013 00:00

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی امریکہ کے کہنے پر چل رہی ہیں، عزیر جان بلوچ

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی امریکہ کے کہنے پر چل رہی ہیں، عزیر جان بلوچ
عزیر جان بلوچ کراچی کے گنجان آباد اور قدیم ترین علاقے لیاری کی بااثر ترین شخصیت قرار دیئے جاسکتے ہیں، سردار عبدالرحمان بلوچ کی ہلاکت کے بعد وہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے، جس کے بعد بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے پیپلز امن کمیٹی پر متنازعہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، اسی دوران حکومت نے پیپلز امن کمیٹی پر پابندی لگا دی اور سرکردہ رہنماؤں پر مقدمات قائم کئے گئے، لیاری میں پولیس آپریشن بھی کیا گیا، جس پر سردار عزیر جان بلوچ نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور تاحال ناراض ہیں۔ اسی پس منظر میں عزیر جان بلوچ سے خصوصی گفتگو کی گئی، جس نے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا اور مستقبل کے متعلق بھی متعدد امکانات کی نشاندہی کی۔ یہ گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: سردار عزیر جان کا پس منظر کیا ہے، پیپلز پارٹی سے وابستگی کیسے ہوئی۔؟
عزیر جان بلوچ: میرا پورا نام سردار عزیر جان ہے اور میں سربازی ایرانی بلوچ ہوں، تعلیم انٹر تک حاصل کی، میٹرک سائنس سے اور انٹر آرٹس سے کیا ہے۔ پیپلز پارٹی سے پیدائشی وابستگی تھی، باپ دادا بھی پی پی کو ووٹ دیتے آ رہے ہیں اور میں نے بھی پہلا ووٹ پی پی کو ہی دیا۔ اب بعض مسائل کی وجہ سے وابستگی نہیں رہی اور استعفٰی دے دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کس حیثیت اور پارٹی کے کس عہدے سے استعفٰی دیا۔؟
عزیر جان بلوچ: میں نے بحیثیت ایک ورکر استعفٰی دیا جبکہ ہماری ذاتی حیثیت بھی ہے، میں اپنے لوگوں کی لیاری، کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان میں سربراہی اور سرپرستی کرتا ہوں، بعض معاملات پیش کئے، جس پر پارٹی سے ناراضی ہوئی۔ لیکن اب پارٹی والے کہہ رہے ہیں کہ معاملات حل کریں گے لیکن قسم کھالی ہے کہ اب دوبارہ پی پی جوائن نہیں کروں گا، جبکہ مسائل کے حل کی صورت میں اپنے لوگوں اور بزرگوں کو اجازت دی ہے کہ وہ چاہیں تو دوبارہ شمولیت اختیار کرلیں۔

اسلام ٹائمز: لیاری میں 2012ء پولیس آپریشن کی کیا وجوہات تھیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔؟
عزیر جان بلوچ: آپریشن کے پیچھے پارٹی میں موجود بعض مفاد پرست ایم پی ایز، ایم این ایز تھے، جن میں نبیل گبول، رفیق انجینئر اور سلیم ہنگورو شامل ہیں۔ ان کا لیاری میں دھندہ چل رہا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ لیاری کے لوگ ترقی کریں، انھیں روزگار ملے، لیاری کے بچے اچھے اسکولوں میں نہ پڑھیں، اسکول تباہ کر دیئے گئے۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ لوگوں کو بنیادی سہولیات ملیں، جب ہم نے ان کیخلاف آواز اٹھائی تو اسے دبانے کیلئے آپریشن کیا گیا۔ رفیق انجینئر تو ذہنی مریض ہے، مسجد کے باہر نماز کے وقت نماز ادا کرنے کے بجائے ورزش کرتا تھا جبکہ نبیل گبول وہ شخص تھا جس نے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے چچا سے دو لاکھ قرض لیا اور آج کروڑوں کا مالک ہے۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ یہ سیاسی موت مرچکے ہیں اور اگر نام لیا تو دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ الزام تو عائد کر رہے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ لیاری میں آپریشن سے انکو کیا فائدہ ہوگا اور لیاری میں اگر ترقیاتی کام نہیں ہوں گے تو لوگ ووٹ کیوں دیں گے۔؟
عزیر جان بلوچ: فائدہ تو ہوتا ہے، تمام کام کاغذوں میں ہوتا تھا اور یہ لوگ فنڈز کھا جاتے تھے اور لوگ کبھی نہیں پوچھتے تھے اور اب پہلی بار ہم نے پوچھا تو ان کو ناگوار گزرا اور آپریشن کر ڈالا۔ جہاں تک ووٹ ملنے کی بات ہے تو لیاری کے عوام ان ناموں کو نہیں بلکہ شہید بینظیر اور پیپلز پارٹی کے نام کو ووٹ دیتے تھے۔

اسلام ٹائمز: کیا فنڈز کی خرد برد اور لیاری میں ترقیاتی کام نہ ہونے کا علم پارٹی کی اعلٰی سطح کی قیادت کو نہیں تھا، کیا وہ اتنے لاعلم تھے کہ انکے اتنے مضبوط گڑھ میں کیا ہو رہا ہے۔؟
عزیر جان بلوچ: اس بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے، البتہ لیاری کے عوام نے اپنی آواز صدر پاکستان و پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف زرداری تک پہنچانے کیلئے احتجاج بھی کیا، جس کے نتیجے میں ہم پر فائرنگ اور شیلنگ کی گئی، لوگ زخمی ہوئے۔ پارٹی کے انہی مفاد پرست عناصر نے پارٹی لیڈر شپ کو غلط گائیڈ کیا اور عوام پر تشدد کروایا، جس سے لیاری کے عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی اور لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ہماری حکومت میں ہی ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہوگا تو ہم کس سے شکوہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا زرداری صاحب کو اس آپریشن کا علم تھا، یا براہ راست زرداری صاحب کے اشارہ پر یہ آپریشن کیا گیا۔؟
عزیر جان بلوچ: زرداری صاحب کا ہاتھ تھا یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں، البتہ چند مفاد پرست لوگوں کا ہاتھ ضرور تھا۔

اسلام ٹائمز: سردار عبدالرحمان کے بعد آپ بھی متعدد پی پی رہنماؤں کے بہت قریب رہے، کیا وجہ ہے کہ آپ بھی عتاب کا نشانہ بن گئے۔؟
عزیر جان بلوچ: یہ درست ہے کہ میں قریب رہا اور انکا پسندیدہ بھی رہا، لیکن جب میں نے لیاری کے عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور لیاری میں ترقیاتی کاموں کا مطالبہ کیا تو نبیل گبول، رفیق انجینئر اور سلیم ہنگورہ نے قسم کھا کر یقین دلایا کہ لیاری میں کام کریں گے، جو پہلے ہوچکا اب نہیں ہوگا، لیکن وہ قسم کھا کر مکر گئے اور دوبارہ جب انھیں یاد دلایا گیا تو اس کا انجام سب نے دیکھا، یہی وجہ ہے میرے عتاب کا شکار ہونے کی، لیکن وہ بھی ملک بھر میں اور پوری دنیا کے سامنے بے عزت ہوگئے ہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ ان سے حساب لیا جائے کہ الیکشن لڑنے کیلئے قرض لینے والوں کے پاس آج 500 کروڑ کہاں سے آگئے۔ لوگوں کے تحفظات ہیں، جب بھی حکومت آئی لیاری کے عوام کو نہ نوکریاں ملیں، نہ ترقیاتی کام ہوئے، یہ لوگ ترقیاتی فنڈز کھا جاتے ہیں اور نوکریاں بیچ دیتے ہیں، جو لیاری کے عوام کا حق ہے۔ اب اگر یہ لوگ لیاری آئے تو لوگ انھیں جوتوں کا ہار پہنائیں گے، اور ایسا استقبال کریں گے کہ یہ الیکشن کے قریب بھی نہیں آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا ان کو اندازہ نہیں تھا کہ آپ ان کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے اور اتنے ٹف ثابت ہوں گے اور اگر احساس تھا تو کیا کبھی آپ کو بھی پیسوں کا لالچ دیا گیا کہ خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھانے دو اور چپ رہو۔؟
عزیر جان بلوچ: پیسوں کی آفر تو ان ایم پی ایز اور ایم این ایز کی جانب سے بہت بار ہوئی، یہ آفر 25 کروڑ تک کی تھی، کہا جاتا تھا پیسہ کماؤ، اس میں بڑی طاقت ہے، لیکن میرا جواب ہمیشہ یہی رہا کہ پیسہ اس کو اچھا لگتا ہے جس نے کبھی دیکھا نہ ہو۔ پیسوں کی آفر کرنے والوں میں بہت سے خطرناک لوگ بھی شامل تھے۔

اسلام ٹائمز: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کے اختلافات کی وجہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پارٹی ٹکٹ مانگنا ہے۔؟
عزیر جان بلوچ: میں نے کبھی پارٹی ٹکٹ نہیں مانگا اور نہ کبھی الیکشن لڑنے کا سوچا، عوام کی خواہش ضرور ہے کہ انتخابات میں حصہ لوں، لیکن اب تو بالکل نہیں لے سکتا کیونکہ اتنے جھوٹے مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں، مجھ سمیت متعدد افراد کے سر کی قیمت بھی مقرر ہے، ہم نے صدر اور وزیراعظم کو درخواستیں بھی دی ہیں کہ ان مقدمات کی انکوائری کی جائے۔ جس کا ابھی تک تو کوئی مثبت جواب نہیں آیا، البتہ 11 افراد کے سر کی قیمت کے احکامات واپس لے لئے گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اختلافات کے بعد کتنی بار مصالحت کی آفر ہوئی اور اگر پیشکش ہوئی تو کس سطح پر کی گئی۔؟
عزیر جان بلوچ: ہماری بزرگ کمیٹی نے پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت سے ملاقاتیں اور مذاکرات کئے ہیں، انھوں نے لیاری کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اسلام ٹائمز: مصالحت کے بعد آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی اور کیا دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔؟
عزیر جان بلوچ: مصالحت کے بعد بھی میں پیپلز پارٹی جوائن نہیں کروں گا، کیونکہ میں نے قسم کھالی ہے اور بلوچ کی ایک زبان ہوتی ہے۔ میری قوم اور رعیت مسائل حل ہونے کے بعد پی پی کو ووٹ دینا چاہیں تو میں نے ان کو اجازت دے دی ہے، میں خاموشی سے بیٹھ جاؤں گا۔

اسلام ٹائمز: سیاسی ورکر ہوتے ہوئے کیسے نیوٹرل بیٹھیں گے، کیا یہ مشکل نہیں ہوگا، اس طرح تو سیاسی کیرئیر ختم ہوجائے گا۔؟
عزیر جان بلوچ: وہ اور سیاسی لوگ ہوتے ہیں جن کا کاروبار انکی سیٹ ہوتی ہے، میرا مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہے، کراچی میں امن دیکھنا چاہتا ہوں، نہ سیٹ کا لالچ ہے اور نہ وزارت کا خواہشمند ہوں، میری خواہش ہے کہ ہر قوم، ہر مذہب کے لوگ جو ملک میں رہتے ہیں، انکو وہ تمام سہولیات ملیں، جو دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملتی ہیں۔ میمن، کچھی، سندھی، بلوچی، اردو اسپیکنگ، پنجابی، سرائیکی تمام قومیں جو لیاری میں رہتی ہیں، انکا مجھ پر اعتماد ہے اور انکی خدمت میں کسی جماعت سے منسلک ہوئے بغیر بھی کرتا رہوں گا۔

اسلام ٹائمز: سردار عبدالرحمان کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد بھی آپ نے پیپلز پارٹی کو خدا حافظ کہنے کا اعلان کیا، لیکن پھر کیا وجہ تھی کہ آپ نے رجوع کرلیا تھا۔؟
عزیر جان بلوچ: میں نے آج سے پہلے کبھی علیحدگی کا اعلان نہیں کیا، یہ پہلی بار کر رہا ہوں اور اس پر قائم رہوں گا، ہاں البتہ 2010ء میں احتجاج کے دوران پولیس تشدد کے بعد ضرور کچھ جذباتی بیانات دیئے گئے تھے، لیکن وہ صرف وقتی جذبات تھے۔

اسلام ٹائمز: کسی اور سیاسی پارٹی میں شمولیت کی دعوت ملی تو کیا قبول کریں گے، نون لیگ میں آپکی شمولیت کے حوالے سے بہت افواہیں ہیں۔؟
عزیر جان بلوچ: میرے تمام لوگ اگر پیپلز پارٹی میں جائیں گے تو مجھے کسی اور جماعت چاہے نون لیگ ہو، فنکشنل لیگ ہو یا کسی اور جماعت میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر میں کسی جماعت میں جاؤں گا بھی تو پوری قوم، قبیلے اور ساتھی جو مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، انکے ساتھ جاؤں گا۔

اسلام ٹائمز: آپ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپ کے لوگ اردو بولنے والوں کو لیاری میں داخل نہیں ہونے دیتے اور بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔؟
عزیر جان بلوچ: یہ سراسر غلط ہے۔ سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتاؤں کہ میرا سکیورٹی گارڈ اردو بولنے والا ہے۔ یہ ایم کیو ایم کا پروپیگنڈا اور سازش ہے، وہ بلوچ اور اردو بولنے والوں کو لڑانا چاہتے ہیں اور بعض ایسے بلوچ جو جرائم میں ملوث ہیں، وہ پیسوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں، جن میں بدنام زمانہ منشیات فروش اور اغواء برائے تاوان، قتل سمیت کئی جرائم میں ملوث حاجی لالو بھی ہے، جس کے سر کی قیمت بھی مقرر ہے۔ حاجی لالو کو متحدہ قومی موومنٹ نے استعمال کیا اور ان اردو بولنے والوں کو مروایا، جن کا اس جماعت سے تعلق نہیں تھا، پھر ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز نے بلوچوں کو قتل کیا، جس پر ایم کیو ایم نے پروپیگنڈا کیا کہ بلوچ اردو اسپیکنگ کے دشمن ہیں اور انہیں قتل کررہے ہیں۔ 
اردو اسپیکنگ پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی اور سمجھ دار قوم ہے، وہ اپنا برا بھلا اچھی طرح سمجھتی ہے، اس لئے عام افراد نے متحدہ کے ماضی اور حال کو دیکھ کر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، متحدہ ان کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی، اس لئے یہ سازش کی گئی اور اردو اسپیکنگ کو یہ تاثر دیا گیا کہ بلوچ انکے دشمن ہیں، لیکن ایم کیو ایم کی یہ سازش ناکام ہوگئی ہے، ایم کیو ایم نے لیاری کے بلوچوں کو بدنام کرنے کیلئے جو تشدد، قتل اور زیادتی کی فوٹیج بنوائی تھی، اس میں ملوث افراد سالار کمپاؤنڈ سے پکڑے گئے تھے، جو ایم کیو ایم کا علاقہ ہے۔ پکڑے جانے والوں میں دو یا تین بلوچ اور ایک کرسچن شامل تھا اور یہ سازش بے نقاب ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: لیاری میں آپ کا بہت اثر و رسوخ ہے اور آپ اسے تسلیم بھی کرتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ لیاری منشیات اور گینگ وار کے حوالے سے بدنام ہے اور عام شخص بھی یہاں آنے سے ڈرتا ہے۔؟
عزیر جان بلوچ: دیکھیں، جہاں تک منشیات کی بات ہے تو یہ تو ضیاءالحق کے دور کا تحفہ ہے، جو نہ صرف لیاری بلکہ پورے شہر اور پاکستان میں ایک زہر قاتل کی طرح پھیلا ہوا ہے، اس پر قابو پانے کیلئے حکومتی سطح پر کوشش کی جانی چاہیے، ہم بھی کسی حد تک کوشش کرتے ہیں۔ رہی بات گینگ وار کی تو یہ اصطلاح پرویز مشرف کے دور میں عام ہوئی، یہ بنیادی طور پر لیاری مخالف اور اس کے حامیوں کی لڑائی تھی، یعنی پی پی اور ایم کیو ایم کی لڑائی تھی۔ ایم کیو ایم مشرف کی حامی تھی اور وہ لیاری سمیت کراچی کے تمام علاقوں پر اپنا کنٹرول چاہتے تھے، اس مقصد کیلئے انھوں نے پولیس رینجرز اور دیگر حکومتی مشینری، ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر حاجی لالو اور ارشد پپو گروپ کا بھی استعمال کیا اور اسے گینگ وار کا نام دیا گیا۔ انھیں یہ غلط فہمی تھی کہ لیاری انہیں مل جائے گا، لیکن پی پی کے جیالوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔

اسلام ٹائمز: لیاری آپریشن کے دوران آپ نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے ہمراہ نقاب پوش ایم کیو ایم کے کارکن ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ آپریشن تو پی پی حکومت نے کروایا، لیکن ایم کیو ایم کے لیاری پر کنٹرول سے پی پی کو کیا فائدہ ہوتا۔؟
عزیر جان بلوچ: فائدہ اور نقصان کی بات جب کی جاتی ہے جب انسان ہوش میں ہو، بعض ایسے لوگ تھے جو اقتدار کے نشے میں تھے اور انھیں علم نہیں تھا کہ کتنی بڑی بے وقوفی کر رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے لوگوں کو مروا رہے تھے۔ 2008ء سے مفاہمت کے نام اور اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے پی پی کے جیالوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاتا رہا۔ بلدیہ، مہاجر کیمپ، ماڑی پور، لیاری، ملیر، ڈیفنس، ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں پی پی کے جیالوں کو قتل کیا گیا، لیکن لیڈر شپ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افرد کو پکڑا جاتا اور سزا دی جاتی۔ بعض قاتلوں کو گرفتار بھی کیا گیا، انھوں نے اپنے جرائم قبول بھی کئے، لیکن اس کے باوجود اتحادیوں کو خوش کیا جاتا رہا۔ آپریشن کے دوران بھی پولیس کے ہمراہ نقاب پوش ایم کیو ایم کے کارکن، ہم سے منحرف بلوچ اور امن کمیٹی کے مخالف لوگ کمک کے طور پر پولیس کے ساتھ آئے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی باتوں سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی کی قیادت مفاہمت اور اتحاد کے نام پر اپنے کارکنوں کو مرواتی رہی اور اس کا احساس نہیں تھا کہ کیا نتیجہ ہوگا۔؟
عزیر جان بلوچ: یہ ان کی غلطی تھی، میں سیدھا اور صاف گو سیاسی آدمی ہوں، کوئی ڈپلومیٹ نہیں کہ بات گھما پھرا کر بیان کروں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں لیاری کی اپنی ایک اہمیت ہے یہ پورٹ فرنٹ ایریا ہے اور اس سے متصل بزنس کا حب ہے، جہاں بڑی کاروباری ایکٹیویٹی ہوتی ہیں۔ نیٹو سپلائی یہاں سے جاتی ہے، یہ علاقہ امریکی اور مغربی مفادات کا حامل علاقہ ہے۔ ہانگ کانگ کی چین کو واپسی کے بعد کراچی کو متبادل کے طور پر رکھا گیا ہے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے امریکا اور تمام مغربی طاقتوں کیلئے کام کا ٹھیکہ ایم کیو ایم کو ملا ہے۔ طالبان کے بارے میں بھی آپ سنتے ہیں کہ وہ شہر میں آگئے ہیں اور انکی اتحاد ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، منگھو پیر میں موجودگی کی خبریں ہیں، ظاہر ہے طالبان شہر میں آئیں گے تو نیٹو سپلائی خطرہ میں پڑ جائے گی اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا، جبکہ ایم کیو ایم کو امریکی مفادات کے تحفظ کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ لٰہذا وہ اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرکے پورٹ پر نظر رکھ سکیں گے۔

اس مقصد کیلئے ایم کیو ایم کے ذریعے سب سے پہلے مشرف دور میں لیاری پر حملہ کیا گیا، کیونکہ چودہ پندرہ لاکھ کی آبادی کا یہ واحد علاقہ ہے جہاں کے عوام ہمیشہ جمہوریت کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں، ایم آر ڈی کی تحریک بھی یہیں سے چلی۔ مشرف دور میں ایم کیو ایم کے ہوم منسٹر نے لیاری کے جرائم پیشہ افراد ارشد پپو کے والد حاجی لالو، جو اس وقت حسین آباد، شیر شاہ اور دیگر علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتا تھا، کو استعمال کیا اور اس کو یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کو لیاری میں داخلے میں مدد دے، جس کے بدلے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ دیا جائے گا، لیکن بلوچ نوجوانوں نے مزاحمت کی، جسے گینگ وار کا نام دیا گیا، لیکن انکو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سٹی الائنس کے پلیٹ فارم پر مختلف سیاسی اور جمہوریت پسند جماعتیں کام کر رہی ہیں، جس سے ایم کیو ایم کو اپنی سیٹیں ہاتھوں سے نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں، جس میں فاروق ستار، خوش بخت شجاعت اور شعیب منصور کی نشستیں شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی باتوں سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی کی لیڈر شپ بالکل انجان تھی یا پھر جانتے بوجھتے اس کھیل کا حصہ بنی رہی۔؟
عزیر جان بلوچ: پی پی کا المیہ یہ ہے کہ یہ بھی وڈیرانہ سوچ کی حامل جماعت ہے اور اس میں بھی جاگیردار موجود ہیں، ایم کیو ایم اگر امریکہ کے کہنے پر چل رہی ہے تو پی پی بھی تھوڑا بہت امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے لوگ بھی بہت تربیت یافتہ لگتے ہیں اور آپریشن کے دوران بھی آپ نے بڑا جدید اسلحہ استعمال کیا، پولیس چیل چوک سے آگے نہیں بڑھ سکی، ٹریننگ کہاں سے لی، کیا بی ایل اے کی کوئی سپورٹ ہے اور اسلحہ کا حصول کیسے ممکن ہوا۔؟
عزیر جان بلوچ: بی ایل اے والے تو جان کے دشمن ہیں، رہی اسلحہ کی بات تو اسلحہ بلوچوں کا زیور ہے اور ان کے پاس باپ دادا سے لائسنس والا اسلحہ موجود ہے۔ بلوچ ایک جنگجو قوم ہے، وقت آنے پر مرنے مارنے سے بھی نہیں کتراتے، اس کا عملی مظاہرہ لیاری آپریشن کے دوران سب نے دیکھ لیا۔ اب آپ انکو ٹرینڈ کہیں یا کچھ اور۔

اسلام ٹائمز: کیا بحیثیت بلوچ آپ آزاد بلوچستان کے حق میں ہیں اور کیا کبھی کسی آزاد بلوچستان کے حامی لیڈر یا بلوچ رہنما نے رابطے کی کوشش کی۔؟
عزیر جان بلوچ: ہم ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے، ہمارا سب کچھ پاکستان ہے اور جینا مرنا اسی سرزمین کے ساتھ ہے، میں آپ کے سوال کا جواب صرف چند مثالوں سے دوں گا، جس کے بعد شاید آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے۔ آج ملک میں ہر دوسری جماعت کے جلسوں میں آپ کو پاکستانی جھنڈے نظر آتے ہیں اور یہ ٹرینڈ بھی ہم نے متعارف کرایا۔ 2010ء میں 23 مارچ کو مزار قائد تک جب پی پی امن کمیٹی نے ریلی نکالی تو اس میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پاکستان کا جھنڈا نظر آیا، اس کے بعد جب ہم نے 14 اگست کو بھی ریلی نکالی تو اس میں بھی صرف پاکستان کا جھنڈا تھا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کیخلاف امریکی ایمبیسی تک جب ہم نے ریلی نکالی تو امریکی ایمبیسی پر پاکستانی پرچم لہرانے والے امن کمیٹی کے کارکن ہی تھے، جس کے بعد عمران خان، طاہر القادری اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنے جلسوں میں پاکستانی جھنڈے لہرانا شروع کر دیئے، میرے خیال میں حب الوطنی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپریشن کے دوران بھی آپ فوج اور رینجرز پر اعتماد کا اظہار کرتے رہے اور انکو گرفتاری دینے کیلئے تیار رہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بھی کسی ایجنسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔؟
عزیر جان بلوچ: اس وقت تک فوج اور رینجرز ہماری نظر میں متنازع نہیں تھی، اب بھی فوج کو متنازع نہیں سمجھتے، البتہ رینجرز میں بعض عناصر سازشوں میں ملوث ہیں، جن کے بارے میں ڈی جی رینجرز کو آگاہ کر دیا ہے کہ انکی صفوں میں بھی کچھ گندے لوگ ہیں۔ فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے، امید ہے کہ ایسے افراد کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عام شہریوں اور جرائم پیشہ افراد میں فرق کرنا چاہیئے۔ اگر شہر کو اسلحہ سے پاک کرنا ہے تو پورے شہر میں آپریشن کیا جائے، صرف لیاری میں نہیں۔ رہی ایجنسیوں کی بات تو ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور اگر کسی ایجنسی کا ہاتھ سر پر ہوتا تو اتنی مشکل میں نہ ہوتے۔

اسلام ٹائمز: آپ پرالزام ہے کہ آپ بھی بھتہ لیتے ہیں اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں، کیا کہیں گے اس بارے میں؟
عزیر جان بلوچ: ہم بھتہ خوروں کیخلاف ہیں، لیکن بعض بلوچ ایم کیو ایم کے آلہ کار بن کر ہمارا نام استعمال کرکے بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان جیسا گھناؤنا کام کر رہے ہیں، حال ہی میں ایک اسماعیلی شخص اغواء ہوا، ہماری اطلاع کے مطابق اسے ارشد پپو گروپ نے اغوا کیا ہے، جس کا میں نے تمام ایجنسیوں کو بتا دیا ہے، ان کی قید میں مزید دو افراد بھی ہیں، جنہیں حب چوکی کے قریب ساکران روڈ پر ہیروئن کے بڑے ڈیلر آغا جانان کے اڈے پر رکھا گیا ہے، لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے ٹھکانے پر ریڈ کرے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات کے حوالے سے آپ کی کیا حکمت عملی ہے کس کو سپورٹ کریں گے۔؟
عزیر جان بلوچ: آئندہ انتخابات اور سیاسی حکمت عملی کا اعلان 2 مارچ کو بلوچ کلچرل ڈے پر کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پی پی اور کراچی کے عوام کو کیا پیغام دیں گے۔؟
عزیر جان بلوچ: پی پی حکومت اور لیڈرشپ کو بھی پیغام 2 مارچ کو ہی دوں گا۔ کراچی کے عوام کو کہوں گا کہ میرا ساتھ دیں، شہر کو دہشتگردوں سے بچائیں، کیونکہ یہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ میری خواہش ہے کہ شہر امن کا گہوارہ بنے اور دوبارہ روشنیوں کا شہر ہو، معیشت بحال ہو، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگ آزاد فضا میں سانس لیں، امید ہے کہ شہر کے عوام امن کیلئے کردار ادا کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 243134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش