0
Wednesday 24 Jul 2013 00:30

سابق پی اے بصیر نے ناجائز آبادی کی مسماری کا باقاعدہ حکم جاری کیا تھا، علامہ عابد حسینی

سابق پی اے بصیر نے ناجائز آبادی کی مسماری کا باقاعدہ حکم جاری کیا تھا، علامہ عابد حسینی
علامہ عابد حسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں، ہائی سکول سے لیکر نجف اشرف اور قم تک شہید علامہ عارف حسینی کے ہم جماعت رہے، صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں درس خارج تک پڑھنے کے بعد بالآخر 1978ء میں ایران کی سابق شاہی غاصب حکومت نے ناپسندیدہ قرار دے کر انہیں ملک نکال دیا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد جب شہید حسینی بھی وطن لوٹے تو اکٹھے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس کا آغاز کیا۔ پاراچنار کی سطح پر علامہ عابد حسینی کے بغیر کسی جلوس، دھرنے یا مظاہرے کا تصور کرنا بےانصافی کے مترادف ہوگا۔ ملک بھر خصوصاً پاراچنار کی سطح پر ملت جعفریہ کے حقوق کے لیے قیام کے علاوہ ہمیشہ عملی اقدام کرتے رہے ہیں، مقامی سطح پر اپنے حقوق کے حصول، سیاسی مسائل کے حل، یتیموں، غریبوں اور شہداء کے بچوں کی مدد کرنے، اجتماعی شادیوں کا انعقاد کرنے، علاقے میں قرآن کریم کی روشنی پھیلانے اور دیگر ان گنت مسائل کے حل کے لیے تحریک حسینی کے نام سے ایک سیاسی تنظیم تشکیل دی ہے، علامہ صاحب جس کے سرپرست اعلٰی ہیں۔ حال ہی میں اہلیان بالش خیل نے اپنے حقوق کے لئے ایک دھرنا دیا تھا، لیکن وہ حکومت کے علاوہ بعض اپنے ہی لوگوں کے دھوکے اور ناانصافی کا نشانہ بن کر ناکامی سے ہمکنار ہوا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بالش خیل کے شاملات پر غیر طوری قبائل کے ناجائز قبضے کے سلسلے میں گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بالش خیل کی زمین کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ اس زمین کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔؟ 
علامہ عابد حسینی: 
بالش خیل گاوں کے شمال میں تقریباً نو ہزار جریب بنجر زمین ہے، جو کاغذات مال اور سرکاری ریکارڈ میں بالشخیل قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، تقریباً پانچ سال قبل یہاں کے فسادات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اورکزئی کے پاڑہ چمکنی قبیلے نے اس علاقے پر قبضہ جما کر یہاں مکانات تعمیر کئے، جس پر اہلیان بالشخیل نے کئی بار حکومت سے احتجاج کیا، لیکن انہوں نے کوئی کان نہیں دھرا۔ دوسری بات یہ کہ اس زمین کا تعلق کن سے ہے، تو عرض یہ ہے کہ دیوانی نتازعات کے فیصلے چونکہ کاغذات مال سے کئے جاتے ہیں۔ اور خود پولیٹیکل انتظامیہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ زیر بحث شاملات کے اصل مالکان بالش خیل قبیلہ کے لوگ ہی ہیں۔ کاغذات مال سے بالکل واضح ہے۔ لیکن تعصب اور ناانصافی کی حد یہ ہے کہ تمام تر دستایزات اور ثبوتوں کے باوجود خود حکومتی ادارے طوری بنگش قبائل کی اراضی ان سے چھیننا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ اور ایسے درجنوں مسائل تعطل کا شکار ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: دیوانی تنازعات یعنی زمینوں کے فیصلے تو پٹواری ریکارڈ اور نقشوں سے کئے جاتے ہیں، تو کیا بالش خیل قبیلے کے پاس اپنی زمین کا کوئی ثبوت یا ریکارڈ موجود ہے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
دیوانی و پٹواری ریکارڈ سے بالکل واضح ہے۔ ان شاملات کا باقاعدہ مثل (ریکارڈ) حکومت کے پاس موجود ہے۔ یہ ساری زمین بالش خیل قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ انتظامیہ خود اس بات کو قبول کرچکی ہے۔ پی اے کرم نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ اس شاملاتی رقبہ پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔ اس کو مسمار کریں گے۔ اس سلسلے میں حکومت اور قابضین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بالش خیل کے بعض افراد نے ہزاروں ایکڑ کی یہ شاملاتی اراضی ان (پاڑہ چمکنی قبیلے) کو فروخت کی ہے لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ بالفرض اگر دو تین افراد نے زمین فروخت کی بھی ہے تو وہ تو اپنے حصے کی زمین فروخت کرنے کے مجاز ہیں، اتنے بڑے رقبے کو دو یا چند افراد فروخت نہیں کرسکتے، بلکہ اس میں ہر شخص کا برابر کا حصہ ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی ذاتی زمین تو نہیں جو اپنی مرضی سے جسے چاہیں فروخت کر دے، ہمارے ہاں قانون رواج کرم اور روایتی جرگہ سسٹم کے علاوہ اسلامی قوانین سب موجود ہیں، جن میں سے سب ہی ایسے سودے کو باطل قرار دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بالش خیل کی اسی متنازعہ جائیداد کے لئے آپ نے چند سال قبل ایک تحریک چلائی تھی۔ اس کا کوئی نتیجہ نکلا۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
ہاں ہم نے چند سال قبل جب اس مدرسے (مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای) سے تحریک شروع کی تو حکومت کے ایجنٹ اور کارندے آئے، انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ان گھروں کو ضرور مسمار کروا دیں گے۔ لیکن سارے وعدے جھوٹے نکلے۔ تاہم ہماری تحریک سے کامیابی یہ ملی کہ اس دور کے پی اے کرم بصیر نے لکھ کر دیا کہ یہ شاملاتی رقبہ بالش خیل قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، اس پر قابض قبیلے کو نکال کر انکی ناجائز آبادکاری کو مسمار کیا جائے۔ لیکن ہمارے طوری قبیلے کی بدبختی سمجھیں، کہ اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ بصیر نے خود میرے پاس آکر مجھ سے کہا کہ آپ کے طوری قبیلے کے کچھ عمائدین میرے پاس آئے تھے اور وہ برابر مجھے اس شاملاتی رقبے میں تعمیر کی گئی ناجائز آبادکاری کو مسمار کرنے سے منع کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے یہاں تک کہہ دیا کہ ان (عابد حسینی وغیرہ جیسے) لوگوں کی قوم میں کوئی اہمیت نہیں، معدودے چند بے وقعت افراد ہیں، انکے دباو میں نہ آئیں، نیز یہ کہ اگر تم نے انکی بات تسلیم کی تو کرم میں اسی کا راج قائم ہوگا جو ہمارے علاوہ ہمیشہ تمہارے سر پر بھی سوار رہے گا، اور ایسی صورتحال میں ہم کرم میں امن وامان کا کوئی ذمہ نہیں لے سکتے۔ یہی وجوہات تھیں کہ وہ تحریک مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔

اسلام ٹائمز: بالش خیل یا کسی بھی دوسرے مسئلے کے سلسلے میں انتظامیہ سے مذاکرات کیوں نہیں کئے جاتے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آغا صاحب مذاکرات سے نہیں ہمیشہ جنگ سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
کون کہتا ہے کہ ہم مذاکرات نہیں کرتے۔ ہم نے بار بار مذاکرات کئے ہیں، لیکن ہمیں ایک تجربہ ہوا ہے کہ یہاں کی انتظامیہ عدل کی نہیں بلکہ تعصب اور ظلم کی کرسی پر براجماں ہے، جو کبھی بھی طوری بنگش قبائل کے مسائل پر غور نہیں کرتی۔ تحریک کے آغاز میں ہم نے لوگوں سے کہا تھا کہ ہم کسی سے التماس نہیں کرتے، البتہ پی اے کرم سے کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے، کیونکہ انہی کے پاس ایجنسی کا پورا ریکارڈ موجود ہے، یہاں کوئی عدالتی سسٹم نہیں، بلکہ پی اے اور اے پی اے ہی مجسٹریٹ یا جج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بات مذاکرات کی ہو رہی تھی، ہم نے مذاکرات کیلئے سید سجاد میاں کو بھیجا۔ لیکن انتظامیہ مذاکرات سے مسائل کا حل نہیں چاہتی تھی، حکومت نے سجاد میاں کی توسط سے ہمارے ساتھ وعدے کئے، لیکن آج تک ایک وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا۔ فقط دھوکہ دیا۔ دھوکہ دینے والے منافق ہوتے ہیں۔ اور منافق مسلمان نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت یا سینیٹر رشید کے ساتھ علامہ صاحب کی ڈیل ہوگئی تھی۔ اسی ڈیل کے نتیجے میں تحریک کو ختم کر دیا گیا تھا۔؟
علامہ عابد حسینی:
سینیٹر رشید میرے پاس آیا تھا، جس کے گواہ موجود ہیں۔ اخلاقی مسئلہ ہے، میں کسی کو اپنے گھر یا مدرسے آنے سے منع نہیں کرسکتا، خود امام سجاد علیہ السلام کے پاس انکے بھائی علی اکبر کا قاتل آیا، تو بھی انہوں نے اسے مہمان سمجھ کر اسکی خاطر مدارت کی، رشید نے آکر میرے ساتھ ملاقات کی، اس نے پیشکش کی کہ ہم آپ کیلئے ڈیم، ٹیوب ویل بنائیں گے، پل بنائیں گے، افراد بھرتی کرائیں گے، وغیرہ وغیرہ، میں نے کہا کہ ہم خود ڈیم بناسکتے ہیں، ابھی ایک پل زیر غور ہے، جس کے لئے تیاریاں مکمل کی گئی ہیں، یہ اسی زمانے کی بات ہے، اور جسے الحمدللہ ہم نے اس سال (2013ء) مارچ میں مکمل کرکے ٹریفک کے لئے بھی کھول دیا ہے۔ 

اسی دوران ہمارے ایک دوست نے رشید کو ٹینکی کے سلسلے میں درخواست دی، جب مجھے پتہ چلا تو میں نے اس شخص کو تنظیم سے بھی نکال دیا، جسکا سب کو علم ہے۔ اگر کوئی ڈیل ہوتی تو سینیٹر رشید سے ہم بھی کچھ لیتے۔ سینیٹر رشید نہپں بلکہ بالش خیل کے شاملات کے مسئلے سے دسبردار ہونے کے اسباب وہ چیزیں ہیں، جسے بیان کرنا شاید کسی کو ناگوار گزرے، تاہم اتنا عرض ضرور کریں گے، کہ آپ لوگ خود جائیں بالش خیل والوں سے پوچھیں کہ کن لوگوں نے تمہیں ہم سے رابطہ کرنے سے روکا۔ ہماری ہی قوم کے بااثر طبقے نے بالش خیل کے عمائدین کو بلایا اور کہا کہ یہ مسئلہ ہم حل کرتے ہیں، بشرطیکہ تم تحریک حسینی اور عابد حسینی سے ناطہ توڑ کر اس مسئلے کا اختیار ہمیں دے دو، کہیں بھی اور کسی کے پاس بھی نہ جائیں۔ اسی طرح انہوں نے وعدہ کرکے بالش خیل والوں کو قائل کرلیا کہ اسی سال 13 محرم الحرام تک ہم یہ مسئلہ حل کرتے ہیں، بالش خیل والوں نے آکر ہمارے نمائندوں سے کہا کہ آپ ذرا صبر کریں، فلاں لوگ ہمارا مسئلہ حل کر رہے ہیں، جب مجھے خبر ملی تو میں نے لوگوں سے واضح کہا کہ یہ دھوکہ ہے، چنانچہ میں اس مسئلے سے دسبردار ہوا، اور یہ مسئلہ انہی لوگوں کے لئے چھوڑا جو اب تک حل نہیں ہوا۔ 

اسلام ٹائمز: رمضان سے قبل ایک احتجاجی جلوس کے دوران آپ نے ایک بار پھر بالش خیل اور شورکو کے مسائل کے لئے تحریک چلانے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلے میں کیا ارادہ ہے۔ خالی وعدے وعید ہیں یا عملاً بھی کوئی ارادہ ہے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
 متعلقہ لوگ مثلاً بالش خیل، اسی طرح شورکو روڈ کے اصل فریق علامہ سید جواد ہادی اگر ہمیں مسائل کے حل کیلئے کھلا چھوڑ دیں تو ہم عملاً مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھرپور اقدام کریں گے۔ انہی نے ہمیں مشورہ دیا کہ آغا صاحب آپ ذرا صبر کریں ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، اسکے علاوہ اپنے ہی لوگ ہمارے مسائل کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، جیسے عرض کیا کہ اپنوں ہی میں سے بعض عمائدین اور ذمہ دار لوگ پی اے کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ اگر مذکورہ ناجائز آبادی کو مسمار کر دیا تو یہ شخص (عابد حسینی) ہمارے علاوہ تمہارے سر پر بھی چڑھے گا۔ ایسی صورتحال میں ہم کیسے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، کہ ہم تنہا جبکہ مقابل میں تین فریق متفق ہوں، یعنی قابض قبیلہ پاڑہ چمکنی، انتظامیہ اور اپنے ہی ذمہ دار لوگ۔

اسلام ٹائمز: بالش خیل والوں کی طرف سے شروع کئے جانے والے دھرنے کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ آپ اس کے حق میں تھے یا نہیں۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہم اس دھرنے کے حق میں تھے کیونکہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے کے سوا انکے پاس کوئی چارہ نہیں، حکومت نے بار بار انکے ساتھ وعدے کئے لیکن سب دھوکہ، چنانچہ دھرنا یا کسی قسم کا احتجاج انکا جمہوری حق تھا اور ہم پہلے کی طرح آج بھی ہر قسم کے تعاون کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: کیا آپ لوگوں کے اکسانے پر انہوں نے یہ دھرنا شروع کیا تھا، اگر جواب ہاں میں ہے تو اب جبکہ ان سے درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے نیز ان پر بھاری جرمانہ عائد ہوا ہے، کیا آپ تعاون کریں گے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
نہیں ہم نے ان کو اکسایا نہیں، آپ خود جاکر یہ بات بالش خیل والوں سے پوچھیں، وہ خود بتا دیں گے، کہ انہیں کس نے اکسایا یا آمادہ کیا تھا، تاہم جس کسی کے کہنے پر ان لوگوں نے قیام کیا، ہم انکے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لئے پھر بھی حاضر ہیں، اس سلسلے میں کسی بخل یا بغض و عناد سے کام نہیں لیں گے، دوسروں کے شانہ بشانہ کمک کرنے کو تیار ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: بالش خیل کے علاوہ کرم ایجنسی میں آباد طوری بنگش قبائل کے دیگر مسائل کو ذرا اجاگر کریں۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
بالش خیل اور شورکو کے علاوہ پیواڑ اور لنڈی وان کی اراضی کے مسائل ہیں، کاغذات مال میں یہ قطعہ اراضی دراوی سیدان سے تعلق رکھتی ہے۔ کئی دھائیاں بطور مزارع اس علاقے پر ڈیرے ڈالنے اور پھر کئی برس تک ملکیت کا دعویٰ کرکے قابض رہنے کے بعد چند سال پہلے جب وہ یہاں سے خود چلے گئے، تو اب پشتون روایات اور یہاں کے قانون کے مطابق انکے بنائے گئے گھروں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، انہیں صرف لکڑیوں (شہتیر، دروازے اور کھڑکیوں) کی قیمت دینا لازم ہے، لیکن پھر بھی انتظامیہ اس زمین کو اپنے اصل مالکان یعنی دراوی سیدان کے حوالے نہیں کرتی، بلکہ اب قابضین کے گھروں کی حفاظت کے لئے ایف سی کو رکھا گیا ہے، اسی طرح اور بھی مسائل ہیں اغواکاری کے مسائل ہیں، ابھی تک ہمارے چھ سات بندے لاپتہ ہیں، حتی کہ چند روز قبل علی زئی کے ایک ڈرائیور کو بگن سے اغوا کیا گیا، جو آج تک لاپتہ ہے، لیکن انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ انکی جگہ یہ کیس ہمارے علاقے میں ہوتا تو پتہ نہیں انتظامیہ آسمان سر پر اٹھاتی، اور لوگوں کو قید کرنے، جرمانہ کرنے کے علاوہ مکانات کو بھی مسمار کرتی۔ لیکن مخالف فریق کی زیادتیوں پر یہاں کی جانبدار انتظامیہ ہمیشہ خاموشی اختیار کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسائل کے حل کے سلسلے میں آپ نے کبھی صوبائی یا مرکزی حکومت سے بھی کبھی رابطہ کیا ہے، نمائندہ وفد بھیج کر، اپنے مسائل سے کبھی حکام بالا کو بھی آگاہ کیا ہے۔؟

علامہ عابد حسینی:
کیوں نہیں، مذاکرات کئے ہیں، حکومت بالا کو بھی وفود بھیجے ہیں، لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ میرے خیال میں پاکستان میں کہیں بھی اہل تشیع کے خیر خواہ لوگ نہیں ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب پاراچنار کی عوام بلکہ پاکستان کی ملت جعفریہ کے نام کوئی پیغام دینا پسند کریں گے۔؟
علامہ عابد حسینی:
جیسا کہ معلوم ہے کہ اہل تشیع کو ہر جگہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خاصکر ہمارے آفیسرز، ڈاکٹرز، وکلاء وغیرہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کراچی اور کوئٹہ میں دن دیہاڑے مومنین کو قتل کر دیا جاتا ہے، پورے ملک میں کوئی حکومت، کوئی قانون نہیں، بلکہ جنگل ہے جو جانور جسے چاہے نگل لے، ایسی صورتحال میں مومنین کو چاہئے کہ اپنا دفاع خود کریں، بلکہ یہ بات میں نے اخباری بیانات کے علاوہ کراچی یا دوسرے کئی مقامات پر اسٹیج سے بھی کہی ہے، کہ کسی پر تکیہ نہ کیا جائے، بلکہ اپنے دفاع کے لئے خود ہی بندوبست کرنا ہوگا۔ میری گزارش ہے کہ ہر وقت بیدار رہیں، اپنے دفاع کے وسائل ڈھونڈیں۔ اکثر اہل تشیع کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں، ان کو ہمارا پیغام ہے کہ اپنے حقوق کیلئے خود اٹھیں، خود اقدام کریں۔ پاکستانی شیعہ فلسطینی اور حزب اللہ کے جوانوں سے سبق سیکھیں، جو اپنے حقوق کیلئے خود اقدام کرتے ہیں اور خود اپنی خفاظت کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 285908
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش