0
Thursday 12 Sep 2013 18:31

نواز حکومت امریکہ سے کلیئرنس لئے بغیر طالبان سے مذاکرات نہیں کرے گی، سید منور حسن

نواز حکومت امریکہ سے کلیئرنس لئے بغیر طالبان سے مذاکرات نہیں کرے گی، سید منور حسن
سید منور حسن امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں 1944ء میں پیدا ہونے والے سید منور حسن نے نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کراچی یونیورسٹی میں طلباء سیاست کا آغاز کیا مگر حصول تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق بڑھنے پر جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا ابوالاعلٰی مودودی کی انقلابی تحریروں سے متاثر ہو کر سوشلسٹ نظریات رکھنے والی این ایس ایف کو چھوڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے عملی سیاست کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد انہیں امیر جماعت اسلامی منتخب کرلیا گیا۔ وہ امریکہ مخالف مگر طالبان اور القاعدہ کے بڑے سپورٹر سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز سے انٹرویو میں انہوں نے شام، مصر اور پاکستان کے حالات پر کیا کہا، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: امریکہ کے شام پر ممکنہ حملے کیخلاف کیا لگتا ہے کہ ایک بار پھر تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔؟
سید منور حسن: امریکہ کا کوئی کام بھی شر سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کا بعض مسلمانوں سے تعلق کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر امریکہ شام پر حملہ کرتا ہے تو یہ قابل مذمت ہوگا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اب تک شام میں ہوا ہے۔
اس میں امریکہ کا بڑا کردار ہے اور آنے والے دنوں میں وہ اپنے رول کو خطے میں بڑھانا چاہتا ہے۔ باقی امریکہ کیا روس اور چین کے حوالے سے بھی ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے، کہ اغیار الگ الگ دوہرے معیار پر کام کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کا مطمع نظر بس ایک ہی ہے کہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا اور اس کو اور بڑھانا ہے۔ حملہ آج کرتا ہے، کل کرتا ہے یا فوری، یہ باتیں بے معنی ہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ اس کو اور بڑھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: عراق اور افغانستان پر جب امریکی حملہ ہوا تھا تو تمام مسلمان اکٹھے نہیں تھے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مصر اور شام کی جو صورت حال ہے۔ اس پر یہ اتحاد بن جائے گا۔؟
سید منور حسن: عراق اور افغانستان میں کافی حد تک لوگوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ آئیڈیل نہیں کہہ سکتے لیکن یہ جو عالمی سطح کا انتشار تھا، اس سے لوگ باہر نکل آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بہتر حالات کی توقع رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کے خلاف سعودی عرب کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
سید منور حسن: مسئلہ صرف سعودی عرب کا ہی نہیں ہے۔ یو اے ای اور قطر کا بھی ہے۔ پاکستان کا جو رویہ ہے وہ قابل اعتراض ہے۔ حکمران خاموش بیٹھے ہیں۔ جمہوری حکومت گرانے
کا جو کام 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کرے، وہ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور جو کام مصر میں جنرل السیسی کرے تو حکمران خاموشی تان لیتے ہیں۔ اس سے ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک کردار کا نام ہے۔ امریکہ جب چاہتا ہے۔ اس سے کام لے لیتا ہے۔ اس لیے ہمارے حکمرانوں کو مصر کے معزول صدر ڈاکٹر مرسی کی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور جو جو مظالم ہو رہے ہیں، ان کو روکنے کی بات بھی کرنی چاہیے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ وزیراعظم میاں نواز شریف اور دفتر خارجہ کی کارکردگی  سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
سید منور حسن: لگتا ہے کہ میاں صاحب کو جو بھی مینڈیٹ دیا گیا ہے، تو وہ شاید کشمیروں سے دشمنی، بھارت سے محبت اور بھارت سے دوستی کا ہے، تو وہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ عالمی سطح پر اسلامی اور جہادی تحریکوں کی کانفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اجتماع کہاں ہوگا؟ میزبانی کون کرے گا اور اس کا روڈ میپ کیا ہوگا۔؟

سید منور حسن: انشاءاللہ یہ کانفرنس پاکستان میں ہوگی۔ زیادہ امکان ہے کہ یہ لاہور میں ہی ہوگی اور ہم ہی اس کی میزبانی کریں گے۔ ہمارے ان عالمی لیڈروں سے رابطے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس کو سراہا
بھی ہے۔ ایجنڈا بھی ترتیب دیا جا رہا ہے، تاکہ پوری امت سے اپیل کی جائے کہ جو حالات ہیں، اس سے باخبر کیا جائے اور امت کے اتحاد کا ایجنڈا دیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو امت کو زخم لگے ہیں اور دین کے حوالے سے اختلاف ہے۔ ان کو ختم کیا جائے، یہی تو سوچ ہے، جس پر ہمیں تمام امت کو اکٹھا کرنا ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر ایک امت ہو کر کام کریں۔ ہماری کوشش اندر اور باہر کے لوگوں کے لیے بھی ہوگی۔ 

اسلام ٹائمز: اخوان المسلمین کی حکومت کو جیسا کہ فوج اور امریکہ نے برداشت نہیں کیا تو کیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں جماعت اسلامی کی حکومت آجائے تو کتنا عرصہ چلے گی۔؟
سید منور حسن: جب راستے بہت سارے ہوں تو آپشن بھی زیادہ ہوتے ہیں، مگر ہمارے پاس آپشنز محدود ہیں۔ اس میں سے کسی ایک کو اپنانے والی بات ہے۔ یہ ایمن الظواہری آخر اخوان المسلمین ہی کے آدمی تھے۔ انہیں کے فلسفے کے آدمی تھے۔ وہ حدیث کو فلسفے کے طور پر بیان کر رہے تھے کہ آپ انتخابی عمل کے ذریعے کبھی اقتدار میں نہیں آسکتے۔ انتخاب اور جمہوریت کے ذریعے سے حکومتیں آئیں گی تو نہیں چلے گی اور میں آہیں گے مگر پاور میں آنے نہیں دیں گے اور یہ جو الجزایر میں ہوا، فلسطین میں الیکشن کے ذریعے
سے حکومت میں آئی، مگر ساری دنیا نے ان کو قبول نہیں کیا۔ آپ کے پاس آپشنز کتنے ہیں، کوئی آپشن ایسا نہیں جس کو نظر انداز کیا جائے۔ ہر آپشن پر کام کرنے کی ضروت ہے۔ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے خلاف بات کریں، ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے۔ اس طرح دونوں کا فائدہ ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: عمران خان کے بعد اب وزیراعظم کی زیرصدارت کل جماعتی کانفرنس نے بھی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر دی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا۔؟  
سید منور حسن: طالبان سے مذاکرت میں امریکہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حکمران اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اس لیے اگر طالبان سے مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔ یا پھر کم یا زیادہ ہو رہے ہیں، یہ ساری ذمہ داری امریکہ پر ڈالنی چاہیے۔ اس لیے میاں نواز شریف صاحب وہی کریں گے جو امریکہ چاہتا ہے۔ جس دن پاکستان کو امریکہ سے کلیرنس مل جائے گی۔ مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔ آپ نے دیکھا ادھر طالبان سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے۔ تو ادھر ڈرون حملہ ہو جاتا ہے۔ حملے سے جو نقصانات ہوتے ہیں۔ وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے طالبان سے مذاکرات کے لئے بہت اچھے ہوم ورک کی ضرورت ہے۔
 
مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال کے بارے میں کہتا ہوں کہ
اس پر ایک باقاعدہ ایک تحقیقاتی پیپر تیار ہونا چاہیے کہ ہم نے طاقت کا استعمال سوات میں کیا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں کیا ہے۔ بونیر میں کیا ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں بھی فوجیں بھجوائیں۔ بلوچستان میں آپریشن کیا ہے۔ کراچی میں کیا ہے۔ ان آپریشنز کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس پر بھی ایک ریسرچ پیپر تیار ہونا چاہیئے کہ آرمی چیف صاحب اس کی ذمہ داری قبول کریں۔ تمام پارٹیوں کو موقع دیا جائے کہ ہم نے جہاں جہاں طاقت کا استعمال ہوا وہیں پھنس گئے اور نقصان اٹھایا۔ ہمارے خیال میں ہے کہ کوئی بیلنس شیٹ نہیں ہے۔ 

ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ کوئی رجحان نہیں جو طاقت کے استمعال کے حق میں جاتا ہو۔ میں تو طاقت کے استمعال کے حق میں نہیں ہوں۔ ہمیشہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ طاقت کے استمعال سے ہم نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ طاقت کے استمعال سے بلوچستان آرمی کو دے دیا ہے اور اب تو مہاجر آرمی کی بات بھی شروع کر دی گئی ہے۔ لیکن اگر حکومت سمجھتی ہے کہ حالات اس سے مختلف ہیں تو حکومت پیپر تیار کرے، اس کے نیتجے میں لوگوں سے بات کریں۔ اس سنجیدگی کا اگر مظاہرہ نہیں کیا جائے گا تو کوئی مذاکرات شروع نہیں ہوں گے، کامیاب اور ناکام تو بعد کی بات ہے۔
خبر کا کوڈ : 299426
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش