0
Tuesday 17 Sep 2013 00:29

خارجہ پالیسی تبدیل کئے بغیر کسی آل پارٹیز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، عبداللہ گل

خارجہ پالیسی تبدیل کئے بغیر کسی آل پارٹیز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اس وقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر ان کے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔  ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے طالبان سے مذاکرات، اے پی سی کا مستبقل، نواز شریف حکومت کے تین ماہ کی کارکردگی، پاک انڈیا تنازعہ، شام اور مصر میں عرب ممالک کا کردار، امریکہ کے خطے میں مستقبل سمیت کئی اہم ایشوز پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آل پارٹیز کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلے گا، دوسرا یہ کہ طالبان سے مذاکرات کس حد تک کامیاب پائیں گے۔؟
عبداللہ گل: سب سے پہلے اسلام ٹائمز کا شکر گزار ہوں، جس نے آج مجھے موقع دیا کہ میں اس موضوع پر کچھ لب کشائی کر سکوں۔ اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف اتنا عرض کروں کہ آل پارٹیز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ ماضی میں بھی جتنی اے پی سیز ہوئیں، سب کی سب بے مقصد، بے مطلب اور بے معنی تھیں۔ لہٰذا اس اے پی سی کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ یہ وہ فورم نہیں جہاں پر قومی سطح کے معاملات طے کئے جائیں۔ قوم نے اس فورم کو مینڈیٹ نہیں دیا۔ قوم نے اپنا مینڈیت قومی اسمبلی اور سینٹ کو دیا ہے تو یہ بات وہاں کیوں نہیں کی گئی۔ اگر ان دونوں ایوانوں نے ملک کی سلامتی اور دیگر اہم معاملات میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا تو پھر بند کر دیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو۔ ایک حکومت جس کو ابھی بنے فقط تین ماہ ہوئے ہیں وہ جا کر قومی سلامتی کا مسئلہ اے پی سی میں رکھتی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے، کیونکہ اے پی سی کبھی قومی سلامتی کے معاملات کے حوالے سے فورم نہیں ہوا کرتی۔

آپ دیکھیں کہ اے پی سی میں بھی کون لوگ شریک تھے، فقط چیدہ چیدہ لوگ، باقی لوگ کہاں تھے۔؟ انہیں کیوں نہیں بلایا گیا۔ اگر سیاسی جماعتوں کو ہی بلانا ہے تو پھر سب سیاسی جماعتوں کو بلانا چاہیے تھا، پھر چھوٹی بڑی پارٹی کی تقسیم کہاں سے آگئی۔ پارٹی تو پارٹی ہوتی ہے۔ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اس آل پارٹیز کانفرنس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ جب تک ملک کی خارجہ پارلیسی کو تبدیل نہیں کیا جاتا، تب تک کوئی بھی پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔ اسی طرح ڈرون حملوں کا معاملہ ہے، گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پاکستان آئے تھے، جن کا مقصد یہی تھا کہ آپ ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر آئیں، یہ معاملہ وہاں پر حل ہوگا۔ یعنی اس آمد اور اس بات کا مقصد یہی تھا کہ امریکہ اس خطے سے جانا چاہتا ہے اور وہ ڈرون حملے بند کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کیلئے اسے ایک باوقار طریقہ چاہیے، جب اقوام متحدہ میں قرارداد پاس ہو جائے گی تو ڈرون حملے بھی رک جائیں گے۔ اس لئے آل پارٹیز کانفرنس میں یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے پر اتفاق ہوا۔

جہاں تک قومی سلامتی کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے قانونی سازی کی ضرورت ہے، دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایک ایسا ایکٹ بنانے کی ضرورت ہے جس طرح سے پیٹریاٹک ایکٹ امریکہ میں بنایا گیا، پوٹا کے قوانین انڈیا نے بنائے، اسی طرح ہمیں بھی اس کی ضرورت ہے، ایک دہشتگرد کو اگر فرنٹیر کانسٹبلر پکڑتی ہے، اس طرح رینجرز یا کوئی اور ایسا ادارہ پکڑتا ہے تو ان کے پاس پاور آف ارسٹ ہونی چاہیے، یعنی وہ دہشتگردوں کو زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ عدلیہ ایک حکم جاری کرتی ہے کہ جس میں نشاندہی کرتی ہے کہ کراچی کی دہشتگردی میں تین سیاسی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی ملوث ہیں۔ اس حکم پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: تو پھر اس اے پی سی کا کیا مقصد تھا، ایسی صورتحال میں کیا حکومت طالبان سے مذاکرات کر پائے گی۔؟
عبداللہ گل: میرے خیال آل پارٹیز کانفرنس کے بلانے کا مقصد نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر پر بات چیت کرنا تھا، اس سے پہلے آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل جہانگیر کرامت کے دور میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام پر بات ہوئی، جس کے نتیجے میں جنرل جہانگیر کرامت کو گھر جانا پڑا۔ اب بھی وہی حالات ہیں کہ دوبارہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام پر بات چیت شروع کردی گئی ہے، چلیں اچھی بات ہے میاں صاحب نے یہ کام شروع کر دیا ہے جو وقت کی ضرورت ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی قیادت کس کے سر جائے گی۔ کیا ایسے شخص کو ایڈوائزر بنایا جائے گا جو افغان امور، طالبان اور دہشتگردی کی نام نہاد جنگ سے منسلک رہا ہو، جس کا فوج، سول حکومت اور بالخصوص امریکہ کیساتھ ورکنگ معاملے میں تعلق رہا ہو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آل پارٹیز کانفرنس اصل میں اس کونسل کے ایڈوائزر کے نام پر متفق ہونے کیلئے بلائی گئی تھی، وہ کون ایڈوائزر ہوگا، اس کا آپ جلد پتہ لگ جائے گا۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی حکومت آئی تو یہی کہا جا رہا تھا کہ اب ملک میں امن لوٹ آئیگا، کیونکہ طالبان خود میاں صاحب کا نام دے رہے تھے کہ اگر وہ درمیان میں آئیں تو وہ مذاکرات پر تیار ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی میاں صاحب کی حکومت آئی تو تین ماہ کے دوران کم و بیش 80 واقعات ہوئے، جس میں معصوم بیگناہ انسانوں کا قتل ہوا۔ اس کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔؟
عبداللہ گل: دیکھیں اگر آپ بلوچستان میں ان لوگوں سے مذاکرات کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ افواج پاکستان کے خون سے رنگین ہیں، جن کی وجہ سے بلوچستان کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے، سویلین سمیت کئی افراد لقمہ اجل بنے، انہیں آپ عام معافی کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہیں، تو ادھر ہمارا رویہ کیوں سخت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے طالبان اچھے ہیں، ایسے طالبان جنہوں نے اپنے استاد کرنل امام کا قتل کیا ہو، جو انڈیا سے پیسے لیتے ہوں، وہ جنہوں نے معصوم لوگوں کی جانیں لیں، یہ بالکل بھی کسی معافی اور رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ لیکن کیونکہ معاملہ پاکستان کی سلامتی کا ہے، اور پھر یہ کہ ہر معاملہ آخر میں مذاکرات کی ٹیبل پر آکر ہی حل ہوتا ہے۔

اب آپ دیکھیں کہ امریکہ یہ جنگ ہار کر واپسی کی تیاری کر رہا ہے، لیکن پاکستان نے اس دن کیوں فیصلہ نہیں کیا جب امریکی صدر اوباما نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا ٹائم ختم ہوگیا ہے، یعنی ’’War is Over‘‘، اس دن پاکستانی قیادت سو رہی تھی، جنہوں نے اس بیان کو ویلکم کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ ہم بھی دہشتگردی کی جنگ سے باہر آجاتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی بھی اسے اپنی جنگ بنا کر بیٹھے ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ طالبان نے کبھی بھی پاکستان کا پرچم نذر آتش نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا، لیکن اس کے برعکس بلوچستان میں صورتحال مختلف ہے۔ ہم ان کے ساتھ تو عام معافی کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں ہم بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ جہاں تک آپ نے اے پی سی کی بات کی تو آپ دیکھیں کہ ایک طرف مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب آپریشن کی بات بھی کی جاتی ہے۔ یہ کونسی پالیسی ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کی پالیسی نہیں ہے، یہ اچانک کہیں سے مسلط کر دی جاتی ہے جس پر پاکستان چل پڑتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف جب مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو ادھر سے واقعات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ایسی صورتحال میں بیل کیسے منڈے چڑھے سکتی ہے۔؟
عبداللہ گل: دیکھیں میاں صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں، لہٰذا انہیں امریکہ کا ایجنڈ فالو نہیں کرنا چاہیے۔ جب آپ مغرب کا ایجنڈا فالو کریں گے تو قوم آپ سے ناراض ہو جائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم نے شیطان کی روح کو اپنے ہاں گروہی رکھ لیا ہو۔ اس روح کو نکالنا ہوگا۔ تب جاکر آپ کے مسائل حل ہوں گے۔ امریکہ جان بوجھ کر پاکستان پر ڈرون حملے کرتا ہے، تاکہ پاکستان میں اشتعال انگیزی پیدا ہو اور پاکستان دہشتگردی کی اس جنگ میں جلتا رہے۔ یہ اب مغرب پر واضح ہوگیا ہے کہ یہ جنگ ڈرون حملوں سے نہیں جیتی جاسکتی، ایسے ڈرون حملے جن میں معصوم بچے اور عورتیں تک قتل ہو جاتیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ امریکیوں کے ڈرون حملوں میں پچاس افراد ٹارگٹ تھے، لیکن ان حملوں میں 3500 سے بھی زائد افراد جاں بحق ہوگئے اور ان 50 پر بھی صرف شک کیا جاسکتا تھا کہ وہ القاعدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر امریکی ڈرون حملے ہو رہے ہیں تو اس کا بدلہ معصوم پاکستانیوں سے ہی کیوں لیا جا رہا ہے، کیوں امریکیوں پر حملے نہیں ہوتے، کیوں پاکستان میں امریکہ کے مفادادت کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا، جتنے بھی واقعات ہوئے یا تو وہ پاک فوج کے کیخلاف ہوتے ہیں یا پھر عام آدمیوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔؟
عبداللہ گل: دیکھیں! اصل میں یہ ایک بدلے کی جنگ بن چکی ہے جو اکتیس اکتوبر 2006ء سے شروع ہوئی۔ آپ دیکھیں کہ ایک طرف امریکہ کو تورا بورا میں شکست کا سامنا تھا تو انہوں نے سوات میں جنگ کیلئے 70کروڑ ڈالر دے دیئے۔ اس وقت کی حکومت پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر انہوں نے پاکستانی فوج کو کس طرح کے معاملات میں الجھا دیا۔ ان لوگوں کے ساتھ الجھا دیا جو آپ کے اپنے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری اپنی ہے لیکن امریکہ کیخلاف، ان لوگوں کیخلاف ہماری جنگ ہے جو عراق، شام، افغانستان اور دیگر ممالک میں گھس کر جنگ مسلط کرتے ہیں اور دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔ اب یہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کا کندھا استعمال کرکے مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے ہی یہ سارا امن تہس نہس ہو چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹرکامران مجاہد جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں انہوں نے نائن الیون کے موقع پر اپنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر کہا کہ اسامہ بن لادن سی آئی اے کے جہاز میں بیٹھ کر اس خطے میں آئے اور یہاں کی تباہی کرائی اور وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، اس پر کیا کہیں گے۔؟
عبداللہ گل: ڈاکٹر کامران مجاہد میرے لئے انتہائی معزز شخصیت ہیں، ان کی اس تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن میں مصروفیات کے باعث نہ جا سکا۔ ان کی رائے اپنی جگہ لیکن اسامہ بن لادن سے متعلق بات تھوڑی سی غلط ہے، دیکھیں اسامہ بن لادن کا یہ معاملہ تھا کہ جب امریکہ افغانستان میں پاکستان کی معاونت سے روس کیخلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اسلحہ فروخت ہوا کرتا تھا جو افغانستان جایا کرتا تھا، اس زمانے میں اسامہ بن لادن جو امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور جذبہ جہاد سے سرشار تھا۔ اس زمانہ میں وہ یہ چاہتا تھا کہ وہ بھی جہاد افغان میں کوئی معاونت کرے، اس طرح اوپن مارکیٹ میں فنڈنگ اسامہ بن لادن کرتا تھا اور سی آئی اے والے اسلحہ خرید کر دیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ اسامہ کا Accountant ساتھ جایا کرتا تھا۔ اس حوالے سے اگر آپ کہیں کہ وہ سی آئی اے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا تو میرے خیال تھوڑی سی زیادتی ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز : ڈاکٹر صاحب سے جب اس معاملے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس پر ان کے تقریباً 30 ہزار رسائل، جرائد اور مختلف کتابوں کی تحقیقاتی حوالے ہیں، جن کی مدد سے وہ اس کتاب کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس میں ان کی اپنی کوئی ایک بات بھی شامل نہیں۔؟
عبداللہ گل: دیکھیں اس معاملے پر اگر میری رائے جانیں گے اتنا کہوں گا کہ کیونکہ اس وقت مفادات اکٹھے تھے، اس لئے اسامہ بن لادن سی آئی اے کے ساتھ تھے، آپ اسلحہ مارکیٹ سے خریدتے تھے اور سی آئی اے پیسے دیا کرتی تھی اور اسامہ بھی پیسے دیا کرتا تھا، یوں پیسے لیکر مارکیٹ چلے جاتے تھے۔ لیکن جب مفادات دوسری طرف چلے گئے تو دونوں الگ ہوگئے۔ اس بات کو دنیا مانتی ہے کہ اسامہ ایک غیور آدمی تھا، ایک جہادی تھا۔ اسلام کی خاطر اس نے اقدام کیا۔ اس کیخلاف کوئی مقدمہ ثابت نہیں ہوسکا اور نہ کوئی مقدمہ درج ہوا۔ ابیٹ آباد واقعہ بھی ایک ڈرامہ تھا۔ آج ان لوگوں نے اس کی لاش تک نہیں دکھائی، حتیٰ کے اپنے لوگوں کو بھی لاش نہیں دکھائی۔ چپ کرکے نعش سمندر برد کر دی گئی، یعنی جنگل میں مور ناچا تو کس نے دیکھا۔

اسلام ٹائمز: کنٹرول لائن پر پے در پے واقعات کے پیچھے کیا سازش چھپی ہے۔ آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں لیکن ہمیں صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ دشمن کی توپیں خاموش کرا دی گئیں، جبکہ دوسری جانب میاں صاحب انڈیا سے پیار کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل: یہ ایک سوچے سمجھے طریقہ سے کام ہو رہا ہے۔ اس میں دو سوالات ہیں، ایل او سی پر کیوں واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکیوں نے بھارتی افواج میں نقب لگا لیا ہے اور ان کے جرنیلوں کو بڑے بڑے خواب دکھانا شروع کر دیئے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ بھارت کی فوج اور حکومت کی گذشتہ سال کی پالیسی میں بڑا گیپ نظر آ رہا ہے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے اندر کوئی نیا محاذ پیدا کریں، اگر آپ ایک نئی جنگ کھول دیتے ہیں تو پینٹاگون کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اس خطے میں اپنا دورانیہ بڑھا سکیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جب امریکن فوج یہاں سے جائے گی تو ایک شکست خودہ حیثیت سے جائیگی، لوگ انہیں جوتیوں کے ہار پہنائیں گے۔

آج بھی قطر میں امریکی فوجیوں کی لاشیں سرد خانوں میں پڑی ہیں، جب وہ امریکہ جائیں گی تو اس وقت طوفان برپا ہو جائے گا۔ اسی لئے امریکہ اس خطے میں اپنا دورانیہ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس کی کڑیاں شام میں بھی ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاک بھارت تنازعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ کشمیر میں بیٹھ کر انڈیا، پاکستان اور چین کو مانیٹر کرسکیں۔ ان تمام باتوں کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تائید حاصل نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ حالیہ ایل او سی پر جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، اس پر امریکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھارت کے حق میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا کیونکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اس معاملے پر تقسیم ہے۔

اب آتے ہیں میاں صاحب سے متعلق سوال پر تو میاں صاحب وہ تمام کام کرنا چاہتے ہیں جو انڈیا کے حق میں ہوں، پرویز مشرف نے مارشل لاء کیوں لگایا تھا؟، کارگل میں ہم جیت چکے تھے، لیکن ٹیبل پر وہ جنگ ہار گئے، اگر جنگ کے درمیان مارشل لاء لگتا تو یہ بات سمجھ میں آتی، لیکن جنگ کے بعد کیوں لگایا گیا، وہ اس لئے کہ اس وقت دو دائیں بازووں کی حکومتیں تھیں، ایک ملا عمر کی حکومت جسے آپ توڑ نہیں سکتے تھے اور نہ ہی ان پر نقب لگا سکتے تھے، دوسری آپ کی حکومت تھی جسے انہوں نے نقب لگا لی، کیونکہ وہ میاں صاحب کو مذہبی انتہاء پسند گردانتے تھے، ایٹمی دھماکے کرنا وجہ بنی کیونکہ وہ میاں صاحب کو اپنا دوست نہیں سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے فوج کے سربراہ کے ذریعے سے میاں صاحب کا دھڑن تختہ کر دیا۔

پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتیں ایک پیج پر نہیں تھیں، مذہبی جماعتیں فوج کے اس کے عمل کی مخالف تھیں جبکہ دوسری جانب بائیں بازو کی جماعتیں افواج پاکستان کا ساتھ دے رہی تھی اور کہہ رہیں تھیں کہ وزیرستان میں بھی آپریشن کریں، سوات میں بھی آپریشن کریں، ادھر بھی جائیں، بلوچستان میں آپریشن کریں وغیرہ وغیرہ۔ آپ دیکھیں کہ آج ہمارا مغربی بارڈر جو سوفٹ بارڈر کہلاتا تھا آج وہ ہارڈ بارڈر ہے، آج مشرقی بارڈر سے کہیں زیادہ مغربی بارڈر پر فوج تعینات ہے۔ اس وجہ سے ہمارا ہندوستان کیساتھ طاقت کا توازن خراب ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے وہ ہمیں تڑیاں لگا رہا ہے۔ آج میاں صاحب اس حد تک انڈیا کی محبت میں چلے گئے کہ دو قومی نظریہ کو چیلنج کر ڈالا اور کہہ ڈالا کہ ہم ایک تھے، آج قائد کی روح تڑپ رہی ہوگی، اقبال کی روح تڑپ رہی ہوگی۔ یہود و ہنود یہ ہمارے کبھی بھی دوست نہیں ہوسکتے۔

نوٹ: انٹرویو تفصیلی ہونے کے باعث اسے دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ انٹرویو کے اگلے حصے میں عبداللہ گل سے پوچھیں گے کہ شام اور مصر کے مسئلہ پر عرب دنیا نے کیا کردار ادا کیا، امریکہ کو اس محاذ پر کتنی بڑی شکست ہوئی، کیا روس، ایران اور چین ایک طاقتور بلاک کے طور پر سامنے آئے ہیں، سعودی عرب کے مصر اور شام میں کردار پر امت مسلمہ میں اس کیخلاف کیا جذبات پیدا ہو رہے ہیں، یہ سب اور بہت کچھ انٹرویو کے اگلے حصے میں۔
خبر کا کوڈ : 302214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش