0
Saturday 12 Oct 2013 00:50

بعض طالبان گروپ غیر ملکی امداد پر چل رہے ہیں جو بدامنی پھیلاتے ہیں، عمران خان

بعض طالبان گروپ غیر ملکی امداد پر چل رہے ہیں جو بدامنی پھیلاتے ہیں، عمران خان
عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے پھر ورلڈ کپ جیت کر اپنا نام دنیائے کرکٹ میں امر کر لیا، اس مقبولیت کے پیش نظر انہوں نے اپنی والدہ کے نام سے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی جس میں پوری پاکستان قوم نے عمران خان کی اپیل پر بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کی اور پاکستان کا پہلا جدید کینسر ہسپتال معرض وجود میں آیا، عوام میں اپنی پذیرائی دیکھ کر عمران خان نے کارزار سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس سوچ کے تابع کہ ہسپتال کیلئے روپے دینے والے عوام انہیں ووٹ بھی دیں گے، عمران خان سیاست میں کود پڑے۔ گذشتہ پندرہ برس سے سیاست میں ہیں۔ اس بار انہیں خیبرپختونخواہ میں حکومت بھی مل گئی جو انکے لئے یقیناً ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ عمران خان سیکیولر ذہن کے سیاستدان ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے پاکستان میں بھی دفتر کے قیام کے حامی ہیں۔ نیا پاکستان ان کا ماٹو ہے اور اس کرپشن زدہ نظام کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں ان کیساتھ اسلام ٹائمز نے مختصر گفتگو کی جو قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے (ادارہ)

اسلام ٹائمز:حکومت طالبان کیساتھ مذاکرات کر رہی ہے، کیا اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا، حکومت کہتی ہے مذاکرات کا کامیاب نہ ہوئے تو فوجی آپریشن نا گزیر ہو جائے گا، آپ کی کیا رائے ہے؟
عمران خان:کسی بھی مسئلے کا حل طاقت کا استعمال نہیں ہو سکتا، آپ کو پہلی ترجیح مذاکرات کو دینا ہو گی ہے، فوجی آپریشن آخری آپشن ہوتا ہے پھر ہمارے ہاں اے پی سی میں پاکستان کی پوری سیاسی قیادت نے مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور مذاکرات کو پہلی ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں دو مرتبہ اے پی سی نے اسی مسئلہ پر مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عناصر فوجی آپریشن کو اس کا حل سمجھتے ہیں جبکہ میرا پختہ ایمان ہے کہ فوجی آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں مشرقی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے پھر میں تو وزیرستان میں فوج بھجوانے کا مخالف رہا ہوں۔ آج بھی اس کا قائل ہوں کہ پہلے مذاکرات پھر فوجی آپریشن، یہ پہلا موقع ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کسی مسئلے پر ایک
نقطے پر متفق ہیں۔ سیاسی جماعتیں حکومت اور فوج سب چاہتے ہیں کہ پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔ اگر وہ پاکستان کے آئین اور قانون میں رہتے ہوئے مذاکرات پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر کسی قسم کے آپریشن کی ضرورت نہیں۔

اصل میں ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں امن نہیں چاہتیں۔ وہ یہاں دھماکے، افراتفری اور لاقانونیت کا فروغ چاہتی ہیں۔ اس لئے ان کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ شروع کر دی جائے تاکہ یہ ملک جو اسلام کا قلعہ ہے برباد ہو جائے اس لئے بعض قوتیں طالبان کے بعض گروپوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں، طالبان کے 15 بڑے اور 25 چھوٹے گروپس ہیں، ان میں بعض کو غیر ملکی مدد حاصل ہے، یہ دوسروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں جبکہ طالبان کے بڑے گروپس مذاکرات کے حق میں ہیں، جب آپ مذاکرات کرنے والے گروپس کو الگ کریں گے تو چھوٹے گروپ ازخود غائب ہو جائیں گے۔ ان مں چھپے ہوئے شرسپند عناصر کھل کر سامنے آ جائیں گے، حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مزید تاخیر نہ کرے بلکہ مذاکرات شروع کر دے تاکہ ملک میں امن و آشتی کا دور شروع ہو سکے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ طالبان ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، بھلا چند ہزار طالبان بھلا کس طرح ملک فتح کر سکتے ہیں، ہماری قوم بڑی مضبوط اور فوج نہایت باصلاحیت ہے، انہیں کون شکست دے سکتا ہے۔ ہم طالبان سے آئین اور قانون میں رہتے ہوئے مذاکرات کے حق میں ہیں، اگر کوئی پاکستان کے آئین اور پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرے گا ان کے خلاف آپریشن ہو گا وہ چاہے کوئی بھی ہو۔

اسلام ٹائمز:آپ نے تو طالبان کو دفتر قائم کرکے دینے کی بات کی جس پر بہت زیادہ ردعمل آیا کہ آپ نے یہ کیا کہہ دیا؟
عمران خان: ہاں ایسا ہی ہوا لیکن میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز تو کیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ کون کون مذاکرات کے حق میں ہے اور کون مخالف، جب تک طالبان کی طرف سے باضابطہ مذاکرات میں آنے کے بعد کسی قسم کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آ جاتا ہم کس طرح ان کے خلاف فوجی آپریشن کی بات کر سکتے ہیں۔ طالبان کو مذاکرات کے لئے وزیرستان یا کہیں اپنا دفتر قائم کر لینا چاہیئے تاکہ باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔

اسلام ٹائمز:طالبان نے مطالبہ
کیا ہے کہ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو وہ جنگ بندی نہیں کریں گے، کیا حکومت ڈرون حملے بند کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
عمران خان: ملک میں دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں اس وقت اضافہ ہوا جب ہمارے ہاں امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا، ان ڈرون حملوں کی اجازت پرویز مشرف نے دی تھی پھر زرداری حکومت نے یہ سلسلہ جاری رکھا، اس سے نہ صرف ملکی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ ملک میں دہشت گردی بڑھتی گئی۔ جب کسی کے گاؤں پر حملہ کریں گے یا کسی کے گھر پر حملہ ہوگا تو وہ کیا ردعمل دے گا، جس کے بچے بوڑھے جوان عورتیں شہید ہو جائیں تو وہ خودکش حملہ آور ہی بنیں گے نا، ہم ڈرون حملوں پر خاموش رہے جس سے ان کی نظر میں ہم اس جرم میں برابر کے شریک بن گئے، جوں جوں ان پر ڈرون حملے بڑھتے گئے جواباً طالبان نے ہم پر حملے شروع کر دیئے، اس طرح دہشت گردی بڑھتی گئی، اس طرح ہمارا ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا چلا گیا، طالبان درست کہتے ہیں کہ ڈرون حملے بند کرائے بغیر جنگ بندی ممکن نہیں۔ دہشت گردی ان واقعات میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کا صوبہ متاثر ہوا، جہاں ہماری پارٹی کی حکومت ہے ہمارے صوبے کے تین اطراف میں فاٹا کا علاقہ ہے جہاں صوبے کو حکمرانی کا اختیار نہیں، وہاں قبائلی جرگہ سسٹم ہے یا حکومت کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا ہے جس کا اثرورسوخ اب کم ہو گیا ہے، اس لئے ان علاقوں پر اب حکومتی رٹ باقی نہیں رہی، ماضی میں قبائل نے اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کیلئے شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان معاہدے کرائے مگر ان کی خلاف ورزی ہوتی رہی، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کی طرح اب فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان معاہدہ فلاپ نہ ہو، اس کے لئے ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات کے لئے دفتر اور ایجنڈے کا اعلان کیا جائے تاکہ کوئی دشمن پھر سے اپنی چال چل کر انہیں ناکام نہ بنا سکے۔

اسلام ٹائمز:آپ مذاکرات پر ہی کیوں زور دیتے ہیں جبکہ طالبان کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں، دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور ان میں ذرہ بھی ٹھہراؤ نہیں آیا؟
عمران خان: ہمیں چونکہ خیبر پختونخوا کے عوام نے صوبے میں امن قائم کرنے کیلئے مینڈیٹ دیا ہے، اس لئے ہم زیادہ تیزی کیساتھ مذاکرات کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے لئے کہنے والے ملک کے حقیقی خیر خواہ ہیں، جو لوگ فوجی آپریشن کا مشورہ دے رہے ہیں وہ ملک میں تشدد کا فروغ چاہتے ہیں تاکہ ایک طرف فوجی آپریشن شروع ہو اور ردعمل میں ہمارے دوسرے پرامن علاقوں اور شہروں میں حملے شروع ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز:جب سے خیبر پختونخوا میں آپ کی حکومت بنی ہے دہشت گردی کے واقعات اور بم دھماکوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
عمران خان: جب بھی پشاور یا خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے مولانا فضل الرحمن اور غلام احمد بلور اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ایسے واقعات پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل میں انہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ عوام نے اس قسم کی سیاست کرنے والوں کو انتخابات میں مسترد کر دیا تھا۔ اب وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق آج کل ہر واقعہ پر سیاست کرنے لگتے ہیں۔ خودکش حملوں میں شہید ہونے والے افراد کے ساتھ ہمدردی کرنے کی بجائے یہ سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ ان سیاسی زعما کا فرض ہے کہ اگر ملک میں کہیں ایسا ہولناک سانحہ پیش آ جائے تو لوگوں کے حوصلے بلند کریں مگر یہ لوگوں کی مایوسی میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں، ان لوگوں نے گذشتہ 66 برس سے سیاست کرکے لوگوں کو بےوقوف بنائے رکھا اور اگر لوگوں نے انہیں مسترد کرکے ہمیں منتخب کیا ہے تو انہیں صبر کرنا چاہیئے ہم صوبہ خیبر پختونخوا میں یا ملک کا کوئی بھی حصہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں، ہم اسے سیاست کرنے کا موقع خیال نہیں کرتے بلکہ ایسے مواقع پر عوام کے لئے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم امن کا جھنڈا لے کر آئے ہیں ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: عوامی حمایت سے برسراقتدار آنے والی حکومت نے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، کیا اس مہنگائی کی لہر میں سب کچھ بہہ جانے کا خدشہ ہے؟
عمران خان: حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ جب سے یہ حکومت برسراقتدار آئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کیا جا رہا ہے کہ مہنگائی کے ستائے عوام جو پہلے ہی لوڈشیڈنگ سے پریشان تھے، بجلی کی قیمت بڑھا کر ان پر مہنگائی
کا ڈرون حملہ کیا گیا۔ اس طرح جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو کھانے پینے کی چیزیں بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ قرضے نہ لینے اور کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والوں نے پچھلی حکومت سے بڑا کشکول پکڑ لیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لئے، اب انہیں کی شرائط پوری کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں اضافہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے انہی کی ڈکٹیشن پر ہی چلیں گے، پھر بھلا مانگنے والوں کی اپنی کوئی سوچ اور آزادی ہوتی ہے؟ ملک میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کوئی غیر متوقع نہیں تھا۔ ابھی تو بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں، آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد موجودہ حکومت کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والی ہے، جس سے کسان طبقہ شدید متاثر ہو گا۔ الیکشن کے موقع پر معاشی دھماکہ کرنے کے دعوے کرنے والوں نے آتے ہی دھماکے کرنے شروع کر دیئے ہیں جن سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔

اسلام ٹائمز:ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے آپ کیا تجاویز دیں گے؟ اور کیا نواز لیگ نے کرپشن کے خاتمے کا جو ایجنڈا دیا ہے اس میں کامیاب ہو جائے گی؟
عمران خان: مسلم لیگ ن نے کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگایا تھا احتساب کے اس نعرے کے سبب انہیں مقبولیت ملی جس کے سبب یہ لوگ اسمبلیوں میں آ گئے مگر اقتدار میں آتے ہی انہوں نے وعدوں سے انحراف شروع کر دیا۔ زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کھولنا ان کے ایجنڈے میں شامل تھا قوم اس کی منتظر ہے کہ حکمران کب زرداری دور کی کرپشن کے خلاف اقدامات کرتے ہیں، یہ ان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک نیب کا چیئرمین مقرر نہیں کیا جا سکا۔ اس لئے کہ دونوں پارٹیوں کے کیس نیب کے پاس ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ کوئی غیر جانبدار شخص چیئرمین کے عہدے پر فائز ہو جائے اس لئے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ دونوں کو اپنی اپنی کامیوں اور کمزوریوں کا پتہ ہے اپنی اپنی چوری اورکرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ افہام و تفہیم کا کھیل کھیل رہے ہیں، جس طرح فرینڈلی اپوزیشن کے مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو پانچ سال اقتدار میں رہنے کا موقع دیا اب یہ اس طرح پی پی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے مسلم لیگ ن کو موقع دے رہی ہے۔ ہم نے ان کی اس ملی بھگت کا پردہ چاک کیا۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے
تھے کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے مگر اب فضا یکسر بدل چکی ہے، تحریک انصاف بھی اسمبلیوں کے اندر موجود ہے جو ان کی کرپشن کو بے نقاب کرئے گی اور ان کے منفی کام پر کھل کر تنقید کرئے گی ہم بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے، ہم مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہیں البتہ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔

اسلام ٹائمز:حکمران بلدیاتی نظام بحال کرنے سے کیوں گریزاں ہیں، سپریم کورٹ کئی بار کہہ چکی ہے کہ فوری بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں مگر حکومت خاموش ہے؟
عمران خان: بلدیاتی نظام کے تحت عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر مل جاتا ہے اس لئے کہ بلدیاتی نمائندے اپنے علاقے کے لوگوں اور ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں اس کے برعکس آمریت کے ادوار میں ہم نے بلدیہ کو متحرک دیکھا حالانکہ یہ عمل جمہوریت میں ہونا چاہیئے تاکہ ادارے مضبوط ہو سکیں اور عام آدمی کو حکمرانوں تک رسائی حاصل ہو بلدیاتی نظام جمہوریت میں نرسری کا کام کرتا ہے، اس سے ایسے افراد کا انتخاب ہو جاتا ہے جو لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں ، مسائل کا ادراک رکھنے والے ہی لوگوں کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:آخری سوال، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکی دباؤ ایک بار پھر ہے تو اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
عمران خان: ہمارا ملک توانائی بحران کا شکار ہے اور اس کے حل کیلئے ہمیں ایران سے گیس لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ ہماری ضرورت ہے۔ ادھر ترکی اور بھارت ایران سے تیل لے رہے ہیں، اور اگر ہم نے گیس لے لی تو اس سے امریکہ کو پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور اس حوالے سے حکومت کو فوری طور پر اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہیئے تاکہ ملک سے معاشی بحران کا خاتمہ ہو سکے۔ اس وقت ہماری انڈسٹری توانائی کے بحران کیوجہ سے مسائل کا شکار ہے اور اس سے پیداواری ہدف متاثر ہو رہا ہے عالمی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات بروقت نہ پہنچنے سے سودے متاثر ہو رہے ہیں تو اس حوالے سے حکومت کو چاہیئے کہ فوری طور پر گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرے۔
خبر کا کوڈ : 310264
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش