0
Friday 31 Jan 2014 23:39

خاتون کا زیور علم و عمل سے مزین ہونا واجبات میں سے ہے، محترمہ نصرت زہرا

عقیلہ بنی ہاشم اگر نہضت عاشورہ اور کربلا میں نہ ہوتی تو پیغام کربلا میں دفن ہو کے رہ جاتا
خاتون کا زیور علم و عمل سے مزین ہونا واجبات میں سے ہے، محترمہ نصرت زہرا
محترمہ نصرت زہرا جعفری جامعۃ الزہرا اسلام آباد کی مسئول اور مدیرہ ہیں۔ علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور پاکستان کے دارالحکومت میں خواتین، بالخصوص نوجوان نسل کی دینی و فکری تربیت میں کئی برسوں سے مصروف عمل ہیں۔ اسلام ٹائمز کے ساتھ انکی گفتگو حاضر خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: بیان فرمائیں کہ خواتین کا اسلام کی نگاہ میں کیا مقام ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: اسلام نے خواتین کو بہت منزلت و مقام دیا ہے دنیائے غرب جو آج بھی خاتون کی ثقافت کے نام پر توہین و تذلیل کر رہا ہے وہاں اسلام نے خاتون کو معاشرے کے اہم رکن کے طور پر معرفی کروایا اور اسے حیات انسانی کے تکامل دھندہ کے طور پر اجتماعی، اخلاقی، قانونی مسائل میں جگہ دی اور اسے سرنوشت ساز کے طور پر منوایا۔ اسکی منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ زوجہ فرعون کو قرآن مجید نے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا اور اسوہ ایمان کے طور پر پیش کیا، جناب مریم (س) کو مظہر عفت و پاکی کے طور پر اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا، مادر موسی (ع) کو مظہر تسلیم خدا کے طور پر تعارف کروایا، ھاجر ہمسر حضرت ابراہیم خلیل (ع) کو مھاجر الی اللہ کے نمونہ کامل کے طور پر بیان کیا، ختمی مرتبت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب بیٹی کا ہدیہ دیا تو فرمایا انا اعطینک الکوثر، ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ہے اور ثانی زہرا، عقیلہ بنی ہاشم اگر نہضت عاشورہ اور کربلا میں نہ ہوتی تو پیغام کربلا، کربلا میں دفن ہو کے رہ جاتا۔

اسلام ٹائمز: خواتین کے لیے علم دین کی اہمیت و ضرورت کس درجہ ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: ایک بیٹی کی تعلیم و تربیت دراصل پورے معاشرے اور نسل کی تربیت ہے، امام امت خمینی کبیر سے جب پوچھا گیا کہ آپ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کی فوج کہاں ہے؟ تو آپ نے فرمایا میری فوج ماوں کی گودوں میں ہے، گویا تربیت یافتہ ماں معاشرے کو امام زمانہ کے سپاہی دے سکتی ہے۔ پس خاتون نسل ساز و معاشرہ ساز ہے، اس لیے خاتون کا زیور علم و عمل سے مزین ہونا واجبات میں سے ہے۔

اسلام ٹائمز : آپکی دانست میں، بطور مربی اور استاد، خواتین کے لیے علم دین حاصل کرنے کی بہترین عمر کونسی ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: معاشرے کی ترقی اور تنزلی کا انحصار خواتین کی اچھی یا بری تربیت پر ہے لہذٰا تمام علوم کے درمیان علم دین وہ علم ہے جو انسان کو شعور و بصیرت کے نور سے منور کرتا ہے، فرمان رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق زندگی کی ابتدائی سانسوں سے آخری سانسوں تک تحصیل علم میں صرف ہونی چاہیئیں لیکن وہ بہترین زمانہ اور وقت بچپن اور نوجوانی کی بہار کا زمانہ ہے جس میں دل نرم زمین کے طرح آمادہ ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز : دینی تعلیم کی رو سے آپ کے مدرسے کا تعلیمی اور تربیتی برنامہ کیا ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: جامعۃ الزہرا اسلام آباد پاکستانی مدارس کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ادارے کا تعلیمی نظام تین طرح کے کورسز پر مشتمل ہے۔ چار سالہ کورس، ایک سالہ کورس (جو کچھ وجوہات کی وجہ سے ابھی رکا ہے ) اور ایک ماہ کا شارٹ کورس۔ 4 سالہ کورس میں تجوید القرآن، ناظرہ قرآن مجید، تفسیر قرآن، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، فقہ، تاریخ، اخلاق، عقائد، عربی ادبیات، زبان فارسی، انگلش، کمپیوٹر، خطابت و تحقیق اور کوکنگ کی تدریس کی جاتی ہے۔ البتہ تربیتی نکتہ نظر سے نماز باجماعت، درس اخلاق، اسلامک موویز، گروپ ڈسکشن، محفل انس با قرآن، مناجات و ادعیہ، کے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں، اسکے علاوہ ماہانہ حالات حاضرہ پر ملٹی میڈیا کلاس، ماہرین نفسیات کی کلاس، کالج اور یونیورسٹیز کی طالبات کے ساتھ مختلف موضوعات پر گروپ ڈسکشن جیسے پروگرام شامل ہیں۔

ماہ محرم و صفر و ماہ مبارک رمضان میں طالبات باقاعدہ معاشرے میں تربیتی خدمات انجام دیتی ہیں، جن میں دروس، مناجات، شبہائے قدر کے اعمال، مجالس، کے پروگرام شامل ہیں۔ رمضان المبارک میں جامعہ کی طرف سے اسلام آباد میں درس تفسیر کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں خواتین راولپنڈی /اسلام آبا د سے شریک ہوتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: خواتین کے اجتماعی رول کے پیش نظر مدرسے کے نظام تعلیم  میں رسمی تعلیم اس کا کیا اہتمام ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: جامعہ اس نکتے کےحوالے بہت حساس ہے کہ طالبات معاشرے میں اپنے فعال رول پلے کریں، دوران تعلیم ہی انکو اس حوالے سے تیار کیا جاتا ہے، ماہرین نفسیات کی کلاس اور دیگر موضوعات کے حوالے سے جو طالبات مروجہ نظام تعلیم ( ایف اے، بی اے ) میں اگر اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو جامعہ ان کے ساتھ مکمل تعاون کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حالات حاضرہ اور عالمی و ملکی حالات سے باخبر رکھنے اور اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے جامعہ، طالبات اور خواتین کا رابطہ کس طرح استوار رہتا ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: امام خمینی کے فرمان کے مطابق روز قدس اور نظام ولایت کی اطاعت میں اہم ملی مسائل پر منعقدہ ریلیز میں طالبات اجتماعی احساس ذمہ داری کے عنوان سے شریک ہوتی ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر جامعہ نے اپنی فارغ التحصیل طالبات کے لیے الزہرا نیٹ ورک کے نام سے شعبہ قائم کیا ہے تاکہ خواہران عملی طور پر جامعہ سے رابطہ میں رہیں اور معاشرے میں اپنا فعال کردار بھی ادا کر سکیں۔ جامعہ میں حالات حاضرہ کی ماہانہ ملٹی میڈیا کلاس منعقد ہوتی ہے، جس میں اپنے شعبہ کے ماہرین لیکچر دیتے ہیں۔

جامعہ سے فارغ التحصیل طالبات مختلف شعبہ ہائے زندگی، تدریس، تبلیغ، سکولنگ اور اعلٰی تعلیم کے لیے حوزہ علمیہ قم و نجف اشرف میں زیرتعلیم ہیں۔ جامعہ جہاں اپنی تعلیم و تربیتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ اجتماعی امور سے قطعا غافل نہیں۔ کشمیر میں آنے والے زلزلے میں امداد، سیلاب زدگان کے لیے مکانات کی تعمیر، مومنین کی آبادی میں پانی کے حوالے سے بورنگ، مستحق بچیوں کے جہیز میں معاونت، جیسے فلاحی کام بھی انجام دے رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: جامعہ میں اساتذہ، مسئولین کے متعلق بتائیں اور آپکا علمی اور تعلیمی پس منظر کیا ہے؟
محترمہ نصرت زہرا: الحمدللہ میرا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے، والد محترم عالم دین اور بہت سی کتابوں کے مولف ہیں، پاکستان میں میٹرک کرنے کے بعد قم المقدسہ میں حوزہ علمیہ جامعۃ الزہرا میں ایڈمیشن ہوا، حرم ملکوتی مولا امام رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے جوار میں زندگی کا بہترین زمانہ علم دین کی تحصیل میں گزارا اور عظیم اساتذہ خصوصا آیت اللہ مظاہری، حجۃ الاسلام محسن قرائتی، خانم گلگیری سے خصوصی استفادہ کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آ کر مروجہ تعلیم میں ایم اے عربی اور ایم اے انگلش کیا اور ساتھ ہی جامعۃ الزہرا اسلام آباد میں تدریسی خدمات بھی شروع کر دیں۔ 1996ء سے جامعۃ الزہرا اسلام آباد کی مدیریت کی ذمہ داری بھی ناچیز کے پاس ہے۔

جامعہ میں تمام مرد و خواتین اساتیذ حوزہ علمیہ قم اور پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل ہیں جو اپنے اپنے مضامین میں متخصص ہیں۔

جامعۃ الزہرا اسلام آباد کی بنیاد 1994ء میں رکھی گئی، 2004ء تک مختلف کرائے کی بلڈنگ میں یہ تعلیمی و تربیتی سلسلسہ جاری رہا، 2005ء میں یہ جامعہ باقاعدہ الصادق کمپلیکس اسلام آباد کی بلڈنگ میں منتقل ہوا اور تا بہ حال اپنی علمی، تربیتی، ثقافتی اور فلاحی و سماجی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر سال پورے ملک سے ایک بہت بڑی تعداد داخلے کے لیے رجوع کرتی ہے لیکن جگہ کم ہونے کی وجہ سے صرف 100 سے 110 طالبات ہوتی ہیں، جو انشاءاللہ بہت جلد خواتین کے ایک مثالی اور معیاری حوزہ علمیہ(یونیورسٹی ) میں بدل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: خواتین کے مدارس کے لیے کوئی تجویز اور خواتین کے لیے کوئی پیغام ؟
محترمہ نصرت زہرا: خواتین کے مدارس کے لیے خواہشمند ہیں کہ طالبات عزیز کو تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس طرح تیار کریں کہ ان کو آج کے نوجوان کی زبان آنی چاہیئے۔ تربیت کے اصولوں کا پتہ ہونا چاہیئے، جدید وسائل تبلیغ سے مزین ہونا چاہیئے۔ دین شناس انسان ہی دین کے باطنی حسن کو نمایاں کر سکتا ہے۔ آج کی لڑکیاں کیوں اسلام سے بیزار نظر آتی ہیں؟ کیوں دین سے فراری نظر آتی ہیں؟ اس لیے کہ دین مبین جتنا خوبصورت ہے انہوں نے اتنا خوبصورت نہیں دیکھا، جس دن انہوں نے اس دین کا حسین باطنی چہرہ دیکھ لیا وہ عاشق دین ہو جائیں گی۔

آئیں خدا سے دعا کریں کہ خدایا پہلے ہمیں اپنے دین کی صحیح شناخت اور معرفت کی لذت عطا فرما تاکہ پھر دوسروں کو بھی عاشق دین بنا سکیں۔ خواتین کے لیے پیغام کے حوالے سے شہید مرتضی مطہری (ر) کے اس جملے پر اپنی گفتگو کو ختم کرتی ہوں، جو ہم سب کے لیے ایک معنوی ہدیہ قرار پائے، فرماتے ہیں " غلطی یہ ہے کہ آج کی دنیا سماجی آزادی مہیا کرنا چاہتی ہے لیکن معنوی غلامی پیدا کر رہی ہے یعنی چاہتی ہے کہ انسان مفاد پرست، خواہشات نفسانی کا اسیر اور نفس کا غلام ہو، اس میں انسانی و اخلاقی ارادہ نہ ہو، اسکے باوجود اسے سماجی آزادی ہو، یہ تو ایسا ہی ہے کہ ٹیڑھا بھی رہ اور گر بھی نہیں اس طرح کی چیز محال ہے۔ خداوند عالم ہم سب کو حضرت حجت ابن الحسن مولا امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی کرنے والوں میں سے قرار دے! (آمین)
خبر کا کوڈ : 346788
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش