0
Sunday 20 Oct 2013 00:42

وہ علم نور ہے جو ایثار، قربانی، اتحاد و یگانگی لانے کیساتھ اناپرستی کو دور کرے، راضیہ نجفی

وہ علم نور ہے جو ایثار، قربانی، اتحاد و یگانگی لانے کیساتھ اناپرستی کو دور کرے، راضیہ نجفی
محترمہ راضیہ بتول نجفی الکوثر کالج اسلام آباد کی پرنسپل ہیں، یہ ادارہ  حال ہی میں قائم ہوا ہے، آپکی پیدائش نجف میں ہوئی، آپ علامہ شیخ محسن علی نجفی کی صاحبزادی ہیں، 12 سال کی عمر میں جامعۃ الزہرا (س) قم سے دینی تعلیم کا آغاز کیا، 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی اور 10 سال سے درس خارج پڑہنے میں مصروف ہیں، آپ بہترین مبلغہ ہونے کیساتھ ساتھ  مصنفہ بھی ہیں، آپ کی پانچ، چھ کتابیں پبلش ہو چکی ہیں جبکہ تین سے چار کتابیں زیرچاپ ہیں، آپ نے تفسیر، تاریخ، احکام اور خواتین کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں۔ آپ تبلیغ دین کے سلسلے میں کینیڈا، ہالینڈ، انگلینڈ و افریقی ممالک کا سفر کر چکی ہیں۔ ان دنوں آپ درس خارج کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں نجف کی طرف عازم سفر ہیں، ’’اسلام ٹائمز ‘‘نے اُن سے ان کی دینی خدمات، تعلیمی سفر، اور پاکستان میں تعلیمی صورتحال سمیت ملک و قوم کو درپیش مشکلات پر انٹرویو کیا ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ الکوثر کالج فار ویمن اسلام آباد کی پرنسپل ہیں، اس کالج کے ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں بتائیے؟
راضیہ بتول نجفی: الکوثر کالج فار ویمن اسلام آباد ورلڈ لیول کا کالج ہے، اس میں نہ صرف کیمبرج سسٹم کا اے لیول اور او لیول کروایا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا پاکستانی لوکل سسٹم آف ایجوکیشن بھی ہے، جسکے تحت ایف اے، ایف ایس سی بھی کروایا جاتا ہے، ہمارے کالج میں پری میڈیکل، پری انجیینئرنگ، اور آئی سی ایس بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بورڈنگ سسٹم بھی بہت اچھا ہے، الکوثر کالج میں نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے مملک کی اسٹوڈنٹس بھی ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس تقریباً 150 اسٹوڈنٹس ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ قم میں کتنا عرصہ رہیں اور وہاں حصول تعلیم کے علاوہ آپ کی کیا ایکٹویٹیز تھیں؟
راضیہ بتول نجفی: میں تقریباً 24 سال قم میں رہی، حصول تعلیم کے علاوہ وہاں میں نے اپنے گھر کی بیسمنٹ میں ہی " ورلڈ اہلبیت آرگنائزیشن" کے نام سے ایک موسسہ کی بنیاد رکھی، جسمیں مختلف دروس کی کلاسسز رکھیں، ان دروس میں فن خطابت، احکام اور تفسیر کی کلاسسز قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ جو خواہران جامعۃ الزہرا سے فارغ التحصیل
ہو جاتی تھیں ان سے ریسرچ، اور ترجمعے کا کام بھی لیتی تھی تاکہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو، بلکہ وہ جامعہ کے لئے مفید فرد ثابت ہو سکیں۔

اسلام ٹائمز: ابھی آپ نے بتایا کہ آپ مزید تعلیم کے حصول کے لئے نجف اشرف کیطرف عازم ہیں تو کیا وہاں صرف تحصیلی مصروفیات ہونگی یا اسکے ساتھ ساتھ تبلیغی مصروفیات کو بھی جاری رکھیں گی؟
راضیہ بتول نجفی: دراصل نجف اشرف تو ہمارا اپنا شوق ہے، دراصل میں، میرے شوہر اور میرے بھائی انور نجفی ہم درس خارج میں کلاس فیلو بھی ہیں اور ہم مباحثہ بھی، اس لئے پہلا مقصد تو حصول تعلیم ہے لیکن چونکہ کام تو وہاں بھی بہت ہے اور ڈیمانڈ بھی بہت ہے، بالخصوص انگلش لینگویج لوگوں کی بہت خواہش ہے کہ وہاں ان کی زبان میں کلاسسز ہوں، ابھی تو میں صرف دو تین ہفتے کے لئے گئی تھی، لیکن جلد ہی وہاں شفٹ ہو جائیں گے، چونکہ نجف میں برٹش لبنانی اور امریکی فارنرز کافی زیادہ ہیں اسلئے ان تین ہفتوں کے دوران ہی میں نے وہاں کلاسسز کا آغاز کر دیا تھا، ویسے برادران کے لئے تو نجف میں ہماری الکوثر یونیورسٹی کی برانچ موجود ہے لیکن خواہران کے لئے ابھی کچھ نہیں، فی الحال وہاں کیمپنگ اور شارٹ کورسسز کے لئے کہا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مستقبل میں آپکا کیا ارادہ ہے، کیا نجف میں بھی مدرسہ کھولیں گی؟
راضیہ بتول نجفی: دیکھیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی ہوں لیکن آیت اللہ حکیم اور آیت اللہ العظمٰی علی سیستانی کیطرف سے ہمیں آفرز ہیں کہ آپ انگلش اسپیکرز کے لئے کلاسسز شروع کریں، کیونکہ بہت ڈیمانڈ ہے، لوگوں میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی بہت تڑپ ہے۔ تو ابھی تو شروعات ہیں، وہاں بھی جو لوگ چھٹیوں پہ گئے ہوئے تھے واپس آ رہے ہیں اور مجھے بھی ویژہ لینے کے لئے آنا پڑا، ہماری اپنی نیت تو درس خارج کا حصول اور اپنی عربی کو قوی کرنا ہے لیکن سائیڈ پہ جس طرح قم میں خدا نے توفیق دی کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ دوسری تبلیغی مصروفیات بھی تھیں، تو انشاءاللہ وہاں بھی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے پاس الکوثر کالج کی ذمہ داری بھی ہے تو کیا نجف جانے کے بعد آپ اس کو خیرباد کہہ دیں گی یا بدستور اپنے عہدے کو سنبھالے رکھیں گی؟
راضیہ بتول نجفی: جب کوثر کالج کھولنے کا ارادہ کیا
تو اس وقت سے ہی اس کی بلڈنگ، میکنگ، فنڈنگ، پبلسٹی اور اس کو چلانے کی تمامتر ذمہ داری میری ہی تھی، تو یقینا سپرویژن بھی میری ہی ہے، ویسے بھی انشاءاللہ اسلام آباد آنا جانا تو لگا ہی رہے گا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں اس کی برانچیز کھولی جائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا الکوثر کالج فار ویمن کا سٹینڈرڈ اتنا ہائی ہے کہ وہ دوسرے اچھے اور سٹینڈرڈ کے کالجز کے ساتھ مقابلہ کر سکے؟
راضیہ بتول نجفی: جی ہاں نہ صرف مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ میں بہت ہی اعتماد سے یہ کہنا چاہوں گی کہ صرف ایک سال کے عرصے میں یہ اسلام آباد میں ٹاپ پر جا رہا ہے، بیکن، سٹیز وغیرہ کے مقابلے پر ہے، ہمارے پاس فارنر اسٹوڈنٹس بھی ہیں، مختلف کامپیٹیشنز میں ہمارے اسٹوڈنٹس کا اعتماد دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے کہ کوثر کالج کا ابھی پہلا سال ہے اور یہ ادارہ کس قدر ترقی کر گیا یے۔ اسٹینڈرڈ کے لحاظ سے ٹاپ کلاس کالجز میں سے ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ اپنے کالج کے لئے صرف اہل تشیع خواہران کا انتخاب کرتے ہیں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی اسٹوڈنٹس بھی ہیں؟
راضیہ بتول نجفی: بورڈنگ میں تو سب اہل تشیع ہیں، لیکن اس سال سے ڈے اسکالرز میں پابندی نہیں، نان شیعہ بھی ہیں، اسکے علاوہ اساتذہ کے انتخاب میں بھی ہم نے ان لوگوں کو سلیکٹ کیا ہے جو top class اور most demanding ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پنڈی اسلام آباد میں نمبر ون ہیں، حتٰی نمبر ٹو بھی نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تعلیمی اداروں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ صرف اسلام آباد تک محدود ہے یا دوسرے شہروں میں بھی اسکول و کالج کھولے گئے ہیں؟
راضیہ بتول نجفی: میرے والد علامہ محسن نجفی صاحب کا "جابر بن حیان" کے نام سے ایک ٹرسٹ ہے اور اسی ٹرسٹ کے انڈر اسوہ سکول سسٹم کام کر رہا ہے، یہ سلسلہ تقریباً 20 سال سے جاری ہے اور لگ بھگ 80 کے قریب سکول و کالج اس سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یہ سب سکول مختلف شہروں کے ماڈرن ایریاز میں واقع ہیں۔ اس وقت اسوہ کیڈٹ کالج پاکستان کے پہلے پانچ کالجز میں سے ہے۔ اس کالج کا میرٹ بہت ہائی ہے اور بہت مشکل سے ایڈمیشن ملتا ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے اسوہ اسکولز بھی ہمیشہ فیڈرل میں ٹاپ فائیو یا ٹین میں رہے ہیں۔ اسوہ اسکول سسٹم میں
ہمارے پاس بہت ہی تربیت یافتہ لوگ ہیں، خود مجھے بلکہ ان لوگوں سے بہت سیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں بریگیڈیئرز اور کرنلز کے علاوہ بہت زیادہ ٹیلینٹڈ لوگ کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تھوڑی سی بات وحدت مسلمین کے حوالے سے بھی ہو جائے، ایک طرف ہم وحدت مسلمین کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہمیں مومنین میں بھی وحدت کا فقدان نظر آتا ہے، ہمارے آپس کے اختلافات ہی ختم نہیں ہوتے تو آپ کی نظر میں اس صورتحال کو بہتر کرنے کا حل کیا ہے؟
راضیہ بتول نجفی: جی بالکل حل موجود ہے، ہم جس مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اس میں ہر مشکل کا حل موجود ہے، خود امام المتقین علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ " وحدت کے لئے جو قربانی میں نے دی ہے امت محمدی میں نہ کسی نے دی ہے اور نہ کوئی دے گا"۔ امام علی علیہ السلام 25 سال اپوزیشن میں رہے اور سکوت کیا، ہاں جہاں دیکھا انسانیت کو میری ضرورت ہے تو صف اول میں مدد کے لئے تیار نظر آئے۔ تو ہم نعرہ حیدری لگانے والے اگر امام کی 25 سالہ زندگی کو نظر میں لیں، وہ علم جو اسلام نے ہم سے چاہا ہے، "العلم نور یقذفہ اللہ فی قلب من یشاء"۔ علم وہ نور ہے جو خدا جس کے دل میں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔ علم ہی حقیتاً وہ نور ہے جو اس طرح کی ظلمتوں کو دور کرتا ہے، وہ علم جو ایثار، قربانی، اتحاد و یگانگی لائے اور اناپرستی کو دور کرے، اگر یہ علم ہمارے اندر ہو تو مسئلہ حل ہے۔ میں نے مجالس کے سلسلے میں مختلف ممالک کا سفر کیا ہے اور متاسفانہ یہ اختلافات وہاں بھی دیکھنے میں آئے جو کم از کم میرے لئے بہت تعجب کا باعث تھا کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے پرچم تلے بھی لڑ سکتے ہیں، تو ہمیں میرا تیرا چھوڑ کر  سب سے پہلے جینے کا سلیقہ اہلبیت علیہم السلام کے در سے سیکھنا ہو گا۔ اگر ہم سچے عاشق اہلبیت علیہم السلام ہیں تو اپنے اندر سے انا پرستی کو ختم کرنا ہو گا اور سب کو اکھٹے ہونا ہو گا۔

اسلام ٹائمز: اس وقت پاکستان اور بالخصوص شیعہ بہت بڑے کرائسس سے گزر رہے ہیں، آئے دن شیعہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے تو آپ کے خیال میں کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا جب اہل تشیع کو اپنے دفاع کے لئے کوئی بولڈ اسٹیپ لینا چاہیئے۔؟
راضیہ بتول نجفی: یقیناً ایسا ہی ہے، اہلبیت (ع) کے در نے ہمیں سکھایا
ہے کہ اپنے وجود اور حقوق کا دفاع واجبات میں سے ہے، ہر اس جگہ ہمیں حاضر ہونا چاہیئے جہاں ہماری ضرورت ہو، ہم علم میں کسی سے کم نہیں، تعداد میں بھی ماشاءاللہ کم نہیں، لیکن آپس میں اتحاد نہ ہونے کیوجہ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ آپ دیکھیں آغا خان والوں نے اپنا بورڈ منوا لیا ہے، ہم بھی شیعہ بورڈ بہت آسانی سے منوا سکتے ہیں، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ اتحاد کا فقدان ہے۔ اگر چاہیں تو متحد ہو سکتے ہیں، ابھی جب کوئٹہ میں کرائسس تھا تو ہمارے حسن اور بھی نکھر کے سامنے آئے، جب ہم شیعوں کو ٹی وی پر حالتِ نظم میں دیکھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ شیعہ قوم ایک پرامن و بردبار قوم ہے۔ لگتا تھا کہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی درسگاہ سے تعلیم لی ہے، جی ہاں اپنے حق کا دفاع ضرور کرنا چاہیئے، اسلام نے مظلوم بن کے رہنے کی اجازت نہیں دی۔ تمام معصومین کی زندگیوں میں ظالم حکمرانوں کا سلطہ رہا، اور ہم نے دیکھا کہ کبھی معصوم (ع) نے قیام کیا اور کبھی صلح میں مصلحت جانی۔ "الحسن والحسین امامان قاماً او قعداً" تو سلم و حرب سب چلتا ہے، چونکہ سیاست میں میری کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں، البتہ اس سلسلے میں علماء پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ اسلام ٹائمز کے ذریعے سے خواتین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
راضیہ بتول نجفی: جی ہاں بالخصوص پاکستانی مومنات کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ خدا نے ہمیں صرف ایک زندگی عطا کی ہے، جسکے بدلے میں ہمیں اپنی ابدی زندگی کو بنانا ہے، ہم اس زندگی کے ذریعے کیا کچھ ڈیلنگ اپنے رب العزت سے نہیں کر سکتے، متاسفانہ پاکستان میں خواتین کا زیادہ ٹائم اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے میں گزرتا ہے۔ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں اور کس مقصد کے لئے آئے ہیں؟ ہمیں کہاں جانا ہے؟ اتنی مجالس و ماتم کس کام کا جب واجبات ہی درست ادا نہ کر سکیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہماری تمام ملت تشیع جنتی ہو۔ اسکے لئے  سادگی کی طرف جانا ہو گا، ہم شیعہ عزاداری حسن علیہ السلام کی بدولت بہت امیر ہیں، ہمارے پاس یہ بہت بڑا سرمایہ ہے، لہذا خواتین کو علم کے ذریعے خود میں شعور لانا ہو گا اور وہ راستہ جو حق کیطرف لے جائے اس کو اپنانے میں ہی نجات ہے۔  

 




خبر کا کوڈ : 311035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش