0
Thursday 3 Jul 2014 04:13
جن لوگوں کا نظریہ حکومت ہو وہ کبھی ملک کی خدمت نہیں کرسکتے

فوجی آپریشن حکومت نے شروع نہیں کیا، نواز لیگ اب بھی آپریشن کے حق میں نہیں، صاحبزادہ حامد رضا

پاکستان میں انتخابی سیاست پیسے کے زور پر گھومتی ہے
فوجی آپریشن حکومت نے شروع نہیں کیا، نواز لیگ اب بھی آپریشن کے حق میں نہیں، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں اور اعلٰی تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی۔ صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب فائز ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، تکفیریت، دہشتگردی کیخلاف شروع سے ہی ایک واضح موقف رکھتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملکر فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے عوامی سطح پر متحرک ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو آپ نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ اسلام ٹائمز نے ملکی سیاست کے موضوع پر ان سے گفتگو کی، جو ایک انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ
 
اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت کو مدت پوری کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ اگر تبدیلی آئی تو آپکے خیال میں کیسی حکومت وجود میں آئے گی۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: میرے خیال میں یہ حکومت مدت پوری کرنا تو دور کی بات، دو سال بھی مشکل سے چلے گی جبکہ آنیوالی حکومت انقلابی ہوگی۔ ملک میں عرصے سے جو باری سسٹم چل رہا ہے، یعنی میری تیری والا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ اگلی حکومت میں اسمبلیوں تک جو ممبران پہنچیں گے وہ آئین پاکستان کو مانتے ہونگے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر واضح موقف رکھتے ہونگے اور ان کا رہنا سہنا پاکستان میں ہی ہوگا اور امید ہے وہ حکومت ملک کے مستقبل کے بارے میں مخلص ہوکر فیصلے اور اقدامات کرے گی۔

اسلام ٹائمز: ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد ایک انقلابی حکومت آنے کی بات آپ نے کی ہے، کیا آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: بالکل گنجائش ہے، آئین کہتا ہے شفاف انتخابات، اور شفاف انتخابات تو ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ملک میں آخری انتخابات ہوئے ہیں، کیا کسی جماعت نے ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ شفاف انتخابات ہوئے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ الیکشن ٹریبونلز کو جو چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا اور جن امیدواروں نے شکایات کی تھیں، ابھی تک کسی جگہ پر فیصلہ نہیں آیا، لیکن جن جگہوں پر ری کاؤنٹنگ ہوئی ہے اور فیصلہ آیا ہے وہاں ہارنے والا امیدوار ہی جیتا ہے اور پھر وہاں ری پولنگ کرانا پڑی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے انتخابات میں دھاندلی کی بات کی، اگر دھاندلی ہوئی تھی تو انتخابی نتائج کو تسلیم کیوں کیا گیا، حکومت اور انتخابات کو مسترد کیوں نہیں کیا۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: جو بھی جماعتیں اسمبلیوں میں پہنچی یا نہ پہنچی، بدقسمتی سے الیکشن کے فوراً بعد یہ جماعتیں کوئی متفقہ موقف نہیں اپنا سکیں۔ میرا اپنا سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ کیونکہ عمران خان دوسرے نمبر پر آگئے تھے۔ تو ان کے ساتھیوں نے انہیں اس بات پر رام کر لیا کہ ہمیں خیبر پختونخوا میں حکومت مل گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں قابل ذکر نشستیں مل چکی ہیں۔ ہمیں جو پارلیمانی قوت ملی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریک چلا کے یا نتائج کو مسترد کرکے ہم اس سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ یہ کسی ایک پارٹی کا مسئلہ نہیں تھا۔ سب نے ہی اس کے خلاف آواز بلند کرنا تھی۔ جہاں تک نتائج تسلیم کرنے کی بات ہے تو جو امیدوار جیت گئے تھے انہوں نے تو پارلیمنٹ میں پہنچنا تھا۔ جیسے ایم ڈبلیو ایم کے آغا رضا جیتے ہیں۔ اب ایم ڈبلیو ایم انہیں واپس تو نہیں لے سکتی تھی۔ جو لوگ جیتے ہیں انہیں بہرحال اسمبلیوں میں تو پہنچنا تھا۔ میری اپنی سیٹ پر انتخابی نتیجہ کچھ اور تھا اور جو اعلان کیا گیا وہ کچھ اور ہے۔ ساری جماعتوں کے ذہن میں یہ تھا کہ الیکشن کمیشن میں جو شکایات درج ہوچکی ہیں جب اس کی رپورٹس سامنے آئیں گی تو دھاندلی سامنے آجائے گی، لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلے سامنے بھی نہیں آسکے اور اب سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ تو ظلم ہوگیا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: عمران خان جو حکومت اور دھاندلی کیخلاف آواز اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن آپ کے سیاسی الائنس میں شامل نہیں، جو جماعتیں الائنس میں شامل ہیں انہیں عوام نے مینڈیڈیٹ نہیں دیا، پھر ممکنہ انقلاب کو کیسے آپ عوامی انقلاب کہہ سکتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: میں عوام کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اسی اسمبلی میں اراکین پر نظر ڈالیں، اس میں ستر فیصد وہ اراکین شامل ہیں جو پچھلی اسمبلی قائداعظم لیگ کے ٹکٹ پر اسمبلی میں موجود تھے۔ اب جو قائداعظم لیگ کے ٹکٹ پر تھے وہ نواز لیگ میں شامل ہوچکے ہیں۔ کچھ پیپلز پارٹی میں چلے گئے ہیں۔ وہی چہرے ہیں جو سرمائے کے زور پر مسلسل پانچواں اور چھٹا الیکشن جیتتے آرہے ہیں، پاکستان میں انتخابی سیاست پیسے کے زور پر گھومتی ہے۔ کیا یہ حقیقی جمہوریت ہے کہ جو لوگ دس سال تک پرویز مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں، حالانکہ ہم نہیں تھے۔ میرے والد اس وقت بھی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور وہاں پر آواز بھی اٹھاتے رہے تھے۔ جیل بھی گئے۔ آج میاں صاحب کی کیبنٹ میں پانچ رکن وہ ہیں جو مشرف کی کیبنٹ میں تھے۔ مسلم لیگ نواز کے 25 سے زائد ایم این اے وہ ہیں جو کل قاف لیگ کا حصہ تھے۔ یہ تو کوئی جمہوریت نہیں ہے کہ جب دیکھیں ایک پارٹی کا وقت ختم ہوگیا تو دوسری پارٹی میں چلے جائیں۔ 25 سال سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ملک میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکے۔ دہشت گردی کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے، ملک برباد ہوگیا ہے، بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، تعلیمی پسماندگی ہے۔ غربت کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اگر انہی پر ہی تکیہ کرتے رہے تو یہی نتائج رہیں گے جو سامنے ہیں۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ مفادات کی بنیاد پر وابستگی اختیار نہیں کی جاتی بلکہ نظریے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جن لوگوں کا نظریہ حکومت ہو، وہ کبھی ملک کی خدمت نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: آپ انقلابی تبدیلیوں کا ذکر کر رہے ہیں، اگر انقلابی حکومت وجود میں آ بھی گئی تو آپکے سیاسی الائنس میں کسی بھی جماعت کے پاس ایوان بالا کی نمائندگی ہی موجود نہیں ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے، آپ بناء قانون سازی کے کیسے آئینی اور قانونی تبدیلی لاسکتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: ایوان بالا یعنی سینیٹ کی حیثیت پاکستان میں ربڑ سٹمپ کی ہے۔ آئینی طور پر جو قانون یا بل نیشنل اسمبلی منظور کرتی ہے۔ ایوان بالا کے پاس اختیار ہے کہ وہ اسے مسترد کر دے۔ وہ مسترد ہونے کے بعد ختم نہیں ہوجاتا بلکہ واپس نیشنل اسمبلی کے پاس جاتا ہے۔ اگر نیشنل اسمبلی اسے دوبارہ منظور کر دے تو اس کے بعد سینیٹ کی منظوری کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ صدر پاکستان کے دستخط کے بعد وہ قانون کا حصہ بن جاتا ہے۔ سینیٹ کی اہمیت بس اتنی ہے کہ ایک بار اگر مسترد کرے اور نیشنل اسمبلی اسے دوبارہ منظور کرے تو وہ قانون کا حصہ بن جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے سیاسی الائنس میں شامل جماعتوں کا بنیادی مطالبہ دہشتگردوں کیخلاف آپریشن تھا، اس حکومت کے دور میں جب آپریشن کامیابی سے جاری ہے تو آپ اسی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں، اور دوران آپریشن ہی وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: وفاق میں حکومت سے پہلے جب پنجاب میں مسلم لیگ نواز حکومت میں تھی تو انہوں نے تحریک طالبان کو مکمل طور پر سپورٹ کیا۔ پنجاب حکومت نے لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ کو سپورٹ کیا۔ الیکشن کے اندر بھی تحریک طالبان کے حوالے سے ان کا موقف انتہائی نرم تھا۔ انتخابات میں دیکھیں تو ہمارے امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی ہی جمع نہیں کراسکے کیونکہ ان کو طالبان کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ جلسوں میں دھماکے ہوئے، امیدوار نشانہ بنے مگر وہ پارٹی جس کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور وہ سرعام اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے تھی تو وہ مسلم لیگ نون تھی۔ فوجی آپریشن حکومت نے نہیں کیا۔ سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین یا پاکستان عوامی تحریک کا آج سے موقف تبدیل نہیں ہوا۔ ہمارا پہلے دن سے یہی موقف تھا کہ جب تک تکفیری سوچ کے خلاف، طالبان کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہوگا اس وقت تک امن ممکن نہیں۔ میرے والد صاحب کے دور میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہمارا بائیس سال کا ساتھ تھا جس میں سے صرف ڈھائی سال دور حکومت کے ہیں اور باقی سارا عرصہ اپوزیشن میں گزارا۔ ہمارا ان کے ساتھ اتحاد ختم ہی اس وجہ سے ہوا کہ وہ تحریک طالبان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ مالی اور ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں ملک اسحاق سے۔ جب نواز لیگ دہشت گردوں کے ساتھ ہوئی تو ہم ان سے الگ ہوگئے۔ ہمارے درمیان یہی بات چل رہی تھی کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد ہم اپنی تحریک لیکر آئیں، مگر اس سے قبل جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انہوں نے بربریت کا مظاہرہ کیا۔ اس پر ہم خاموش تو نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ آپریشن موجودہ حکومت نہیں کر رہی۔ آئین و قانون کی رو سے وزیراعظم یا وزیر اطلاعات کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ٹی وی پر آکے قوم کو بتاتے کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ان کے بجائے آئی ایس پی آر نے بتایا۔ وزیراعظم کا بیان فوج سے روابط بہتر رکھنے کے لیے تھا۔ اب بھی وہ آپریشن کے حق میں نہیں ہیں اور لاہور والا سانحہ بھی آپریشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے تھا۔ 

اسلام ٹائمز: فوج کی حمایت اور سیاسی و جمہوری حکومت کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے حالانکہ تکفیریت کے فروغ میں عسکری پالیسیوں کا زیادہ کردار ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: ہم تو شروع سے ہی کہہ رہے کہ اداروں کی سرپرستی میں تکفیریت کو فروغ دیا گیا ہے۔ یہ فساد جنرل ضیاء کے دور سے اٹھا ہے۔ جنرل مشرف نے تکفیری سوچ کو سپورٹ کرنے کے بجائے ان کے خلاف آپریشن کیا تھا۔ مشرف اس تکفیری فکر کے خلاف تھے، اور تمام تر اختلافات کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ جنرل مشرف نے ان کے اوپر عملی طور پہ کریک ڈاؤن کیا تھا۔ لہذا جو ان کے ساتھ تھا یعنی ضیاء تو اس کی پالیسیوں کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا سمجھتے ہیں کہ مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی واقع ہوئی ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: موجودہ وقت میں مذہبی منافرت میں 100 گنا اضافہ ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسی دور میں آپ کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی زیادہ متحرک ہے، مذہبی منافرت کو تو کم ہونا چاہیے تھا پھر اضافہ کیونکر ہوا ہے۔؟ 
صاحبزادہ حامد رضا: ہمارے اور مجلس وحدت مسلمین کے الائنس کو ایک سال ہوچکا ہے، اس میں آپ محرم اور ربیع الاول کے مواقع کو دیکھ لیں۔ آج سے ایک سال پہلے جو شیعہ سنی فساد کی بات کی جاتی تھی وہ اب نہیں ہوتی۔ شیعہ سنی کا ایشو عملی طور پر ختم ہوچکا ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب پاکستان میں کفر کے نعرے لگاتے ہیں اور ایران میں جاکر وحدت کی بات کرتے ہیں۔ ابھی ایران کے دورے کے دوران میں نے بڑے صاف انداز میں کہا ہے کہ وحدت ان لوگوں کے درمیان ہوسکتی ہے جن کی سوچ میں یکسانیت، ہم آہنگی یا برداشت کا جذبہ ہو۔ انہوں نے تو شیعہ کے بعد اب سنیوں پر بھی کفر کے فتوے دینے شروع کر دیئے ہیں۔ کوئی بھی بیرونی حکومت ہے تو وہ ایسے لوگوں کی سرپرستی کرتی ہے جو منافقین ہوں۔ وہ ان لوگوں کی سرپرستی نہیں کرتی جو فرقہ واریت کے اس مسئلہ کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔

اسلام ٹائمز: سنی اتحاد کونسل اور سنی تحریک کے درمیان تعلقات کا پس منظر کیا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: جس وقت سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ ہوئی تھی تو آئین میں ایک طریقہ کار ہے، قانون ہے کہ ایک وقت میں کوئی بھی شخص دو پارٹیوں کا ممبر نہیں ہوسکتا، دو پارٹیوں کا سربراہ نہیں ہوسکتا اور دو پارٹیوں کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔ اسی بنیاد پر ایم ایم اے کی جو تشکیل ہوئی تھی وہ نیو الیکشن کمیشن کے نئے قواعد سے پہلے کی تھی۔ اب الیکشن کمیشن کے قواعد میں ہے کہ اگر آپ کوئی الائنس بنانے کے لیے جا رہے ہیں تو ایک وقت میں آپ دو پارٹیوں کے ساتھ نہیں ہوسکتے۔ جب سنی اتحاد کونسل بنی تو اس میں جماعت اہلسنت پاکستان شامل تھی۔ انجمن طلباء اسلام شامل تھی۔ پاکستان سنی تحریک شامل تھی۔ میرے والد صاحب اور حاجی حنیف طیب صاحب سنی اتحاد کونسل کے مرکزی عہدیدران بنے تھے۔ سنی تحریک خود بھی ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ تھی تو اس کے سربراہ کے لیے شرط تھی کہ وہ پہلے مستعفی ہو پھر سنی اتحاد کونسل میں عہدہ حاصل کرے، چونکہ جماعت اہلسنت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں تھی، اس لیے وہ ابھی تک سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہے۔ کراچی بدامنی کے حوالے سے کورٹ کی جانب سے سنی تحریک پہ کچھ خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس پر سنی تحریک الگ ہوگئی تھی۔
خبر کا کوڈ : 397002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش