0
Friday 16 Jan 2015 20:56
طالبان نے شہباز شریف پر حملے کی دھمکی دی ہے

اب کوئی اچھے برے طالبان نہیں، سب کیخلاف بلاامتیاز کارروائی ہوگی، شجاع خانزادہ

پاکستان سے دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرکے ہی دم لیں گے
اب کوئی اچھے برے طالبان نہیں، سب کیخلاف بلاامتیاز کارروائی ہوگی، شجاع خانزادہ
کرنل (ر) شجاع خانزادہ اٹک کے حلقہ پی پی 16 سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، اسوقت پنجاب میں وزارت داخلہ اور تحفظ ماحولیات کے قلمدان انہی کے پاس ہیں۔ شجاع خانزادہ 28 اگست 1943ء میں شادی خیل گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1966ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی، 1967ء میں پاک فوج میں چلے گئے، 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی حصہ لیا۔ فوج میں اعلٰی خدمات پر 1988ء میں تمغہ بسالت بھی ملا۔ 1992ء سے 94 تک امریکہ میں ملٹری اتاشی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ مسلم لیگ نون سے تعلق ہے، 2002ء سے 2008ء تک بھی صوبائی وزیر رہے جبکہ 2008ء سے 2013ء تک وزیراعلٰی پنجاب کے مشیر رہے، اسکے بعد انہیں باقاعدہ وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ماحولیات کے شعبہ میں بھی نمایاں سرگرمی دکھائی۔ اس وقت دہشتگردوں کے خلاف کمر بستہ ہیں۔ موجودہ ملکی صورت حال اور دہشتگردوں کے خلاف حکومتی اقدامات کے حوالے سے ان کے ساتھ لاہور میں ایک مختصر نشست ہوئی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے حوالے سے اب تک پنجاب حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں اور کیا آپ ان انتظامات سے مطمئن ہیں۔؟
شجاع خانزادہ: دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے پنجاب حکومت نے تقریباً تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں، ایمپلی فائر ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں آگاہی مہم شروع کی گئی ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور عوام سکیورٹی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ جہاں ہم نے دہشتگردوں کے خلاف شکنجہ سخت کیا ہے وہیں ہم نے ان کے سہولت کاروں اور مدد گاروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ سکیورٹی ادارے اس وقت مکمل طور پر چوکس ہیں اور کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اب دہشت گردوں کو پاکستان میں سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔ ہم نے چاروں جانب سے دہشتگردوں کا گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اب تک 5 آرڈیننس جاری کئے ہیں۔ کرایہ داری، حساس مقامات کی سکیورٹی، ناجائز اسلحہ، وال چاکنگ اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے حوالے سے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی ہو رہا ہے اور صرف لاہور میں ایمپلی فائر ایکٹ کے تحت پانچ سو کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور آئے روز دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کے ردعمل میں بھی دہشتگردانہ کارروائیاں ہوسکتی ہیں، اس حوالے سے حکومت نے کیا حکمت عملی مرتب کی ہے۔؟

شجاع خانزادہ: دہشتگردوں کی جانب سے آپریشن ضرب عضب اور پھانسیوں کے ردعمل میں یہ ممکن ہے کہ دہشتگرد انتقام لے سکتے ہیں۔ دہشتگرد اعلٰی سیاسی اور فوجی افسروں کو نقصان پہنچانے سمیت پبلک مقامات پر بم دھماکے یا فائرنگ کرسکتے ہیں، اپنے مطالبات منوانے اور ساتھی دہشتگردوں کو رہا کروانے کے لئے سکولوں کے بچوں کو یرغمال بنا سکتے ہیں، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، ایئرپورٹس، جیلوں، حساس تنصیبات، آرمی کی آبادیوں، مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکیوں بالخصوص چینی باشندوں کو نقصان پہنچانے کے لئے خودکش حملوں سمیت دیگر طریقے استعمال ہوسکتے ہیں۔ دہشتگردوں نے اب نیا طریقہ اختیار کیا ہے کہ چاقو اور خنجروں کے ذریعے حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے، اب دہشتگرد غیر معمولی حالات کے پیش نظر مرو یا مارو کی نہج پر پہنچ چکے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے تمام انتظامات مکمل ہیں، سکیورٹی فورسز مکمل طور پر چوکس ہیں اور وہ کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پہلے تو حکومت نے کہا تھا کہ اچھے طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور برے طالبان کی سرکوبی کی جائے گی، سانحہ پشاور کے بعد کیا طالبان میں حکومت کو کوئی اچھائی دکھائی دے رہی ہے۔؟
شجاع خانزادہ: بالکل نہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ کسی اور کی نہیں ہماری ہے، ہم نے طالبان کو موقع دیا تھا کہ راہ راست پر آجائیں، حکومت کی رٹ تسلیم کر لیں، لیکن انہوں نے سنہری موقع ضائع کر دیا اور اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب طالبان میں کوئی اچھا برا نہیں بلکہ سارے کے سارے طالبان دہشتگرد ہیں۔ صرف 2 نکات نے دہشتگردی کے خلاف حکومت کی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزرائے اعلٰی کی سربراہی میں اپیکس کمیٹیاں بن گئی ہیں جو انشاءاللہ عوام کو اچھے نتائج دیں گی، اپیکس کمیٹیوں کی میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور مذہبی قیادت ایک صفحہ پر جمع ہیں، اس اتحاد کی بدولت دہشتگردوں کو عبرت ناک شکست ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پھانسیوں کے حوالے سے بیرونی دباؤ تھا، اسکو حکومت نے کس طرح ہینڈل کیا ہے۔؟
شجاع خانزادہ: جی بالکل، اس حوالے سے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ تھا لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف نے بیرونی دباؤ کو رد کرتے ہوئے پھانسیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کا حکم دیا، جس سے عوام میں اعتماد آیا ہے، اور پھانسیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ کرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے، دہشتگردی کی وارداتیں کم ہوگئی ہیں۔ ممکن ہے پہلے دہشتگرد یہ سمجھتے ہوں کہ قتل وغارت کرکے وہ بچ جائیں گے، لیکن اب ان کی یہ امید بھی ختم ہوگئی ہے، اب انہیں یقین ہوگیا ہے کہ کسی واردات میں پکڑے گئے تو سیدھا تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا، اس خوف کے باعث اب دہشتگرد کوئی واردات کرنے سے قبل سو بار سوچیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ تنہا دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتا، پوری قوم اپنا کردار ادا کرے تب ہی کامیابی ملتی ہے، اور انشاءاللہ کامیابی پاکستان کا مقدر بن چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کو دہشتگردوں کی طرف حملے کی دھمکیاں ملی ہیں۔؟

شجاع خانزادہ: جی ہاں، وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف سمیت اہم سیاسی و عسکری شخصیات کو دھمکیاں ملی ہیں، ان کے توڑ کے لئے انتظامات بھی کر لئے گئے ہیں۔ لاہور میں بھی پشاور جیسا سانحہ کرنے کی منصوبہ بندی پکڑی گئی تھی، جس کی اطلاع ملتے ہی فورسز نے روح اللہ دہشتگرد کو 2 ساتھیوں سمیت مار دیا۔ اسی طرح جیسے ہی کسی دہشتگرد کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے، سکیورٹی فورسز فوراً کارروائی کرتی ہیں۔ جاتی امرا کی سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے، اسکے علاوہ تمام سرکاری املاک کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ پورے پنجاب میں ریڈ الرٹ کر دیا گیا ہے، ہمیں اس حوالے سے غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے، اب کوئی اچھا یا برا طالبان نہیں، ہمیں گلی محلوں، بازاروں حتٰی کہ ہر جگہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں متعدد کالعدم جماعتیں ہیں، پابندی کے باوجود وہ نام بدل کر کام کر رہی ہیں، یہ کیسی پابندی ہے کہ وہی لوگ اپنا کام نئے ناموں سے جاری رکھے ہوئے ہیں، اسطرح انتہا پسندی کیسے کنٹرول ہوسکتی ہے۔؟

شجاع خانزادہ: پنجاب میں اس وقت 63 تنظیمیں کالعدم ہیں، نیا قانون لایا جا رہا ہے جس کے تحت اگر اب کوئی دہشتگردوں کے حق میں یا ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کی مخالفت میں بات کرے گا تو اس کی بھی گرفت ہوگی، اور چاہیئے ان لوگوں کی تعداد لاکھوں ہی کیوں نہ ہو، انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ اب کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی سیاسی یا مذہبی دباؤ قبول کیا جائے گا، کیونکہ ہم ملک سے دہشت گردی کو جڑوں سے ختم کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ پولیس کو کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائی کی ہدایات دی جاچکی ہیں، پولیس اس حوالے سے اپنا کام شروع کرچکی ہے، بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ انتہا پسند جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: دھمکیاں کن دہشتگردوں کیطرف مل رہی ہے۔؟
شجاع خانزادہ: زیادہ تر دھمکیاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ملی ہیں، وزیراعلٰی کو بھی جو دھمکی دی گئی ہے، وہ بھی تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دی گئی ہے، ہم نے پورے صوبے میں فول پروف سکیورٹی انتظامات کئے ہیں، اب کوئی بھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کالعدم جماعتوں کو نام بدل کر کام نہیں کرنے دیں گے، اس حوالے سے حکومت نے آئی جی پولیس کو باقاعدہ ہدایات جاری کی ہیں کہ ایسے لوگ جو کالعدم جماعتوں کے عہدیدار رہ چکے ہیں، اگر وہ کسی بھی سرگرمی میں دکھائی دیں، انہیں فوراً گرفتار کر لیا جائے اور اس حوالے سے کوئی دباؤ یا بلیک میلنگ میں نہ آیا جائے، اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور انہیں قطعاً کام نہ کرنے دیا جائے۔ پولیس نے بھی اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے اور انشاءاللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ کچھ مدارس بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں، انکے خلاف اب تک حکومت نے کیا اقدام کیا ہے۔؟

شجاع خانزادہ: دہشتگردی میں ملوث مدارس، این جی اوز اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں، اس حوالے سے سپیشل برانچ اور دیگر سکیورٹی ادارے تیزی سے کام کر رہے ہیں، ان فہرستوں کو جلد ہی پولیس اور سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جہاں تک آپ نے مدارس کی بات کی ہے تو دہشتگردی میں ملوث مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کرکے انہیں بند کر دیا جائے گا اور ان مدارس کی انتظامیہ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ جہاں تک طلباء کی بات ہے تو ان کی سکروٹنی کی جائے گی اور اچھے طلباء کو دوسرے مدارس میں بھجوا دیا جائے گا۔ یہاں ہم ان مدارس کے طلبا کو کہتے ہیں کہ وہ ایسے مدارس جو دہشتگردی میں ملوث ہیں انہیں چھوڑ دیں اور اچھے مدارس میں چلے جائیں کیونکہ اب دہشتگردی میں ملوث مدارس کے لئے کوئی معافی نہیں، ہماری تمام وفاق المدارس اور تنظیم المدارس سے بات ہوئی ہے، سب نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ جو بھی مدارس ملوث ہیں، انکے خلاف کارروائی کی جائے، وہ شکوہ نہیں کریں گے۔ یوں ہمیں تمام اچھے اور محب وطن مدارس کی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک این جی اوز کی بات ہے تو ہم نے ایک امریکی این جی او پر پابندی عائد کر دی ہے، باقی بھی تمام این جی اوز کی نگرانی ہو رہی ہے۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: ایک ٹرینڈ یہ ہے کہ جب بھی دہشتگردی کی کوئی واردات ہوتی ہے حکومت ’’اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے‘‘ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجاتی ہے، آخر یہ بیرونی ہاتھ بے نقاب کیوں نہیں ہوتا اور یہ بیرونی ہاتھ اتنے بڑے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے باوجود اپنی کارروائیاں کیسے کر لیتا ہے۔؟
شجاع خانزادہ: اصل میں بیرونی ہاتھ خارج از امکان نہیں بلکہ بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں، آرمی چیف نے اپنے ہنگامی دورہ افغانستان کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی کو بہت سارے شواہد دیئے ہیں، انہیں واضح کہا ہے کہ پاکستان سرحد پر بھارت کے قونصل خانے کن کن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بھارت ایک طرف سے ہماری مغربی سرحد پر دہشتگردی کروا رہا ہے اور دوسری جانب مشرقی سرحد پر بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آئے روز فائرنگ سے سول آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونا تو ثابت شدہ ہے، جہاں تک آپ نے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی بات کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا انٹیلی جنس سسٹم پوری دنیا میں ایک بہترین سسٹم مانا جاتا ہے لیکن بھارت دراصل طالبان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، وہ انہیں اسلحہ اور ڈالرز دیتے ہیں اور اپنے ہدف کو حاصل کروا لیتے ہیں۔ چند مذہبی جماعتیں بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں جو کالعدم ہیں لیکن ان کے کارکن بہرحال موجود ہیں جو بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 432969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش