0
Sunday 24 May 2015 03:25
دینی حلقے ضرب عضب کی وجہ سے بگڑے ہوئے ہیں

داعشی جنونی اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، پاکستان میں عرب ملکوں کیطرح ون مین شو نہیں ہے، کنور دلشاد

نواب اکبر خان بگٹی کو یو اے ای کی طرح امیر بلوچستان بنائے جانیکا لالچ مڈل ایسٹ ممالک نے دیا تھا
داعشی جنونی اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، پاکستان میں عرب ملکوں کیطرح ون مین شو نہیں ہے، کنور دلشاد
کنور محمد دلشاد، نظریہ پاکستان کونسل (ٹرسٹ) اسلام آباد میں ایگزیکٹو سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ ملک بھر میں انتخابی تاریخ، قوانین و ضوابط، طریقہ کار اور آئینی نکات کے ماہر افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ ملکی اور ملٹی نیشنل اداروں میں اہم تنظیمی عہدوں پر خدمات انجام دینے کا 30سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور اپنی اعلٰی کارکردگی کے حوالے سے انتہائی فعال، اختراع کار اور نتیجہ بردار افسر کی شہرت کے حامل ہیں۔ آپ کے تجزیاتی مضامین اور کالم ملک کے متعدد اخبارات میں تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں، جبکہ ملک کے بہترین ٹی وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی عموماً اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ آپ جرنلزم اور پولٹیکل سائنس میں ماسٹرز کے علاوہ ایل ایل بی کی ڈگری کے حامل بھی ہیں۔ آپ 2004-2009ء تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفاقی سیکرٹری رہے اور اسی عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ 2004ء میں آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سینیئر جائنٹ سیکرٹری تھے جبکہ اسی محکمے میں آپ نے 2000ء سے 2004ء اور اس سے قبل 1989-95ء میں بطور جائنٹ سیکرٹری خدمات انجام دیں۔ 2000ء سے 1995ء بلوچستان میں صوبائی الیکشن کمشنر رہے۔ 1986-89 تک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ کے طور پر کام کیا۔ 1977-86ء ڈپٹی الیکشن کمشنر رہے۔ 1972-77ء تک مختلف مراحل میں وزارتِ اطلاعات و نشریات، وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ تعلیم میں ڈائریکٹر انفارمیشن تعینات رہے۔ کنور محمد دلشاد صاحب ابلاغیات کے حوالے سے چار اہم کتابوں (i) ماس کمیونیکشن، (ii) ایفروایشین جرنلزم، (iii) ایڈورٹائزنگ اینڈ پبلک ریلیشنز، (iv) ماس میڈیا اینڈ ریسرچ میتھڈز کے مصنف ہیں، جنہیں ابلاغیات، نشریات اور تعلقات عامہ کے شعبوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام ٹائمز نے کنور محمد دلشاد سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کے استفادے کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کی بعض کارروائیوں میں داعش کا نام سامنے آیا ہے، پاکستان میں داعش کے مضبوط ہونیکے کتنے امکانات موجود ہیں۔؟
کنور محمد دلشاد:
داعش سے وابستہ لوگ جنونی اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یعنی خارجی ہیں۔ جو پیغمبروں کی نشانیاں مٹا رہے ہیں۔ پیغمبروں کی قبروں کے نشانات مٹا رہے ہیں۔ جس اسلام کا نام لے کر وہ اٹھے ہوئے ہیں، وہ اسلام کا چہرہ ہے ہی نہیں۔ یہ لوگ مزارات کے دشمن ہیں، اصحاب رسول (ص) کے اور انکے مزارات کے دشمن ہیں۔ قتل و غارت کر رہے ہیں۔ ان کے مقاصد میں ابہام موجود ہے۔ شائد داعش کے پیچھے اسرائیل موجود ہے۔ قول ہے کہ فتنہ وہ ہے جو قیامت تک رہے گا۔ داعش کے مقاصد کیا ہیں۔ اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، تاحال وہ اسلامی دنیا میں انتشار اور فساد کا باعث ہیں؟ جہاں تک پاکستان میں ان کے پنپنے کی بات ہے تو یہاں انہیں کامیابی نہیں مل سکتی۔ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ پاکستان میں سیاستدان گرچہ ایک لحاظ سے کمزور ہیں، مگر یہاں ادارے مضبوطی سے جمہوری انداز میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں جمہوریت ہے۔ یہاں میڈیا، سول اداروں اور عوامی اداروں کو اتنی زیادہ آزادی حاصل ہے کہ جس کا احاطہ شائد نہ کیا جاسکے۔ لہذا یہاں پر داعش کے کامیاب ہونے کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں عرب ملکوں کی طرح ون مین شو نہیں ہے، جیسے سعودی عرب، قطر، بحرین، اردن، یو اے ای میں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا داعش کو سعودی عرب کی مدد بھی حاصل ہے، کیونکہ یمن پر سعودی حملوں سے سب سے زیادہ فائدہ داعش کو ہوا ہے، اور وہ وہاں مضبوط ہوئی ہے۔؟
کنور محمد دلشاد:
جہاں تک سعودی عرب کی بات ہے تو اسے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتیں اس طرح نہیں بنائی جاتیں۔ آپ سعودی عرب کے بجائے اگر عرب و حجاز کے تناظر میں دیکھیں تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔ عرب اب انتشار کا شکار ہیں۔ وہ نام کی وجہ سے ہی ہیں۔ یمن بہت قدیم اور طویل تاریخ کا مالک ہے۔ حضرت نوع (ع) کی اولاد سے یمن کا ربط جا ملتا ہے۔ نجدی خاندان نے جب ترقی کی تو عرب و حجاز کے بڑے حصے پر قابض ہوگیا، اور یمن کے کئی علاقوں کو بھی اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان سرحد کی حقیقت بھی ہماری ڈیورنڈ لائن سے مختلف نہیں ہے۔ سعودی عرب میں جب بادشاہت تبدیل ہوئی، تو الگ الگ فیصلے لئے جانے لگے۔ موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کو کم نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کسی کو پہچان بھی نہیں سکتے ہیں، اور اپنے جس بیٹے کو انہوں نے ولی عہد مقرر کیا ہے، اس کی عمر تیس سال کے لگ بھگ ہے، اور وہ مڈل ایسٹ کا جمال عبدالناصر بننا چاہتا ہے۔ جمال عبدالناصر کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کو فائدہ اور مڈل ایسٹ کے مسلمان ممالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ یمن پر سعودی عرب کے حملے اور اس جنگ کے بعد حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان ماضی کی آر سی ڈی تنظیم جس میں اب افغانستان اور ایشائی ریاستیں بھی شامل ہوچکی ہیں، ملکر ایک مضبوط بلاک کی صورت میں ابھر رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں ایک تو اس بلاک کو زیادہ مضبوط بھی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس کے علاوہ جس طرح دہشت گردی اور عدم استحکام کے ذریعے عراق اور شام کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور یمن بھی مختلف حصوں میں تقسیم کئے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: صدر مرسی کو سزائے موت سنائی گئی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
کنور محمد دلشاد:
مصر کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں، صدر مرسی نے جب پچاس فیصد سے زیادہ مینڈیٹ لیکر حکومت قائم کی اور آتے ساتھ ہی پورے انتظامی ڈھانچے میں ایک دم بڑے پیمانے پر تبدیلیاں شروع کر دیں۔ راتوں رات اخوان کے لوگوں کو مختلف اداروں میں تعینات کر دیا۔ ایک دم اکھاڑ پچھاڑ سے جو 47 فیصد ووٹ انہیں نہیں ملا تھا، ان لوگوں میں گرمی پیدا ہوگئی۔ فوج میں جو لوگ انہیں مشورہ دے رہے تھے کہ آہستہ آہستہ تبدیلی کی جانب جائیں تو ان کی بھی نہیں سنی گئی۔ نتیجے میں مرسی حکومت نے بھی اپنے مینڈیٹ سے اسی طرح ہاتھ دھولیا، جس طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اقتدار سے ہاتھ دھو لیا تھا۔ عربوں کو خدشہ تھا کہ جمہوری طریقے سے جس طرح مصر میں تبدیلی آئی ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں بھی نہ در آئے۔ بحرین میں بھی عوام آواز بلند کر رہے ہیں۔ صدر مرسی کو حال ہی میں حکومت کی جانب سے جو سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے، بہت بڑی زیادتی ہے، اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جس طرح صدر مرسی کا اقتدار چلا گیا، ان کی حکومت بھی زوال کا شکار ہوسکتی ہے۔ اگر آج وہ صدر مرسی کو پھانسی دیں گے تو کل انہیں بھی اس سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ روایت قائم نہیں ہونی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری دہشتگردی میں را کا نام لیا جا رہا ہے، جبکہ بعض دینی حلقے دہشتگردوں کی مذمت کرنے پر تیار نہیں، وفاقی وزراء پر بھی کفر کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں، مگر حکومت انکے خلاف کوئی ایکشن لینے پر تیار نہیں۔؟
کنور محمد دلشاد:
پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف، کور کمانڈرز، سمیت مشینری اس بات پر سٹینڈ لیئے ہوئے ہیں کہ را کو بے نقاب کرنا ہے، اور ان کے حامی چاہئے وہ پرنٹ و الیکڑانک میڈیا میں ہیں یا کسی اور روپ میں، ان پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ ضرب عضب کا سلسلہ انتخابی عمل، سول سوسائٹی اور جو باہر سے مالی وسائل لیتے ہیں، ان تک بڑھانا ہے۔ جہاں تک مولانا عبدالعزیز کی بات ہے تو وہ سادہ آدمی ہیں، معاملات کو اتنا نہیں سمجھتے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے۔ جہاں تک پرویز رشید کے مدارس سے متعلق بیان اور ان کے خلاف جاری ہونے والے فتووے کی بات ہے تو پاکستان میں زیادہ دانشوری کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا انسان کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پرویز رشید کو بھی احتیاط کرنی چاہیے، خاص طور مذہب، مسلک، مدارس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اس وقت دینی حلقے ضرب عضب کی وجہ سے بہت بگڑے ہوئے ہیں، اور اب بہانے تلاش کر رہے ہیں کہ غصے کو نکالنے کیلئے کوئی راستہ ملے۔ وفاقی وزراء کو چاہئے کہ وزیراعظم نواز شریف کی پریشانیوں میں اضافہ نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ چین کے ساتھ جن منصوبوں کی داغ بیل ڈالی گئی ہے، ان پر توجہ مرکوز رکھے اور انہیں مکمل کرے۔ اس سے پاکستان مضبوط ہوگا۔ بھارت سے بھی گڑ بڑ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ایران سے بھی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں جاری بدامنی اور دہشتگردی میں کون سے عوامل کارفرما ہیں۔؟
کنور محمد دلشاد:
بلوچ رہنماء پاکستان کے محب وطن شہری ہیں۔ عطاءاللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، حاصل خان بزنجو، محمود خان اچکزئی محب وطن ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی جو بغاوت کیلئے اٹھے، اس کے اندر بھی مڈل ایسٹ کے بعض ممالک شامل ہیں۔ مشرق وسطٰی کے بعض ممالک نے انہیں متحدہ عرب امارات کی طرز پر بلوچستان کا امیر بنانے کی پیش کش کی تھی۔ نواب اکبر بگٹی کو سوئی گیس کی جانب سے پچیس کروڑ روپے مہینہ ملتا تھا۔ پانچ سو گاڑیاں، ہزاروں گارڈز اور دیگر مراعات انہیں ملی ہوئی تھیں۔ ان پر اپنے پوتے کی محبت غالب آگئی تھی۔ ان کو کہا گیا کہ یو اے ای کی طرح بلوچستان کے آپ امیر یعنی بادشاہ ہوں گے۔ اس کے باعث عمر کے آخری حصے میں ان کے خون میں حرارت پیدا ہوئی، حالانکہ وہ بھی محب وطن تھے، مگر وہ پوتے کی محبت میں اس راہ کا انتخاب کر بیٹھے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ فوجی آپریشن نہیں ہونا چاہیے تھا، مذاکرات کے ذریعے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کے بارے میں آپ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ اس میں دھاندلی کس حد تک ہوئی تھی۔؟
کنور محمد دلشاد:
اس وقت کی نگران حکومت نے ایک منظم طریقے سے دھاندلی کرائی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ دھاندلی نگران حکومت نے کرائی، مگر احساس کمتری کا شکار نواز شریف حکومت ہے۔ نجم سیٹھی سمیت نگران وزیراعظم اور ان کے قریبی عناصر اس دھاندلی کا حصہ تھے۔ انتخابات کا تمام تر انتظامی ڈھانچہ نگران حکومت کے انڈر میں تھا۔ اختیارات ریٹرنگ افسران کے پاس تھے۔ اب الیکشن ٹریبونلز نے سعد رفیق کو نااہل قرار دیا تو وہ سپریم کورٹ میں گئے۔ وہ ان کا آئینی اور قانونی حق تھا، مگر اب جو کمیشن بنا ہے، وہ بہت سے معاملات پر غور کر رہا ہے۔ اسکے تفصیلی فیصلے سے بہت سے معاملات واضح ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس کا مقصد نواز شریف کی حکومت قائم کرانا نہیں تھا، بلکہ عمران خان کو لیڈر آف دی اپوزیشن بننے سے روکنا تھا۔ پچیس سے تیس نشستوں پر دھاندلی ہوئی۔ جس کے باعث پی ٹی آئی لیڈر آف دی اپوزیشن کا مقام حاصل نہیں کرسکی۔ اگر ان نشستوں پر شفاف پولنگ اور نتائج سامنے آتے تو نواز شریف حکومت کو حقیقی اور مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑتا۔
خبر کا کوڈ : 462701
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش