0
Saturday 28 Nov 2015 20:36

کربلا میں کروڑوں زائرین کی موجودگی داعش اور یزیدی ذہنیت کیلئے ایک دندان شکن جواب ہے، سجاد کرگلی

کربلا میں کروڑوں زائرین کی موجودگی داعش اور یزیدی ذہنیت کیلئے ایک دندان شکن جواب ہے، سجاد کرگلی
سجاد حسین کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع کرگل سے ہے، آپ نے حصول علم کی خاطر سری نگر کے ایک کالج میں داخلہ لیا، بعد میں نئی دہلی کا رخ کیا۔ جہاں آپ نے حقوق انسانی میں ماسڑز کی ڈگری حاصل کی، اس کے علاوہ آپ سارک یوتھ کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں اور متعدد بین الاقوامی اور ملکی سطح کی کانفرنسز میں بھی شرکت کر چکے ہیں، فی الوقت سجاد حسین فری لانس جرنلزم کے پیشہ سے منسلک ہیں اور مختلف اخباروں اور جرائد کے لئے لکھتے رہتے ہیں۔ نئی دہلی سے لیکر کشمیر تک، ظالم کے خلاف اور مظلومین عالم کی حمایت میں ہونے والے تظاہرات میں آپ پیش پیش رہتے ہیں، آپ کی تحریر بھی حق و باطل میں حد فاصل کی حیثیت رکھتی ہے، کرگل ٹوڈے اور سحر عالمی نیٹ ورک کے لئے بھی آپ جموں و کشیمیر سے رپوٹنگ کرتے ہیں، اسلام ٹائمز نے سجاد حسین کرگلی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عراق کی سرزمین پر اربعین امام حسین (ع) کی مناسبت سے کروڑوں زائرین کی موجودگی، دنیا کو کیا تاثر دیتی ہے، کیا اب بھی دولت اسلامیہ فی العراق و شام کے نام نہاد دعووں کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی:
سید الشہداء علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اربعین حسینی کی مناسبت سے کربلائے معلی میں کروڑوں زائرین کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر خود داعش اور انکی جیسی ذہنیت رکھنے والے ہر یزدیدی کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو امام عالی مقام علیہ السلام کے شعار ’’ہیہات من الذلہ‘‘ سے سرشار ہوکر آج بھی تمام ظالم طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حریت و عدالت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سرزمین پاکستان ہو یا پھر یمن، عراق، شام اور بحرین غرض ہر جگہ اس وقت یزیدی طاقتوں کے نشانہ پر حسینی کھڑا ہے اور اپنے پاک خون سے ان کے باطل وجود کی تباہی صفحہ قرطاس میں رقم کر رہا ہے۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیم داعش کی جانب سے بہت سے معصوموں کے قتل عام سے عزاداروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش جاری ہے تاہم اس کے باوجود بھی عشق حسینی کا جوش قطعی ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، جس کا ثبوت عراق میں عزاداروں کا ہرسال بھڑتا ہوا یہ قافلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: شام و عراق میں تکفیری دہشت گردوں کا قافیہ حیات اب تنگ نظر آرہا ہے، اب دیگر دنیا اور عالم اسلام میں داعش کی کارروائیوں کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
سجاد حسین کرگلی:
جہاں تک میرا نظریہ ہے داعش ایک نقلی تنظیم ہے اس کی مثال نئی بوتل پرانی شراب کی سی ہے، داعش کچھ بھی نہیں بلکہ سامراجی طاقتوں نے طالبان، القاعدہ اور  اس سے منسلک تنظیموں کے نام بدل کر داعش رکھ دیا ہے، تنظیم وہی پرانی ہیں مگر نام بدل دیئے گئے ہیں، اگر یہی لوگ افریقہ میں الشباب یا بوکو حرام کے نام سے لڑ رہے ہیں تو شام میں النصرہ یا فری سیرین آرمی کے نام سے، غرض ان کے نام الگ الگ ہیں لیکن ان کی فعالیت ان کے آقا اور ان کو فنڈنگ کرنے والے ممالک نیز ان کی حکمت عملی اور مفاد کے حصول کے لئے کام کرنا ہے، اس وقت دنیا کو دہشت گردوں کی مختلف تنظیموں کے مختلف ناموں سے گمراہ کیا جا رہا ہے، ہمیں ہر حال میں آگاہ رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: یمن میں سعودی جارحیت جو ہنوز جاری ہے اس پر آپ کی تشویش کیا ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی:
جیسا کہ امام علیہ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یمن اسلام کی سپر ہے، بالکل اسی طرح اس وقت یمن آل سعود کے ظالم بادشاہوں کے مظالم کو اپنی مظلومیت کے ذریعہ دنیا کے سامنے آشکار کرا رہا ہے، لیکن جیسا کہ شاعر نے کہا ہے، خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا۔۔۔ ظلم بس ظلم ہے بڑتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے اور اس بات پر کوئی شک نہیں کہ یمن اس جنگ کا فاتح ہوگا اور آل سعود تاریخی رسوائی کے دلدل میں ڈوب جائیگا، یقینا یمن اپنی تمام مظلومیتوں کے ساتھ اسلام کا ایک عظیم دفاع میں مشغول ہے اور یمن کی کامیابی قریب ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کا تعلق چونکہ جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع کرگل سے ہے، حد متارکہ پر موجودہ صورتحال کیا بنی ہوئی ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی:
لائن آف کنٹرول پر اس وقت بالکل امن ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے حکام اس علاقہ کے عوام کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے تناؤ سے پرہیز کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کرگل اسکردو روڈ کی بحالی کے سلسلے میں دونوں طرف کے حکمران ایک دوسرے ممالک پر غفلت شعاری اور سیاسی کھل کھیلنے کے الزامات لگا رہے ہیں، واقعیت کیا ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی:
ہندوستان اور پاکستان کے حکمران دراصل ایک دوسرے پر اعتماد کم کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دونوں طرف کے رہنما عالمی استعمار پر زیادہ بھروسہ رکھتے ہیں، بدقسمتی سے ہند و پاک روابط کو عدم اعتماد نے تباہ کر دیا ہے، جہاں تک کرگل اسکردو سڑک رابطہ اور حکمرانوں کے ایک دوسرے پر الزامات کا سوال ہے یہ سیاسی حکمت عملی اور کھیل ہے۔ حقیقی معنوں میں گلگت بلتستان اور لداخ میں ہزاروں منقسم خاندان آج بھی ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں اور دونوں ممالک نے جس طرح متعدد مقامات پر آر پار کے لوگوں کے لئے سرحدیں کھول دی ہیں کرگل لداخ اور گلگت بلتستان کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ ان کو بھی یہ مواقع ملنے چاہیئے کہ وہ اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب سے مل سکیں۔

دراصل گلگت، بلتستان اور کرگل لداخ کے عوام کی ایک ہی تاریخ، زبان و ثقافت ہے اور اس علاقہ میں دہشت گردی نامی بلا کا کوئی دور دور تک کا واسطہ نہیں اس کے باوجود یہاں کے عوام گذشتہ ستر سالوں سے آر پار کی اس کشیدگی کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو انسانی بنیادوں پر نہ صرف کرگل اسکردو بلکہ گللتری، دراس اور ترتک، چھوربٹ لہ سٹر رابطہ بھی بحال کیا جانا چاہئے۔ کیوں کہ خطہ لداخ بالعموم اور کرگل بالخصوص چھ ماہ کے لئے پوری دنیا سے منقطع رہتا ہے تو ایسے موقعہ پر اس سٹرک رابطہ سے کم از کم یہاں کے عوام کو کافی مشکلات کو دور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں علماء کرگل کو متحد کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے، آپ ان کاوشوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سجاد حسین کرگلی:
یہ ایک بہت اچھی پہل ہے اور کرگل کی پوری قوم اس وقت علماء کرام کی طرف امیدوں بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، امید کرتے ہیں کوئی ثمر بخش نتیجہ نکلے گا تو کرگل کے عوام راحت کی سانس لیں گے، اس وقت کرگل کی قوم ایک تاریخی دور سے گزر رہی جہاں پوری دنیا میں افراتفری کا عالم ہے اور اس دور میں ہمارے اختلافات ہمیں کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 500906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش