0
Monday 30 Nov 2015 18:56

اگر پاکستان اور ایران مل جائیں تو اس علاقے کو تسخیر کر سکتے ہیں، میجر جنرل (ر) جمشید ایاز

پاک دفاعی نظام محمد علی باکسر جیسا، داعش کی کیا مجال پاکستان آئے
اگر پاکستان اور ایران مل جائیں تو اس علاقے کو تسخیر کر سکتے ہیں، میجر جنرل (ر) جمشید ایاز
میجر جنرل (ر) جمشید ایاز خان، ہلال امتیاز ملٹری کا شمار ملک کے معروف دفاعی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے صدر اور وزارت دفاع میں ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ آپ پاکستان اور ایران کے مابین بہترین معاشی اور تجارتی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے میجر جنرل (ر) جمشید ایاز خان سے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاک آرمی کو درپیش چیلجنز پر بات چیت کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ ملکوں کے مابین جنگوں کے انداز تبدیل ہو چکے ہیں، پہلے یوں ہوتا تھا کہ ایک ملک دوسرے پر حملہ آور ہوتا تھا، لیکن آج دشمن دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ ہمارے ملک میں مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر دشمن ملک کے امن کو تہہ و بالا کر رہا ہے، ایک دفاعی تجزیہ نگار کے طور پر دشمن کے خلاف پاک آرمی کے اقدامات کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

میجر جنرل (ر) جمشید ایاز: بسم اللہ الرحمان الرحیم، جی بالکل آپ صحیح کہہ رہے کہ آج جنگ کرنے کے طریقے تبدیل ہو چکے ہیں، اگر کوئی ملک دوسرے ملک کی سرحدوں پر حملہ آور ہوگا، مزاحمت ہوگی ، اس طرح بات نہیں بنے گی، پاکستان جیسا ملک بھی انڈیا کے خلاف اپنا دفاع کرتا اور ٹھیک ٹھاک دفاع کرتا ہے، پھر یہ لوگ دوسرے طریقوں سے ان جنگوں کو لڑتے ہیں، ایک تو معاشی طور پر جنگ مسلط کرتے ہیں اور پھر دوسر ا دہشت گردی کے ذریعے جنگ مسلط کی جاتی ہے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ نئے دور کی ان جنگوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان نے خود کو بڑا مضبوط رکھا ہوا ہے، دشمن پاکستان کو ان جنگوں کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا پاتا، پھر ہمارے فوجی سربراہ راحیل شریف ان جنگوں کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں، ان کا دفاعی نظام انتہائی کارگر ہے، مکمل طور پر لڑائی بھی نہیں لڑی جاتی لیکن دشمن پر رعب اور دبدبہ قائم رہ جاتا ہے، پاکستا کی مضبوطی کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ پاکستان کے لوگ انتہائی غیرتمند اور دلیر ہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی فوج بھی بہت مضبوط ہے، پاکستان کا دفاع محمد علی کلے باکسر جیسا ہے، جیسا کہ اس کا دفاعی پنچ بہت شانداز تھا، پاکستان بھی ایک پنچ لگا کر اپنا دفاع مضبوط کر لیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف پاک آرمی ملکی سالمیت کے دشمن تحریک طالبان کے خلاف برسرپیکار ہے، تو دوسری جانب عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے پاکستان آنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں، پاک آرمی اس عالمی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ نمٹنے کے لئے کس حد تک تیار ہے۔؟

میجر جنرل (ر) جمشید ایاز: گذشتہ چند ماہ سے کافی شور مچا ہوا ہے کہ داعش آجائے گی داعش آجائے گی، پاکستان میں گھس جائیں گے، لیکن داعش نے ایسی جرات نہیں کی ، داعش کی مجال کیا کہ پاکستان میں آئے، پاکستان میں آنے کے لئے انہیں یہاں کے دہشت گردوں کی معاونت درکار تھی جو انہیں نہیں مل پائی، چونکہ یہاں پاک آرمی نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، پاک آرمی کے ساتھ ساتھ ہماری خفیہ ایجنسیاں انتہائی پیشہ وارنہ مہارت اور تجربے کی حامل ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے داعش پاکستان میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتی۔ داعشی ہمارے ملک میں نہیں آ سکتے، جہاں تک طالبان کا تعلق ہے کہ تو انڈیا اور افغانستان کی معاونت سے یہاں کارروائیاں کررہے تھے لیکن اب آہستہ آہستہ ان کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے، آرمی نے طالبان کو مار بھگایا ہے، اس کامیابی میں آرمی کے ساتھ ساتھ ایئر فورس کا بھی بڑا کردار شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم صاحب نے بیان دیا ہے کہ دہشت گرد مشترکہ دشمن ہے، فرانس کی مدد کرینگے ، دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ہم فرانس کی کس قسم کی مدد کر سکتے ہیں۔؟
میجر جنرل (ر) جمشید ایاز:
دیکھیں مدد کئی طرح کی ہو سکتی ہے، یہ درست ہے کہ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے، ہم ترقی پذیر ہیں، لیکن خفیہ معلومات کے تبادلے میں ایک دوسرے کی کافی حدتک مدد کی جا سکتی ہے، ہم اس سلسلہ میں فرانس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے بھی معاہدہ کرسکتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلہ ہو سکے۔ پاکستان اس سلسلہ میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے، چونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑنا ہے، یہ پاکستان بہتر جانتا ہے۔

اسلام ٹائمز: نائن الیون کے بعد جس طرح ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا گیا، فرانس واقعے کے بعد بھی ایسا سمجھا گیا، پھر شام پر فرانس نے حملے شروع کئے، کیا ایسا نہیں کہ یہ عالمی طاقتیں خود ہی ان دہشت گردوں کو پروان چڑھاتی ہیں، ان سے گھناونی کارروائیاں کرائی جاتی ہیں اور پھر مسلمان ممالک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔؟
میجر جنرل (ر) جمشید ایاز:
آپ صحیح کہہ رہے ہیں، یہ ہو سکتا ہے، دہشت گردی کہیں بھی ہو چاہے فرانس میں ہو یا شام میں ہم اس کے خلاف ہیں، نائن الیون میں امریکہ کا اپنا ہاتھ تھا، جس کے بعد انہوں نے طے شدہ پلان کے مطابق افغانستان پر حملہ کیا، امریکہ ایک چال باز ملک ہے، اس کی چال بازیاں عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں، ان دنوں میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اوبامہ کو چاہیئے کہ چین کے ساتھ ملکر ایشیا کو پرامن بنائے، لیکن بعد ازاں مختلف لابیز ملوث ہوئیں اور انہوں نے چائنہ کے خلاف انڈیا کا ساتھ دینے پر امریکہ کو مشورہ دیا، لیکن کوئی بھی ملک اگر بہتر طریقے سے آپریٹ کرے تو کامیاب ہو سکتا ہے، ایک وقت آئے گا کہ پاکستان امن کے لئے اس خطے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

اسلام ٹائمز: دو بڑے مسلمان ممالک شام اور عراق عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر تہس نہس ہوئے، داعش نے اپنا گھناونا کردار ادا کیا، اس پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
میجر جنرل (ر) جمشید ایاز:
آپ کی بات بجا ہے، عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کا کردار بھی بہت ہی قابل مذمت رہا ہے، شام اور عراق مسلم دنیا کے دو خوبصورت ترین ملک تھے جن کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے، اس گھناونے کھیل میں امریکہ کا کردار واضح ہے، ان سارے معاملات میں انڈیا کے کردار کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے، انڈیا میں انتہا درجے کی غربت ہے لیکن اس کے باوجود جنگی جنون اس پر ہاوی ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ بتائیے کہ پوری دنیا میں ایرانی سفارتکاری کو کیسے دیکھتے ہیں، عالمی طاقتوں کی پابندیاں ہوں یا دیگر معاملات ان میں ایران نے کامیاں سمیٹیں ، آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
میجر جنرل (ر) جمشید ایاز:
پاک ایران تعلقات پر کئی سال قبل میں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہونا چاہیئے، ہمیں سمندری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، اگر پاکستان اور ایران مل جائیں تو اس علاقے کو تسخیر کر سکتے ہیں، انڈیا کی غنڈہ گردی سے بھی بچا سکتے ہیں، ایران بہت پرانا اسٹریٹیجیکل ملک ہے، ایرانی بہت سوچ سمجھ کر پلاننگ کرتے ہیں، انہوں نے بہت اعلیٰ طریقے سے پابندیاں ہٹوا دیں، کسی ملک سے لڑائی نہیں کی اور اپنا حق بھی محفوظ کر لیا ہے، پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایرانی سفارتکاری سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 501241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش