4
0
Sunday 28 Feb 2016 21:23
ڈاکٹر شہیدؒ ہمیشہ ملت تشیع پاکستان کیساتھ مربوط رہے، تمام مسائل میں ملت کیساتھ عملی میدان میں موجود رہے

ملت تشیع پاکستان کو خط امامؒ و نظام ولایت فقیہ سے مربوط رکھتے ہوئے متحرک ملت بنانا ڈاکٹر شہیدؒ کا واضح ہدف تھا، نوازش رضا

چاہئے جتنے بھی کٹھن حالات ہوں، ڈاکٹر شہیدؒ ثابت قدمی کیساتھ فرنٹ لائن پر انتھک جدوجہد کرنیکے قائل تھے
ملت تشیع پاکستان کو خط امامؒ و نظام ولایت فقیہ سے مربوط رکھتے ہوئے متحرک ملت بنانا ڈاکٹر شہیدؒ کا واضح ہدف تھا، نوازش رضا
سید نوازش رضا رضوی کا تعلق کراچی سے ہے، وہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے ساتھیوں میں سے ہیں، ان کا شمار سینیئر تنظیمی افراد میں ہوتا ہے، وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے صدر اور تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے سید نوازش رضا رضوی کے ساتھ شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی برسی کی مناسبت سے شہیدؒ کے افکار و روش کے موضوع کے حوالے سے مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر سید محمد علی نقویؒ کی تنظیمی و اجتماعی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو کیا تھا۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی فعالیت میں سب سے نمایاں پہلو ان کا مسلسل جدوجہد کرنا تھا، نہ تھکنے والی جدوجہد، اپنے آپ کو مسلسل انتھک حرکت میں رکھنا، اپنے آپ کو مسلسل عملی میدان میں رکھنا، یہ سب سے اہم پہلو تھا۔ انہوں نے ملت تشیع پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو مربوط رکھا، ہر مسائل میں ملت کے ساتھ عملی میدان میں موجود رہے، تمام مسائل، ہر چھوٹے بڑے ایشو پر ہمیشہ فرنٹ لائن پر جدوجہد کرتے پائے گئے، یہ مسلسل جدوجہد کرنا انکی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ چاہئے وہ فیصل آباد کا کنونشن ہو، قرآن و سنت کانفرنس ہو، قیادتوں کا انتخاب ہو، آئی ایس او کا قیام ہو، بڑے بڑے قومی اجتماعات کا انعقاد ہو، مرکزی کنونشنز ہوں، تمام قومی مسائل میں، حتٰی سانحہ مکہ کے بعد حج پر جانا، وہاں برأت از مشرکین کرنا، ڈاکٹر صاحب ہر جگہ فرنٹ لائن پر نظر آتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو کبھی بھی سسٹم سے نہیں ہٹایا۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہیدؒ کی اپنے قریبی ساتھیوں یا نظریاتی جانشینوں سے کیا خواہشات تھیں۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی انتہائی حقیقت پسند انسان تھے، ساتھیوں سے یہ توقعات رکھنا کہ وہ میرے بعد یہ کر لیں گے، فلاں کر لیں گے، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ ان کو بہت کم عمر میں شہادت نصیب ہوگئی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب بہت سارے تجربات سے گزر چکے تھے، ممکن ہے کہ شاید ڈاکٹر صاحب کو کچھ لوگوں پر اعتماد تھا کہ قم (المقدسہ) جائیں گے، اور واپس آکر ملی حوالے سے اہم کردار ادا کرینگے، لیکن ڈاکٹر صاحب کی یہ امیدیں ان لوگوں کے قم سے واپس پاکستان آنے کے بعد ختم ہوگئی تھیں، اس کے بہت سارے واقعات ہیں، جس کا ڈاکٹر صاحب نے کئی مواقعوں پر اظہار بھی کیا، شاید ڈاکٹر صاحب اس حقیقت کو تسلیم کر چکے تھے کہ کسی سے توقعات وابستہ کرنا کہ یہ ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہوگا، ظاہراً ایسے بہت سارے نام ہیں، لیکن جب وہ لوگ واپس پلٹے ہیں، یا جب ان کا کردار سامنے آیا، جو انہوں نے راستہ اختیار کیا تھا، وہ ڈاکٹر صاحب کے نظریات، سوچ، فکر سے بالکل متصادم تھا، ڈاکٹر صاحب ان سے ناامید ہوچکے تھے، اور کئی ساتھیوں سے اس کا اظہار بھی کرچکے تھے کہ یہ لوگ کام کے نہیں رہے۔ وہ کہتے تھے کہ رہے گا وہی جو مردِ میدان ہوگا، یعنی جس کے اندر خلوص و صلاحیت ہوگی، وہ مرد میدان ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ توقع ضرور تھی، ان کے اہداف بہت واضح تھے، مثلاً حضرت امام خمینیؒ نے جو نظام متعارف کرایا تھا، جسے ہم خطِ امامؒ کہتے تھے، یا جسے اب نظام ولایت فقیہ کہتے ہیں، اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا واضح ہدف تھا کہ ملت تشیع پاکستان کو خط امامؒ یا نظام ولایت فقیہ سے مربوط رکھا جائے، ملت کو نظام ولایت کے تحت متحرک ملت بنائیں، ایک ایسی ملت جو مملکت کے اندر اپنا بنیادی کردار ادا کرے، جس کی اہمیت ہو، ڈاکٹر صاحب اس بات کا اظہار محافل میں، اپنے ساتھیوں سے کرتے رہتے تھے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب اسلامی کے بعد پاکستان میں خط امامؒ، نظام ولایت فقیہ کو اسکے صحیح خدوخال کے ساتھ متعارف کرنے میں ڈاکٹر صاحب کا اہم اور بنیادی کردار ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ڈاکٹر شہیدؒ کے نظریاتی ساتھی انکے اہداف کو کامیابی کے ساتھ لیکر آگے بڑھے۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے، اس کا تعلق ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے نہیں ہے، یہ سوال انکے ساتھیوں سے مربوط ہے، ان میں سے ہر ایک سے الگ الگ جا کر پوچھنا چاہیئے کہ جو ڈاکٹر صاحب کے وارث و جانشین ہونے کے دعویدار تھے، کہ کیوں آپ گوشہ نشین ہوگئے، کیوں آپ نے اپنے آپ کو سونے کے پنجرے میں قید کر لیا، اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے بہت سے شیلٹرز لے لئے، آج بہت سارے لوگ جو مختلف سسٹم اپنائے بیٹھے ہیں، یہ ڈاکٹر صاحب کی فکر سے متصادم تھا، ڈاکٹر صاحب اس کے قائل نہیں تھے، ڈاکٹر صاحب بالکل عملی میدان میں رہنے کے قائل تھے، چاہئے جتنے بھی کٹھن حالات ہوں، وہ فرنٹ لائن پر ثابت قدم رہنے کے قائل تھے، یہ سوالات ان سے ضرور کریں، جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی وراثت و جانشینی کا دعویٰ کیا۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہیدؒ کی تربیت کے حوالے سے روش کیا تھی۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
ڈاکٹر صاحب کا تنظیم کے اندر اور خود ملت کی تربیت کا ایک نظریہ تھا، لیکن واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جتنے بھی افراد تیار کئے، ان کی تربیت کا انداز ہمارے رائج موجودہ تربیتی نظام سے مختلف تھا، آج ہمارے رائج نظام تربیتی کے مقابلے میں معلوماتی زیادہ ہوتا ہے، یعنی آج کوشش ہوتی ہے کہ افراد جو اللہ، محمدؐ، علیؑ زبانی یاد کرا دیں، یا دروس یاد کرا دیں، اس معلومات کی فراہمی کا نام ہم نے تربیت رکھ دیا ہے، ڈاکٹر صاحب کا نظریہ تربیت بالکل ہی الگ تھا کہ تربیت دینے والا خود کتنا تربیت یافتہ ہے، عملی میدان میں خود کتنا عمل پیرا ہے، اس حوالے سے کتنا طاقتور ہے، ڈاکٹر صاحب کردار کے ذریعے تربیت کے بہت قائل تھے، ان کے دور میں بہت سے تربیتی کیمپس لگے، لیکن ان کیمپس میں جو مرکزی کردار ہوتا تھا، وہ خود بہت مضبوط کردار کا حامل ہوتا تھا، افراد اس رول ماڈل کے عکس کو اپنے اوپر نافذ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر کیمپ چار پانچ دن کا ہوتا تھا تو اسکے مرکزی کردار، تربیت دینے والے تمام دن وہاں رہتے تھے، افراد ان کے وہاں عملی کردار کو دیکھ کر اسے اپنے اوپر نافذ کرنے کیا کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب اس روش کے قائل تھے کہ تنظیموں اور اداروں کو مثبت طور پر اگر آگے کی طرف بڑھانا ہے، تو ضروری ہے کہ تربیت کرنے والے افراد پہلے خود تربیت یافتہ ہوں، ان کی اخلاقی تربیت بہت ضروری ہے، اس کو مضبوط روحانی کردار کا حامل ہونا چاہیئے، تربیت کرنے والا خود جھوٹ، بدگمانی، غیبت، حسد و دیگر روحانی برائیوں سے کتنا دور ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کیلئے درد دل ہونا بھی ضروری ہے، ڈاکٹر صاحب اس نظریئے کے قائل تھے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جب تک آپ گوشہ نشین ہوکر خاموشی کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوں، اور آپ کو معاشرے کا ہر فرد اچھا سمجھے گا، بدمعاش بھی اچھا سمجھے گا، مثال کے طور پر آپ کے پڑوس میں ایک بزرگ بیوہ خاتون کے گھر پر قبضہ ہو اور آپ خاموشی کے ساتھ مقدس ماب بنے ہوئے اپنی عبادت میں مصروف رہیں، تو بدمعاش بھی آپ کو اچھا سمجھے گا، ایسی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جو معاشرے کے کام نہ آسکے، لیکن اگر اس کے برعکس ہو یعنی آپ کہیں کہ میری عبادت کا اصل مقصد ہدف یہی ہے کہ میں اس بزرگ بیوہ خاتون کو اسکا حق واپس دلواؤں۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے کہ آپ کی عبادی و روحانی تربیت ایسی ہو کہ آپ معاشرے میں ظلم و ستم پر خاموش نہ رہیں، بلکہ مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف عملی قیام کریں، اس سے برسرپیکار ہوں۔

ڈاکٹر صاحب ان تمام چھوٹے بڑے نکات پر بھرپور توجہ دیتے تھے، اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے یہ کام بہت کیا تھا، انہوں نے بہت سارے افراد کی عملی میدان میں تربیت کی، ڈاکٹر صاحب تمام احکام پر پہلے خود عمل کرتے تھے، اس کے بعد افراد کی تربیت کرتے تھے، جس کا اثر ہوتا تھا، وہ صرف دروس دینے کی حد تک محدود نہیں تھے، بلکہ انہوں نے افراد کے وجود کو اپنے کردار سے تبدیل کیا تھا، تربیتی میدان میں بھی انہوں نے خط امامؒ کے نظریئے کے تحت فعالیت انجام دی، جس کے بعد تمام افراد خط امامؒ یا نظریہ ولایت فقیہ کے سانچے میں میں ڈھل کر تیار ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے سیاسی شعور و تربیت کے حوالے سے بھی اقدامات کئے، وہ تو خاندانوں کی تربیت کے قائل تھے، انہوں نے قومی شعور کی سطح بلند کرنے کیلئے، قوم کو اجتماعی دھارے میں لے جانے کیلئے، اجتماعی احساس پیدا کرنے کیلئے اقدامات کئے، بڑے بڑے عوامی اجتماعات منعقد کئے، وہ قومی و ریاستی معاملات میں، ملکی سطح پر ملت کے اثر انداز ہونے کے قائل تھے، یہ ڈاکٹر صاحب کا نظریہ تھا، انکی ہی سوچ تھی کہ جس کے باعث آج ملت تشیع میں یہ سوچ پیدا ہے کہ ہمیں بھی ریاستی و ملکی معاملات میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہئے، ملت سازی کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے بنیادی کردار ادا کیا۔ بڑے بڑے قومی و ملی اجتماعات کی بنیاد ڈاکٹر صاحب کی ڈالی ہوئی ہے، اس سے پہلے کوئی ملکی سطح کے بڑے بڑے اجتماعات کا تصور بھی نہیں کرتا تھا، مثلاً آئی ایس او کے مرکزی کنونشن کہ جس میں ملک کے ہر کونے سے افراد شرکت کرتے ہیں، یہ خود ایک اجتماعی تربیت کا ایک حصہ ہے۔ دینی تربیت میں اہم ذمہ داری اور کردار علماء کرام کو ادا کرنا ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے ایسے علماء کرام کی مکمل سپورٹ کی، ان کیلئے راہیں ہموار کرتے تھے، جو محراب و منبر پر اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کرتے تھے، کوشش کرتے تھے کہ ایسے علماء کو دعائیہ اجتماعات میں لایا جائے، مثلاً دعائے کمیل، دعائے ندبہ کے اجتماعات وغیرہ میں لایا جائے، مجالس عزا میں لایا جائے، انہیں جمعہ اجتماعات میں لایا جائے، محرابوں میں بٹھایا جائے، اس کیلئے لوگوں کو قم و نجف کی طرف سفر کرایا جائے، اس حوالے سے انہوں نے عملاً اقدامات کئے، ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ علماء کرام چاہیں تو پوری ملت میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہیدؒ کی نگاہ کے مطابق ملی تنظیموں کی تربیتی روش کیا ہونی چاہیئے۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
ڈاکٹر صاحب کے مطابق ملی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنان پر ہر حال میں صحیح اسلامی تربیت کا فلٹر لگنا چاہیئے، جس کے بغیر کوئی بھی تنظیموں کے اندر اوپر نہ آسکے، ہر ایک کو ہر حال میں صحیح اسلامی تربیتی فلٹر سے گزر کر آنا چاہیئے، اگر آپ تنظیم کو حقیقی معنوں میں ولایت فقیہ کے نظام سے مربوط رکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا جو بھی آئے وہ اس صحیح اسلامی فلٹر سے ہوکر آئے، اس کے بغیر ہم کسی کو آگے نہیں آنے دینگے، ایسا نہ ہو کہ ہم ہر اس شخص کو صرف اس وجہ سے آگے لے آئیں کہ وہ اچھا نعرہ لگاتا ہے، زوردار تقاریر کرتا ہے، وہ ٹائم زیادہ دیتا ہے، لیکن اس کی عملی زندگی، اسکا رہن سہن نظام ولایت سے متصادم ہو۔ لیکن یہاں واضح ہونا چاہیئے کہ تربیت سے مراد ہمارے یہاں رائج روایتی تربیت نہیں کہ جہاں صرف معلومات فراہم کی جا رہی ہوں، تربیت سے ہماری مراد صحیح اسلامی تربیت با نظریہ ولایت فقیہ، با خطِ امام (رہ)، ایسی تربیت کے جس کا اظہار اسکے پورے وجود سے ظاہر ہو رہا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب ایک اور چیز کے قائل تھے، آپ شجاع و بہادر افراد کو مقام دینے کے قائل تھے، جو فیصلے کرنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے، جو مصلحت پسند نہیں تھے، جو امور میں اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہیدؒ کی نگاہ کے مطابق ملت کے حوالے سے کس سیاسی کردار کے خواہاں تھے۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ ریاست کے اندر اسکی تعمیر و ترقی، اسکے فیصلہ جات میں ہمارا بنیادی کردار ہونا چاہیئے، ملت کو بالخصوص انقلابی طبقے کو اس حوالے سوچنا چاہیئے، ہر حال میں ریاست اور اسکے اداروں تک سفر کرنا چاہیئے، نہ صرف ملت تشیع، بلکہ تمام مظلوم ملت کے حقوق کی بازیابی کیلئے راستہ نکالنا ہوگا، ان کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی، لیکن تمام اقدامات مثبت طریقے سے اٹھانے ہونگے، ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے کہ لوگوں کی شعوری سطح اور سیاسی بصیرت کو بلند کرتے ہوئے ہمیں اپنی ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سفر کرنا چاہیئے اور اپنا اہم اور بنیاد کردار ادا کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہ کی ترویج میں ڈاکٹر شہیدؒ کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید نوازش رضا رضوی:
اگر میں تھوڑا کھل کر کہوں تو پاکستان میں انقلاب اسلامی، خط امام خمینیؒ، نظریہ ولایت فقیہ کو دراصل جوانوں نے پھیلایا، معذرت کے ساتھ علمائے کرام کا طبقہ اس حوالے سے بہت پیچھے تھا، ڈاکٹر صاحب کے تربیت یافتہ نوجوان، انکی فکر کے حامل نوجوان پھیل جاتے تھے، لوگوں کو دلائل کے ساتھ قائل کرتے تھے، لوگوں کو نظام ولایت فقیہ سے مربوط کرتے تھے، اگر آج پاکستان میں ایک بڑی تعداد اس نظام کو قبول کرتی ہے، اسکی حمایتی ہے، تو اس میں بنیادی اور اہم کردار ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ انقلاب اسلامی اور نظام ولایت فقیہ کیلئے جلسے کئے گئے، انقلابی فلمیں دکھائی گئیں، انقلابی لٹریچر کو پاکستان بھر میں پھیلایا گیا، امام خمینی کی کتابوں کا اجراء کیا گیا، فکری نشستوں کا انعقاد کیا گیا، ہر وہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ جس سے انقلاب اسلامی کے پیغام اور خط امام و نظریہ ولایت فقیہ کی پاکستان میں ترویج ہوسکے، جس سے یہ لوگوں میں متعارف ہوسکیں، آج بدقسمتی سے دعائے کمیل کے اجتماعات رسمی بن کر رہ گئے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب کا دور تھا جب گامے شاہ میں انقلابی دعائے کمیل ہوا کرتی تھی، ڈاکٹر صاحب نے اس کی بنیاد گامے شاہ میں ڈالی تھی، آغا علی موسوی مرحوم اس کی کبھی تلاوت کیا کرتے تھے، وہ انقلابی دعائے کمیل اس وقت انقلاب اسلامی کے پیغام کی ترویج کا بہت بڑا ذریعہ تھی، اس کے علاوہ بھی بہت سارے چھوٹے بڑے اجتماعات منعقد کرنے میں ڈاکٹر صاحب نے اقدامات کئے، پوری سپورٹ کیا کرتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کی سالگرہ کو پورے ملک میں منانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرتے تھے، حضرت امام خمینی کے آنے والے ہر پیغام کو پورے ملک میں پھیلانے، لوگوں تک پہنچانے کیلئے پورا زور لگایا کرتے تھے، اسی طرح امام خمینیؒ کی ذات کو متعارف کرانے کیلئے ہر ذرائع کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 524245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
ماشاء اللہ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہید کی جدوجہد پر خوب روشنی ڈالی۔۔۔ پروردگار عالم، شہید کے تمام نظریاتی ساتھیوں اور جانشینوں کو، اور ہم سب کو انکے مقدس مشن کو خلوص کیساتھ آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سید
ماشاءاللہ نوازش آغا
مشہدی
جہاں تک ہم جانتے ہیں، آپ نے بھی شہید کے ساتھ کافی قریب رہتے ہوئے وقت گزارا ہے۔۔۔۔ لیکن آپ ہمیں میدان عمل میں اس طرح نظر نہیں آتے، کہ جیسے آنا چاہیئے تھا۔۔۔۔ امید ہے کہ آپ اس کا جواب دینگے۔
شکریہ
سید علی حمزہ
بہت خوب برادر نوازش
ہماری پیشکش